ہماری عیدیں

ہماری عیدیں
سانحات یا ان پر سوگ منانا اپنی جگہ, عید کے لیے نئے کپڑے جوتے, مختلف اقسام کے طعام, نئی گاڑی, تحائف اور عیدی! سب کچھ درست. چاند رات بازار میں خریداروں سے کم سہی لیکن قابل ذکر تعداد عیدی مانگنے والوں کی جسے عرف عام میں بھیک مانگنے والے یا بھکاری بھی کہا جاتا ہے, ہمارا میڈیا بھی وقتأ فوقتأ اور رمضان میں بالخصوص انہیں رپورٹ کرتا رہتا ہے.
محلے میں کچھ گھر چھوڑ کر ایک خاتون رہائش پزیر ہیں. کل ہی افطار سے زرا پہلے ہمارے گھر افطاری دینے آئیں تو جانے کے بعد میری بیگم نے اس کا تعارف بتانا شروع کیا, بلکل اکیلی ہے. کپڑے سلائی کرتی ہے, کچھ بچوں کے کپڑے اسے سلائی کے لیے دیئے ہیں. ایک گھر میں ایک کمرہ کرایے پر لیا ہوا ہے, کپڑے سلائی کر کے گزر بسر کرتی ہے, وغیرہ وغیرہ تھوڑی سے اچھائی بیان کی جو شاید اس لیے تھی کہ شوہر نامدار کو اس عورت کے ساتھ تعلق پر کوئی اعتراض نہ ہو. میں نے بھی بات سنی ان سنی کر دی کیونکہ مجھے اس سے زیادہ اس بات میں کوئی دلچسپی نہیں تھی.
شام کو بیٹا مسجد سے نماز ادا کر کے آیا تو ماں کو بتا رہا تھا کہ وہ جو آنٹی ہیں جو کپڑے سلائی کرتی ہیں وہ مسجد میں آئی ہوئی تھیں, ماں نے چونک کر پوچھا "ہیں کیا, مسجد میں آئی ہوئی تھیں ? کیوں " بیٹے نے بتایا پتہ نہیں کیوں پر فلاں انکل سے کہہ رہیں تھیں کہ میں اکیلی ہوں اور میرا کوئی وارث نہیں ہے, میری تھوڑی مدد کر دیں. ماں نے سوال کیا پھر ? پھر پتا نہیں میں نماز پڑھنے چلا گیا انکل کہہ رہے تھے کہ آپ رکیں ہم نماز پڑھ لیں تو میں لوگوں سے کہتا ہوں کچھ مدد امداد کے لیے. اس وقت بھی میں نے یہ بات سنی ان سنی کر دی لیکن اب سوچ رہا ہوں
چانس اچھا ہے عورت اکیلی ہے اور ضرورت مند بھی ہے, کہیں سے یا بیگم سے کسی بہانے اس کا نمبر لیتا ہوں, صبح سے ہی اس کے گھر کے سامنے سے چکر لگانے شروع کرتا ہوں. گلی کی نکڑ پہ کھڑا ہوتا ہوں, اسے پٹانے کی کوشش کرتا ہوں. اسے پیسے کا لالچ دیتا ہوں, اس کے گھر کے سامنے کھڑے ہونے کے بہانے سوچنے لگا ہوں اور پھر کامیابی کے خواب دیکھنے لگتا ہوں, یہی ہماری عمومی سوچ ہے.
نہیں ایسا کچھ بھی نہیں ہے, بلکہ میں رات کے سوا دو بجے یہ سوچ رہا ہوں کہ اگر کسی ایسی عورت کے لیے بحیثیت مجموعی ہماری سوچ یہ نا ہو کہ کوئی لاوارث یا اکیلی رہنے والی عورت یقینأ کوئی فاحشہ یا بری عورت ہو گی. اس کا کردار خراب ہو گا یا وہ آسانی سے پھنس جائے گی تو ہم یہ بھی سوچ سکتے ہیں کہ وہ کمرے کا کرایہ کس مشکل سے جوڑتی ہو گی, اسے بجلی اور گیس کا بل بھی ادا کرنا ہو گا, اس کی بھی عید ہو گی, اس کی دیگر ضروریات بھی ہوں گی کہ جنہیں پورا کرنے کے لیے اسے مسجد کے دروازے تک جانا پڑا. کہ جہاں اللہ کہ بندے اس کی اس آواز پر نماز کو ترجیح دے رہے تھے اور کچھ حاجت روائی کے لیے اول نماز کی ادائیگی کے بعد کا وقت دے رہے تھے, چہ جائیکہ وہ اس کی ضرورت کا بندوبست اس کے گھر میں ہی کر دیتے اور اسے مسجد کے دروازے تک جانے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی, کیونکہ سب کو دیا ہوا تو اسی خدا کا ہے کہ جس کے آگے سجدہ ریز ہونے کے لیے ہم مسجد کا رخ کرتے ہیں اور اس خاتون کو بھی اپنی ضرورت کے لیے جانا پڑا.
ہم اپنے آس پاس سے آگاہ نہیں ہوتے, مجھے ماہ رمضان المبارک کا حاصل مل گیا ہے اور میں نے سوچ لیا ہے کہ میرے پڑوس میں ایک معزور شخص بمعہ اہل و عیال رہتا ہے جو بھیک مانگ کر گزر بسر کرتے ہیں. میری گلی میں ایک عورت اپنے دو بچوں کے ساتھ رہتی ہے جس کا اس کے سوا اور کوئی ذریعہ معاش نہیں ہے کہ وہ لوگوں کے گھروں میں کام کرتی ہے. میرے محلے میں ایک ایسی خاتون بھی رہتی ہے کہ کہ جسے کپڑوں کی سلائی کی محنت مزدوری کے سمیت اپنی ضروریات کے لیے اللہ کے گھر مانگنے کے لیے بھی جانا پڑتا ہے.
میں صبح عید کی نماز پڑھوں یا نہ پڑھوں کہ نماز کے اجتماع کا مقصد بھی تو یہی ہے نہ کہ آپ حالات سے آگاہ رہیں اور ضرورت مندوں کی ضروتوں کو پورا کریں. تو میں نماز عید سے پہلے انہیں عیدی بھیجوں گا چاہے وہ میری حیثیت کے مطابق سو پچاس روپے ہی کیوں نہ ہو. میں دعا گو ہوں کہ میرے اہل محلہ کے دلوں میں اس سے بھی بڑے نیکی کے جذبات اٹھ رہے ہوں اور صبح وہ مجھ سے پہلے اس کار خیر میں حصہ لے رہے ہوں بجائے اس کے کہ ہم ان کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے کی ترکیبیں سوچ رہے ہوں. پاراچنار کوئٹہ اور احمد پور شرقیہ کے سانحات میں گزر جانے والوں کی روحوں سے معذرت کے ساتھ مجھے پتہ چل گیا ہے کہ میں نے آج عید کا دن کیسے منانا ہے, مجھے ان کے افسوس اور ایصال ثواب کے ساتھ ساتھ مجھے زندوں کا بھی خیال رکھنا ہے اور یہی میرا ماہ مقدس رمضان کا حاصل اور میری عید ہو گی.

Facebook Comments

اظہر الحسن
ایک نیم خواندہ سا مزدور آدمی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply