حادثہ ایکدم رونما نہیں ہوتا

مشور زمانہ ناول” راجہ گدھ” میں بانو قدسیہ لکھتی ہیں ۔۔۔”کوئی بھی حادثہ اچانک رونما نہیں ہوتا بلکہ اس سے پہلے حادثے کی نفسیات ذہن کے کسی گوشے میں پروان چڑھتی رہتی ہیں. نجانے کیوں موجودہ حالات میں یہ فلسفہ من وعن ہماری تابڑ توڑہنگامی و حادثاتی زندگیوں پر منطبق سا لگتا ہے گویا مسائل و خطرات سے گھری قوم ہمہ وقت کسی ناگہانی آفت کی لا شعوری طور پر منتظر رہتی ہے .آئے روزبم دھماکے، بسوں ،ٹرینوں جہازوں کے بڑے بڑے حادثات جہاں ہماری قومی زندگی کا معمول لگتے ہیں وہاں ہماری تکنیکی پیشہ وارانہ قابلیتوں کی قلعی بھی کھول دیتے ہیں .

سانحہ بہاولپور کے شواہد بتا رہے ہیں کہ ایک سو تئیس لوگوں کے زندہ جل جانے کا واقعہ خود بخود رونما نہیں ہوتا بلکہ کم علمی، لالچ اور غفلت نےمل کر اس المناک حادثے کو جنم دیا. فوٹیج یہ بھی بتا رہی ہے کہ حادثے سے پہلے کافی وقت تھا اس کی وقوع پذیر ی کو کنٹرول کرنے کا ، پیشگی حکمت عملی اختیارکرنے کا،احتیاطی حفاظتی اقدامات کو بروئے کار لانے کا،مگر حسب روایت ذمہ داری ایک دوسرے پر ڈال کر کف افسوس ملنے کے سوا ہم کر بھی کیا سکتے ہیں.اب ہوگا کیا ؟چند دن اگلےہم ایک دوسرے پر انگلیاں اٹھائیں گے،کوتاہیاں تراش تراش کر الزامات کی ٹوپیاں مختلف سروں پہ سجائی جائیں گی،سوشل میڈیا پر واویلا ہوگا، ڈھونڈو رے ڈھونڈو ! سارا قصور تو اس ڈرائیور کا ہے جو اپنی گاڑی کو محفوظ نہ رکھ سکا اور حادثے کا شکار ہوا .

جوابی بیانیہ آئے گا ارے نہیں، حادثہ صرف ڈرائیور کی غلطی سے نہیں ہوتا کچھ دیگر عوامل حادثے کا سبب بنتے ہیں ، مثلاً سڑک کی خراب حالت یا کسی دوسرے ڈرائیور کی غلطی .پھر ایک بیانیہ آئے گا لوگوں نے لالچ کیوں کی اور حفاظتی اقدامات کا احساس کیوں نہ کیا؟اس کے بعد جوابی بیانیہ داغا جائے گا یہ حادثہ کبھی رونما نہ ہوتا اگرصرف ایک آدمی کی سگریٹ سلگانے کی فاش غلطی وجہ نہ بنتی!سادہ سی گزارش ہے۔۔۔کیا اس سے پہلے اس طرح کے واقعات دنیا میں رونما نہیں ہوئے؟ آئل ٹینکر جہاں بھی الٹا لوگوں نے لالچ کیا اور قیمتی جانیں گنوائیں، ایسی فوٹیج دنیا میں پہلے بھی دیکھی اور دکھائی جا چکی ہیں مگرافسوس ابھی تک ہمارے ہاں اجتماعی سطح پر متوقع خطرات کو پیشگی جانچنے کا شعور بیدار نہیں ہوا.

ریاستی کردار کی ناکامی کو میں دو پہلوؤں سے دیکھ سکتا ہوں ایک حادثے سے پہلے کافی وقت تھا اس پرقابو پانے کا جبکہ ایسا نہیں کیا جا سکا، دوسرا حادثے کے بعد مناسب طبی سہولیات کی عدم دستیابی اور فقدان دیکھنے میں آیا، اتنا بڑا ضلع اور برن یونٹ کی سہولت سے محرومی نےذمہ داران کے وجود پر سوالیہ نشان چھوڑ دیے.ریاست کا وجود اس وقت موثر کیوں نہیں تھا جب فوٹیج میں گشت کرنے والی پولیس کی گاڑی تونظر آتی ہے جبکہ ساتھ ہی ٹینکر الٹا پڑا ہے،غریب لوگ مفت کا پٹرول اکھٹا کرنے میں مصروف ہیں اور معمول کی ٹریفک بھی ساتھ ہی رواں دواں ہے .حالانکہ پوری دنیا میں پولیس یا ریاستی مشینری کی ایک کامن پریکٹس یہی ہوتی ہے کہ جہاں کہیں ایکسیڈنٹ ہوتا ہے وہ جگہ فورا ً کارڈن آف کر دی جاتی ہے. سڑک پرٹریفک کو divert کروا دیا جاتا ہے اور متعلقہ اتھارٹیز تحقیق و تفتیش کے بعد حادثے سے جڑی تمام جزئیات کو پوری طرح محفوظ کر کےجائے حادثہ کو دوبارہ عام استعمال کے لیے کھول دیتی ہیں.

Advertisements
julia rana solicitors london

مگر وہا ں بآسانی دیکھا جا سکتا ہے کہ ریاستی مشینری صرف گشت کرنے پر مامور ہے جبکہ غریب لوگ خونی پٹرول اکھٹا کرنے میں مصروف .گمان غالب یہی ہوتا ہے کہ ادارے تو موجود ہیں البتہ اداروں کی کارکردگی مفقود ہے یا شاید ہمارے اداروں کو اتنا با اختیار نہیں کیا گیا کہ وہ لوگوں کو سختی کے ساتھ خطرناک جگہ سے دور رکھ سکیں یا اس وقت پولیس کی فوری طور پر مناسب تعداد میں نفری موجود نہ تھی یا سب کچھ جاننے اور دیکھنے کےباوجود متعلقہ اتھارٹیزکو مجرمانہ غفلت سے نظرانداز کر دینا بہتر محسوس ہوا کیونکہ ادارہ جاتی نفسیات شاید عوام کے ساتھ مل کر چند دن کی پھرتیاں دکھائے ، مزید اعلانات میڈیا کی زینت بنیں ،فوٹو سیشن، پریس کانفرنس ،فنڈز کی منظوری،گلی سڑی لاشوں پر اظہار تاسف ،کچھ دن سوگ اور پھر ایک نئے حادثے کی تیاری!

Facebook Comments

سلیم حسن شاہ
ایم فل سکالر پیشہ کے لحاظ سے ٹریفک وارڈن ہیں جو سماجی نا ہمواریوں پر گہری نظر رکھتے ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply