بلاول بھٹو زرداری کہہ رہے تھے کہ سیاست بہت خطرناک جبکہ مذہب بہت مقدس ہستی ہے اور ان دونوں کا ملاپ غیر فطری ہے۔ وہ عمران خان کے امر بالمعروف اور ریاست مدینہ کے دعوؤں کو بنیاد بنا کر ایسا کہہ رہے تھے۔ بلاول بھٹو کی بات پچاس پچاس ہے۔ اس کی سوچ کے حساب سے وہ درست ہی کہہ رہا ہے کیونکہ وڈیرہ شاہی، جاگیرداری، بدمعاشی، ہارس ٹریڈنگ، اور میکاولی سیاست اخلاقیات کی نفی ہیں لیکن یہاں سب جائز تسلیم کر لیا گیا ہے حالانکہ سیاست و مذہب الگ ہو ہی نہیں سکتے کیونکہ جب جب اخلاقیات کی بات ہو گی مذہب خود بخود کود آئے گا کیونکہ اچھے اور برے کی تمیز یعنی اعلی اخلاقی و سیاسی نسخوں کی دکان ہی تو مذہب ہے۔ مذہب کو سیاست بچانے کے لیے استعمال میں لانا بہرحال غیر اخلاقی قدر ہے۔ وہ اس لیے سیاست کو خطرناک کہتا ہے کیونکہ سیاست دان ‘ولا تنابزوا باالالقاب’ کی نفی میں ایک دوسرے کو ننگا کر رہے ہیں۔ ایک کے نزدیک دوسرا یہودی ہے تو دوسرا کہتا ہے کہ ڈیزل دس روپے سستا ہو گیا ہے۔ بلاول کی سوچ کے مطابق سیاست واقعی خطرناک ہے اور یہ مزید خرناٹ ہو جائے گی جب سڑک پہ آ جائے گی۔ پاکستانی سیاست اور مذہب واقعی دو جدا گانہ حیثیتوں کا نام ہے کیونکہ یہاں خود ساختہ فرقہ وارانہ مذہب ہی گندی سیاست کو ٹیک دے رہا ہے لیکن اس حقیقت سے نظریں چرانا ممکن ہی نہیں ہے کہ سیاست مذہب کی ہی بچی، پوتی یا پڑ پوتی ہے۔ ہاں، اولاد بگڑ گئی ہے تو مذہب قصوروار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں