ایمانوئیل کانٹ/مبشر حسن

کانٹ کی پیدائش ہوئی 22 اپریل 1724 عیسوی میں اور وفات 12 فروری 1804 عیسوی کو، ملک جرمنی کا رہنے والا تھا۔
ایمانوئیل کانٹ کو جدید ادوار کا مؤثر ترین فلسفی خیال کیا جاتا ہے۔ اُس نے یونیورسٹی آف کو نگسبرگ سے تعلیم حاصل کی۔ کالج میں اُس نے خاص طور پر کلاسکس کا مطالعہ کیا اور یونیورسٹی میں طبیعیات اور ریاضی پڑھتا رہا۔ اپنے باپ کی موت کے بعد اُسے یو نیورسٹی کیریئر منقطع کر کے بطور نجی ٹیوٹر روزی کمانا پڑی ۔ 1756ء میں ایک دوست کی امداد سے اُس نے سلسلہ تعلیم دوبارہ شروع کیا اور اپنی ڈاکٹریٹ مکمل کی۔ اگلے 15 برس تک وہ یونیورسٹی میں پڑھاتا اور سائنسی و ریاضی کے موضوعات پر لیکچرز دیتا رہا۔ لیکن اُس نے آہستہ آہستہ فلسفے کی تمام شاخوں کی جانب توجہ کی۔
اگر چہ کانٹ کے لیکچرز اور اس دور میں لکھی ہوئی تحریر میں بطور حقیقی فلسفی اُسے شہرت دلانے کا باعث بنیں، مگر وہ 1970 ء سے پہلے یونیورسٹی میں چیئر حاصل نہ کر سکا۔ 1770ء میں اُسے منطق اور مابعد الطبیعیات کا پروفیسر مقرر کیا گیا۔ اگلے 27 برس تک اُس نے پڑھانا جاری رکھا اور کونگسبرگ میں بہت سے طلبا اُس کی جانب کھنچنے لگے۔ کانٹ کی غیر راسخ العقیدہ مذہبی تعلیمات جن کی بنیاد مکاشفہ کی بجائے استدلالیت (Rationalism) پر تھی نے پروشیا کی حکومت کے ساتھ اُس کا جھگڑا کروا دیا اور 1792ء میں فریڈرک ولیم دوم شاہ پروشیا نے اُسے مذہبی موضوعات پر تعلیم دینے یا کچھ لکھنے سے منع کر دیا۔ پانچ سال بعد بادشاہ کی وفات تک کانٹ اس حکم کی اطاعت کرتا رہا اور پھر خود کو آزاد پایا۔ یونیورسٹی سے ریٹائرمنٹ کے ایک سال بعد (1798ء میں ) اُس نے اپنے مذہبی نظریات کا ایک خلاصہ شائع کیا۔

کانٹ کے فلسفہ کو کبھی کبھی تنقیدی فلسفہ“ بھی کہا جاتا ہے اس فلسفہ کا سنگ بنیاد ‘تنقید عقل محض” ( 1781ء) میں موجود ہے جس میں وہ انسانی علم کی بنیادوں کا مطالعہ کرتا اور ایک انفرادی نظریہ علم تخلیق کرتا ہے۔ دیگر فلسفیوں کی طرح کانٹ نے بھی طریق ہائے فکر کو تجزیاتی اور مصنوعی قضیوں (Propositions) میں ممیز کیا۔ ایک تجزیاتی قضیہ وہ ہے جس میں توثیق (Predicate) موضوع کے اندر ہی موجود ہوتی ہے مثلاً  یہ کہنا کہ ” کالے گھر گھر ہیں۔ اس قسم کے قضیے کی سچائی عیاں ہے کیونکہ اس کے متضاد بیان سے قضیہ خود تردیدی یا متناقض (Self-Contradictory) بن جائے گا۔ دوسری طرف مصنوعی یا ترکیبی ‏(Synthetic) قضیے وہ ہیں جن تک خالص تجزیے کے ذریعہ نہیں پہنچا جاسکتا، جیسا کہ یہ بیان: گھر کالا ہے۔ دنیا کے تجربے سے فتح ہونے والے تمام عام قضیے ترکیبی یا مصنوعی ہیں ۔

کانٹ کے مطابق قضیوں کو دو دیگر اقسام میں بھی تقسیم کیا جا سکتا ہے، تجربی اور مقدم یعنی Empirical اور Priori۔ تجربی قضیوں کا انحصار کلیتاً حسی ادراک پر ہے، لیکن مقدم قضیے ایک اساسی درستگی رکھتے ہیں اور اُن کی بنیاد حسی ادراک پر نہیں۔ قضیوں کی ان دو اقسام کے در میان فرق کو تجربی ” گھر کالا ہے اور مقدم دو اور دو چار ہوتے ہیں“ کی صورت میں پیش کیا جا سکتا ہے۔ تنقید عقل محض میں کانٹ کا دعویٰ (Thesis) یہ ہے کہ ترکیبی کو ایک مقدم ادراک بناناممکن ہے۔ یہ فلسفیانہ نقطۂ نظر عموماً ماورائیت کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس قسم کا ادراک ممکن ہونے کو بیان کرتے ہوئے کانٹ نے مادی دنیا کی اشیاء (Objects) کو بنیادی طور پر نا قابل تفہیم خیال کیا۔ منطق کے نقطہء نظر سے اشیاء محض وہ خام مال ہیں جن سے حسیات کی تشکیل ہوئی۔ اشیاء کا اپنا کوئی وجود نہیں، اور زمان و مکاں صرف ذہن کے ایک حصّے کی حیثیت میں وجو در رکھتے ہیں۔۔۔ بطور وجدان جن سے ادراکات کو ناپا اور پرکھا جاتا ہے۔

کانٹ نے یہ بھی کہا کہ ان ادراکات (Intuitions) کے علاوہ متعدد دیگر مقدم تصورات بھی موجود ہیں جنہیں اُس نے زمروں یا ‘ کیٹگریز کا نام دیا۔ اُس نے کینگریز کو چار گروپس میں تقسیم کیا: کمیت (Quantity) سے متعلقہ جو اتحاد تکثیریت اور اجتماعیت ہیں ؛ کیفیت سے متعلقہ جو حقیقت، تردید یا نفی اور تحدید ہیں ؛ نسبت سے متعلقہ جو جوہر اور اتفاق  علت اور معلول اور باہم دگری (Reciprocity) ہیں ؛ اور نہج سے متعلقہ جو امکان وجود اور لزوم ہیں ۔ تجربات اور ادراکات کے متعلق فیصلے دینے کے لیے وجدانات اور کیٹگریز کا اطلاق کیا جا سکتا ہے لیکن انہیں آزادی اور وجود جیسے مجرد تصورات پر لاگو کرنا ممکن نہیں۔ اگر ایسا کیا جائے تو متضاد قضیوں کے جوڑوں (“Antinomies”) کی صورت میں تناقضات سے پالا پڑتا ہے جن میں جوڑے کے دونوں ارکان کو درست ثابت کیا جا سکتا ہے۔

اخلاقیات کی مابعد الطبعیات (1797ء) میں کانٹ نے اپنا اخلاقی نظام بیان کیا جس کی بنیاد اس یقین پر ہے کہ منطق یا استدلال حسن عمل کے لیے حتمی اتھارٹی ہے۔ وہ یقین رکھتا تھا کہ کسی بھی قسم کے افعال سرانجام دیتے وقت منطق سے ہدایت یافتہ احساس فرض کا حامل ہونا لازمی ہے اور مصلحت یا محض قانون یا دستور کی مطابقت میں کیا گیا کوئی اقدام اخلاقی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ کانٹ نے منطق کے تحت دیے جانے والے احکامات کی دو اقسام بیان کیں : مفروضاتی امر (حکم) جو مخصوص مقصد تک پہنچنے کے لیے ایک طے شدہ انداز عمل لاگو کرتا ہے؛ اور دوسرا امر مطلق جو ایک ایسا انداز عمل بتاتا ہے جو اپنی درستگی اور لازمی پن کی وجہ سے اپنانا ضروری ہے۔ امر مطلق کو ہم ضمیر کا حکم بھی کہہ سکتے ہیں۔ کانٹ کے خیال میں یہ اخلاقیات کی بنیاد ہے۔ اس کی رو سے کسی شرط یا استثنیٰ کے بغیر ہر شخص پر یہ پابندی عائد ہوتی ہے کہ وہ وہی کرے جو وہ مماثل حالات میں دوسروں کے لیے کرنالازم سمجھتا ہو۔

کانٹ کے اخلاقیاتی تصورات فرد کی بنیادی آزادی پر اُس کے یقین کا منطقی نتیجہ ہیں۔ یہ اخلاقیاتی تصور” تنقید عقل محض” میں بیان کیے گئے ہیں۔ وہ اس آزادی کو انارکی کی لاقانون آزادی نہیں سمجھتا تھا۔ اُس کے خیال میں یہ خود اختیاری کی آزادی اور منطق کے منکشف کرده قوانین کائنات کی باضمیر انداز میں اطاعت کی آزادی تھی ۔ وہ یقین رکھتا تھا کہ ہر فرد کی بہبود کو مقصد بالذات سمجھنا چاہیے اور دنیا ایک آئیڈیل ( مثالی) معاشرے کی جانب ترقی کر رہی تھی جس میں منطق ہر قانون دہندہ کو اپنے قوانین اس انداز میں بنانے پر مجبور کر دے گی کہ وہ سارے لوگوں کی متفقہ مرضی سے جنم لے سکیں گئے اور ہر مطیع کو اس بنیاد پر لیا جائے گا کہ آیا وہ اس مرضی سے مطابقت رکھتا ہے یا نہیں ۔‘ کانٹ نے اپنے مقالے’دائمی امن“ (1795ء) میں جمہوریائی ریاستوں کی ایک عالمی فیڈریشن کے قیام کی حمایت کی۔

Advertisements
julia rana solicitors

جدید دور کے کسی بھی اور فلسفی کی نسبت کانٹ کا اثر زیادہ گہرا تھا۔ اُس کا فلسفہ  بالخصوص جس صورت میں وہ فریڈرک ہیگل کے ہاں ملتا ہے  ،وہ بنیاد تھا جس پر مارکسزم کی عمارت تعمیر ہوئی۔ مارکس نے ہیگل کا جدلیاتی طریقہ کار استعمال کیا جو متضاد قضیوں کے جوڑوں ‏(Antinomies) کے ذریعہ استدلالی طریقہ کار کی ترقی یافتہ صورت تھا۔ جرمن فلسفی جوہان فٹشے ( کانٹ کا شاگرد) نے اپنے اُستاد کی بیان کردہ دنیا کی معروضی اور موضوعی حصوں میں تقسیم کو مسترد کیا اور ایک عینیت پسندانہ فلسفہ تشکیل دیا جس نے انیسویں صدی کے اشتراکیت پسندوں پر زبردست اثرات مرتب کیے۔ کونگسیرگ یونیورسٹی میں کانٹ کے ایک جانشین ہے ایف ہربرٹ نے اُس کے کچھ تصورات کو اپنے تعلیمی نظام فکر میں شامل کیا۔ کانٹ نے فلسفیانہ تحریروں کے علاوہ سائنسی موضوعات پر متعدد مقالے بھی لکھے جن میں سے کئی طبعی جغرافیہ کے بارے میں ہیں۔ اُس کا سب سے زیادہ متاثر کن کام جنرل نیچرل ہسٹری اینڈ تھیوری آف دی ہیونز (1755ء ) تھا جس میں وہ کائنات کے ایک تیزی سے گھومتے ہوئے نیبولا سے تشکیل پانے کا مفروضہ پیش کرتا ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply