• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • عارضی اقتصادی ری فنانسنگ کی سہولت اسکیم کیا تھی اور اس کے نام پر کیا ہوا؟ /ترجمہ و خلاصہ-عامر حسینی

عارضی اقتصادی ری فنانسنگ کی سہولت اسکیم کیا تھی اور اس کے نام پر کیا ہوا؟ /ترجمہ و خلاصہ-عامر حسینی

عارضی اقتصادی ری فنانسنگ کی سہولت اسکیم

(پاکستان تحریک انصاف اور اس کی طرف سے مقرر کی جانے والی سٹیٹ بینک آف پاکستان کی انتظامیہ نے کیسے کورونا کے دنوں میں پاکستان کی امپورٹ اینڈ ایکسپورٹ اورئیٹیڈ انڈسٹریز کے بند ہوجانے کے خطرے کے تدارک اور ان کے آئندہ کے پھیلاؤ کے منصوبوں کے لیے درکار فنانسنگ کو فراہم کرنے کے نام پر کیسے ٹیکسٹائل (اس میں خاص طور پر سپننگ انڈسٹری سے جڑے گروپوں کو) کل فنانسنگ کا ایک تہائی فراہم کیا اور ایسی رعایتیں مہیا کیں جس کی ماضی میں بھی مثال نہیں ملتی اور اس اسکیم کے جو مقاصد تھے وہ بھی حاصل نہ ہوئے اور اس اسکیم جو کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ حد فاضل سے بڑھا جسے حد ميں لانے کے لیے عام پاکستانی پر بھاری ٹیکسز کی بھرمار کی گئی یہ بھی اس اسکیم سے جڑی بحث کا ایک حصّہ ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا اسحاق ڈار اس سب کے ذمہ داروں کو احتساب کے کہٹرے میں لائیں گے؟)

یہ انگریزی روزنامہ بزنس ریکارڈر کی ویب سائٹ پر اس کے ریسرچ بیورو کی رپورٹ سے لیا گیا خلاصہ ہے :

عارضی اقتصادی ری فنانسنگ اسکیم کورونا کے عروج میں سخت دباؤ کے تحت متعارف کرائی گئی تھی جس کی مالیت 2 کھرب 10 ارب روپے تھی جو جی ڈی پی کا 5 فیصد بنتی تھی-

ٹی ای آر ایف اسکیم میں کئی ایک خصوصی رعایات ایسی تھیں جو پہلے کبھی دیکھی نہیں گئی تھیں، ایک خاص رعایت تو دس سال تک ایک ہی شرح سود پر اس اسکیم کے تحت فنانسنگ کی سہولت تھی جو اس سے پہلے کبھی دیکھنے کو نہیں ملی تھی-

دوسری رعایت دو سال میں کسی بھی سود کے بغیر اصل فنانس کی ری پیمنٹ کی سہولت تھی جبکہ کمرشل بینک عام طور پر ایسی روایتی لانگ ٹرم فنانسنگ پر اصل فنانس کی بنا سود ی پیمنٹ کے لیے لمٹ 6 ماہ رکھتے ہیں-

پھر اس اسکیم کے تحت فنانس پر دس سال کے لیے مارک ا پ کی شرح مخص 5 فیصد رکھی گئی جبکہ اسٹیٹ بینک کی طرف سے جو عام شرح سود تھی وہ 7 فیصد تھی جبکہ حقیقی افراط زر 7اعشاریہ 5 فیصد تھا ، ایسے میں یہ رعایت بھی غیر معمولی تھی-

نجی شعبے نے پہلے دو ماہ تو اس منصوبے کے بارے میں گرم جوشی کا مظاہرہ نہ کیا، صرف 60 کروڑ روپے کے قرضوں کی درخواستیں موصول ہوئی تھیں-

بزنس ریکارڈر کا دعویٰ  ہے کہ اس نے 2021ء میں ہی سٹیٹ بینک آف پاکستان کو خبردار کیا تھا کہ اس منصوبے کے تحت فنانسنگ کا توازن بگڑ کر زیادہ تر ٹیکسٹائل سیکٹر کی طرف ہوگیا ہے۔

اور اس اسکیم کے تحت ٹیکسٹائل سیکٹر کو فراہم کی جانے والی ری فنانسنگ کی سہولت کل فنانسنگ کا 45 فیصد ہوگئی تھی-

اس میں بھی زیادہ ری فنانسنگ سپننگ انڈسٹری کو گئی اور اس سے اس اسکیم کے تمام صنعتوں کے لیے دستیابی کا اصول متاثر ہوا۔

لیکن سٹیٹ بینک پاکستان نے اس اسکیم کو سب صنعتوں کے لیے دستیابی کے لیے کوئی توجہ نہ کی اور ٹیکسٹائل سیکٹر ہی اس منصوبے کا سب سے بڑا بینفیشری بن گیا-

آج سٹیٹ بینک پاکستان اصرار کرتا ہے کہ اس اسکیم کے تحت کمرشل بینکوں نے قرضے اپنے رسک اسسمنٹ کرائی ٹیریا کے تحت جاری کیے اور اس میں اس کا کوئی کردار نہیں تھا-

اس کا توجیح کا کوئی مطلب ہو سکتا ہے، لیکن اسٹیٹ بینک آسانی سے بھول جاتا ہے کہ کسی بھی ری فنانس اسکیم کے تحت تمام درخواستیں بالآخر مرکزی بینک تک پہنچ جاتی ہیں، جس کی حتمی منظوری کے بغیر ری فنانس کی منظوری نہیں دی جاتی، اور قرضے تجارتی شرائط پر ہی رہتے ہیں۔

سٹیٹ بینک نے آج تک اس بات کی وضاحت پیش نہیں کی کہ وہ اس اسکیم کے تحت کسی ایک انڈسٹری کے ساتھ خصوصی رعایتی سلوک ہونے کو کیوں نہ روک پایا۔آج بھی روایتی لانگ ٹرم فنانسنگ کے تحت ٹیکسٹائل سیکٹر خاص طور پر سپننگ انڈسٹری کو قرضے مہیا کیے جارہے ہیں ،یہ سہولت دوسری انڈسٹریز کو نہیں ہے۔

سب سے زیادہ بلند ترین  فنانسنگ 32 ارب روپے کی ہے اور اگر ایسے 5 گروپ بھی ہوں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اس اسکیم کے ایک تہائی قرضے تو محض 5 بڑے گروپ ہی لے گئے-

یہ تمام تر تنقید اس بات کا پتا نہیں دیتی کہ اسکیم اچھی تھی یا بری لیکن سٹیٹ بینک ‘رازداری’ کا بہانہ بناکر احتساب سے بھاگ نہیں سکتا۔

شرح سود اب 23 فیصد ہوچکی ہے اور ایسے میں 5 فیصد مارک اپ پر قرضوں کی فراہمی کا مطلب یہ ہے کہ سٹیٹ بنک کو کم منافع کی قیمت عام پاکستانی چکائے گا-

یہ وقت ہی بتائے گا کہ اس  اسکیم نے پاکستان میں صنعتی پیداواریت کو ترقی دی یا نہیں کیونکہ نہ تو وفاقی حکومت نے اس کو جانچنے کے لیے کوئی اسٹڈی کروائی ، نہ ہی سنٹرل بینک نے۔

اگرعام پاکستانی ایسی رعایتی اسکیموں کے سبب مستقبل میں بھاری ٹیکسز ادا کرنے جارہا ہے تو اسے ایسی اسکیموں کے غلط استعمال سے روکنے کے لیے حفاظتی تدابیر بارے پوچھنے کا بھی پورا حق پہنچتا ہے-

کیا اس اسکیم پر مالیاتی سال 2022 کے نصف میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کے بدترین ہونے کی ذمہ عائد نہیں ہوتی جیسے کہ سی پیک پر الزام ہے اس کی وجہ سے محدود مدت کا امپورٹ کا بوم آیا؟

عام پاکستانی پوچھنے میں حق بجانب ہے کہ سٹیٹ بینک نے اس اسکیم سے صرف چند مخصوص گروپوں کو کیوں فائدہ اٹھانے دیا اور کیوں امپیکٹ اسسمنٹ اسٹڈی نہیں کرائی؟

سٹیٹ بینک چاہتا تو وہ عارضی اقتصادی ری فنانسنگ اور روایتی لانگ ٹرم فنانسنگ کو سب انڈسٹریز کے لیے دستیابی کے لیے اس کے میکنزم کو دی ری ڈیفائن کرسکتا تھا لیکن اس نے نہیں کی-

سب سے اہم بات یہ ہے کہ عارضی اقتصادی ری فنانسنگ اسکیم کے تحت فی گروپ قرضوں کی حد مقرر نہیں کی گئی – اس اسکیم کے تحت بعض بڑے گروپوں نے مختلف حیثیتوں میں اس اسکیم کے تحت سب سے زیادہ فنانسنگ حاصل کی-

سٹیٹ بینک نے  اس اسکیم کے تحت موصول ہونے والی تمام درخواستوں کو اس لیے منظور کرلیا تھا تو یہ آسانی سے بڑے کاروباری گروپوں کی طرف سے اس اسکیم پر غلبہ پانے کے خطرے کا ادراک کرکے تدارک کرسکتا تھا-

کیا سٹیٹ بینک کے عالی شان دماغ یہ جانچنے سے قاصر تھے کہ عارضی اقتصادی ری فنانسنگ کی کیپسٹی کے آن لائن آنے سے بزنس سائیکل دروں بیں ہوگا اور لیکوڈیٹی کے لیے سسٹم میں جگہ نہیں رہے گی-

اسٹیٹ بینک ہر کاروباری گروپ کو مجموعی قرض کے بہاؤ کے بارے میں کوئی علم نہ ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتا، کیونکہ مرکزی بینک اسپانسر گروپ کی ملکیت کے ڈیٹا بیس کو برقرار رکھنے میں کافی حد تک کام کرتا ہے۔

اس اسکیم کے تحت جن کاروباری گروپوں نے اپنے سرمایہ دارانہ منصوبوں کی توسیع کے لیے فنانسنگ لی تھی ان میں سے اکثر یوٹیلائزیشن کی کمی کا شکار ہیں اور ان کی ورکنگ کیپٹل فنانسنگ کے لیے لیکوڈیٹی ہی دستیاب نہیں ہے۔

جنوری 2021ء میں بزنس ریکارڈر کے ریسرچ بیورو نے جب پہلا ریویو اس اسکیم کا جاری کیا جب ابھی ایک کھرب روپے کی ری فنانسنگ ہوئی تھی تو سٹیٹ بینک کے پاس اس اسکیم کے لیے ری فنانسنگ کی شرائط اور قواعد و ضوابط پر نظر ثانی کا وقت تھا۔

سٹیٹ بینک کم از کم یہ تو کرسکتا تھا کہ وہ اس اسکیم سے فائدہ اٹھانے والے گروپوں سے کہتا کہ وہ اپنی انڈسٹری سے ایک ورکر کو بھی بے روزگار نہیں کریں گے اور سب کو پوری پوری تنخواہیں ادا کریں گے،لیکن سٹیٹ بینک ایسی کوئی پابندی نہیں لگا سکا۔

Advertisements
julia rana solicitors

تجارتی مفادات، دنیا میں ہر جگہ، ہمیشہ زیادہ مراعات کے لیے لابنگ کرتے ہیں۔ یہ صرف ریگولیٹر کا کام ہے کہ وہ ثابت قدم رہے اور کاروباری گروپوں اور صنعتوں کے مطالبات کا میرٹ پر جائزہ لے۔ اور اس محاذ پر،SBPکی انتظامیہ نے آخر کار اتنی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔(اس کا سخت الفاظ میں مطلب یہ ہے کہ سٹیٹ بینک آف پاکستان کی ماضی اور حال کی انتظامیہ نے چند بڑے گروپوں کی قیمت چکانے کے لیے پاکستان کے عام شہریوں کو تنہا چھوڑ دیا ان کے مفادات کے تحفظ کے لیے کچھ نہ کیا)

Facebook Comments

عامر حسینی
عامر حسینی قلم کو علم بنا کر قافلہ حسینیت کا حصہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply