صحافت کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے

ویسے تو ہماری صحافت میں پروفیشنل جیلسی اور دھڑے بندی ہمیشہ سے موجود تھی مگر آج کل جو برائے نام پرو جمہوریت اور اینٹی اسٹیبلشمنٹ دھڑے بندی نظر آ رہی ہے اس کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ ماضی کی دھڑے بندیوں پر نظر دوڑائیں تو کچھ علمائے سو اور علمائے حق والا معاملہ دکھتا تھا۔ یعنی جب بھٹو صاحب اقتدار میں تھے تو علمائے حق کی نوعیت کے صحافی ان کے سیاسی مفادات کے خلاف لکھتے دکھائی دیتے تھے۔ مرحوم شاہ جی عباس اطہر کی ’’ادھر تم ادھر ہم‘‘ والی شہہ سُرخی بھلا کون بُھلا سکتا ہے ؟ لیکن وہی عباس اطہر محترمہ کی شہادت پر ’’بھٹو دی بیٹی آئی سی‘‘ جیسی انتہائی دردناک مشہور زمانہ نظم لکھتا ہے۔ قطع نظر اس بحث کے کہ کوئی صحافی حکومت وقت پر کس حد تک جائز یا ناجائز تنقید کرتا ہے، مثالی بات ہمیشہ یہی معلوم ہوتی ہے کہ کوئی حُریت پسند حاکم وقت کیخلاف لب کُشائی کی کتنی جرات رکھتا ہے۔ ہرچند کہ حکومتیں بدلتے رہنے والے مغربی جمہوری نظام کا یہ وصف اکثریت کو آپ کادشمن بنا دیتا ہے، مگر صحافت کا معیار ریٹنگ یا فین فالونگ نہیں ہے (اس کا سب سے بڑا ثبوت کاوس جی تھے)۔ حکومت وقت کی وکالت سے آپ اکبرِاعظم کے ابوالفضل تو بن سکتے ہیں مگر چی گویرا نہیں۔

دوسری طرف پاکستان کی تاریخ بد قسمتی سے کچھ ایسی رہی ہے کہ یہاں ہر دور میں محلاتی سازشیں ہوتی رہی ہیں سو انکار ممکن نہیں۔ لیکن وہ لوگ جو ان سازشوں کا حصہ رہے ان میں مرحوم عباس اطہر کا نام کبھی نہیں آیا۔ البتہ ظافروں کی ایک موج ظفر موجود ہے، جن کا ماضی اگر تھوڑا سا بھی کھنگالا جائے تو پتہ چل جائے گا کہ کل کون کس کے ساتھ تھا۔ شاہی جمہوریت کے حق میں نظر نہ آنے والی آمریت کیخلاف سینہ سپر اکثر حریت پسندوں کی تاریخ بھٹو فیملی کیخلاف سازشوں کا حصہ رہی۔ اس پر ستم یہ کہ مثالیں بھی نام لیے بغیر بھٹو اور بے نظیر ادوار کی دی جا رہی ہیں۔ کوئی بتائے کہ جسٹس قیوم کی ٹیپ والوں کا تقابل تختہ دار پر جھولنے والوں سے کیسے ممکن ہے؟ جے آئی ٹی کی پیشیوں، تصویر اور واٹس ایپ ایشو کا تقابل آصف زرداری کی کٹی زبان، گیارہ سال بغیر جرم ثابت ہوئے قید، محترمہ کی نظر بندیوں، حراستوں اور بھائی کے قتل پر پیشی سے کیسے ممکن ہے؟ ماں کا ہاتھ پکڑے جیل کے دروازے پر نظر آتے بچوں (بلاول، بختاور اور آصفہ) کا تقابل جے آئی ٹی کے کمرے میں (جو غالباً ائیر کنڈیشنڈ بھی ہوگا) سائڈ ٹیبل کے ساتھ پڑی معقول کرسی پر بیٹھنے والے جواں سال حسین اور حسن نواز سے کیسے ممکن ہے ؟ نواز کی اسمبلیوں کی بحالی اور اسی نوعیت کے مقدمہ میں محترمہ کیخلاف فیصلے کا تقابل کیسے ممکن ہے؟ شریف خاندان کی ساری زندگی کی جمہوری جدو جہد ایک طرف اور محترمہ نصرت بھٹو کے سر میں پڑنے والی لاٹھی ایک طرف۔

آپ بھٹو خاندان کو بھی ایک طرف رکھیے، پیپلز پارٹی کے ساتھ عدلیہ کے برتاؤ کا تقابل نواز لیگ سے کیسے ممکن ہے ؟ افتخار چوہدری سے سزائیں بخشوانے والے لاڈلوں کا تقابل یوسف رضا گیلانی سے کیسے ممکن ہے ؟ بے شمار جیالوں کی جانوں کی قربانیوں کا تقابل میاں صاحب کی واپسی پر جمع ہوئے مٹھی بھر متوالوں سے کیسے ممکن؟ اگر کوئی محترمہ کے میثاق جمہوریت سائن کرنے یا زرداری صاحب کی ناکام مفاہمتی سیاست کی بنیاد پر پیپلز پارٹی کی جمہوری جدو جہد اور اس کیخلاف ہونے والی سازشوں کی چھتری میاں صاحبان کی مقدس جمہوری جدو جہد کو مہیا کرنا چاہے تو وہ اس کا اختیار نہیں۔ یہ اختیار تو اگر خود محترمہ یا بھٹو صاحب بھی قبروں سے نکل کر انھیں دلوانا چاہیں تو ممکن نہیں کہ یہ محض تاریخ ہے جس کے لکھوانے والے وہ خود نہیں، یہ بھٹو خاندان یا پیپلز پارٹی کی طرفداری نہیں۔ یہ ان پر بیتنے والے عذابوں کی ہزار داستان ہے نہ کہ کسی اکبر اعظم کی اپنے حق میں لکھوائی قصیدہ گوئی کہ مورخ کا ہاتھ پکڑ کر جس کا چاہیں نام لکھوا دیں۔ یہ وہ تاریخ ہے جو کبھی دو دھاری تلوار سے کم نہیں۔ میاں صاحبان کی اپنی داستان میں جہاں ان کی حکومت الٹانے اور ملک بدری کی زیادتی شامل ہے وہیں ان کو ملی رعایتوں پر بھی کتاب لکھی جا سکتی ہے۔

موضوع صحافت نہ ہوتا تو میں بھی سو کالم اسی تاریخ کو دہرانے میں لکھ جاتا۔ مگر موضوع آج کی صحافت ہے اور ان سب باتوں کے لکھنے کا مقصد محض اتنا ہے کہ جب آپ کسی کی تاریخ کا حوالہ کسی دوسرے کی مظلومیت ثابت کرنے کے لیے پیش کرتے ہیں تو اس کے تقابل کے لیے کم سے کم سطح کی برابری ضروری ہوتی ہے۔ یہاں ایسا کچھ نہیں کہ آپ حاکم وقت کو ویسا ہی مظلومیت کا تاج پہنانے کی کوشش کریں جیسا قبروں میں لیٹے سارے خاندان کے سر پر سجا ہے۔ ان کی مثال دے کر کہیں کہ یہاں تو جمہوری حکومتوں کیخلاف ہمیشہ سازشیں ہوئیں۔ جتنی سازشیں نواز لیگ کی حکومتوں کیخلاف ہوئیں اس سے زیادہ ریلیف ان کو عدلیہ کی طرف سے ملا۔

فیصلہ اب بھی عدلیہ ہی کے ہاتھ میں ہے (جس کا ٹرائل شاید احتیاطی تدابیر کے طور پر کیا جا رہا ہے)۔ اور یہ وہی عدلیہ ہے جس نے آمر کے دور میں اپنی دی سزاؤں کو ختم کیا تھا۔ کیا اس کی نظیر کہیں اور بھی موجود ہے؟ زرداری صاحب نے بھٹو ریفرنس بھیجا تھا، مگر نہ عدلیہ اس کو سننے پر تیار ہے، نہ بھٹو کیس کو حوالے کے طور پر مانتی ہے، نہ معافی مانگنا مناسب سمجھتی ہے۔ تو آج جو اچھی بھلی ساکھ والے بڑے بڑے رپورٹر اور کالم نویس صالح ظافر اور عطا الحق قاسمی کے نقش پا ء پر چلتے حکومت وقت کی وکالت کرتے نظر آتے ہیں، ان سے گزارش ہے کہ کسی کی نہیں تو اپنی ساکھ کا ہی کچھ احساس کر لیں۔

دیکھتے ہیں کہ آج کل رؤ ف کلاسرا ہماری ہی سوچ کے کچھ روشن خیال اور اچھی ساکھ والے صحافیوں کی زد پر ہیں۔ یہ سب وہ دوست ہیں جن سے نظریاتی طور پر ہمیشہ اسی نوے فیصد متفق رہا ہوں، مگر آج اپنے اندر ان سے دس بیس فیصد اختلاف کو اسی فیصد اتفاق سے زیادہ شدت سے محسوس کرتا ہوں۔ یہ لوگ خود سوچیں کہ حکومت وقت پر شدید تنقید کرنے والے ایک صحافی پر ذاتی نوعیت کے حملوں کی ٹائمنگ کیا ہے؟ آپ گزشتہ چار سال سے حکومت کے مزے لینے والے عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے تاریخی لاڈلوں کی وکالت کے ساتھ کلاسرا پر ذاتی نوعیت کے الزامات کی بوچھاڑ کریں گے تو گمان کیا گزرے گا؟ ان کے آپسی اختلافات کی تفصیلات کا کچھ زیادہ علم نہیں اور نہ ہی زیادہ جاننا چاہتا ہوں، مگر جو تھوڑا بہت ان کے حمایتیوں کی طرف سے لکھا ہوا نظر سے گزرا ہے، اس میں الزام عائد کیا گیا کہ کلاسرا تین سرکاری رہائش گاہوں پر قابض ہیں۔

جب تھوڑا کریدا تو معلوم ہوا کہ ایک گھر ا ن کی زوجہ اور ایک ان کے بھائی کو الاٹ کروایا گیا اور تیسرے کا علم نہیں۔ پوچھا اگر ان کی زوجہ محترمہ اور بھائی سرکاری ملازم ہیں تو پھر اس میں غلط کیا ہے؟ یہ تو ان کا قانونی حق ہے۔ اور جہاں تک بھائی کی الگ رہائشگاہ کا سوال ہے تو آج کتنے شادی شدہ لوگ اپنے بھائیوں کیساتھ رہ رہے ہیں؟ جس فیملی سسٹم کو ذہن میں رکھ کر آپ الزام لگا رہے ہیں، اسے دفن ہوئے تو مدتیں بیت چکیں۔ جواب نہ بنا تو کہا کہ نہیں انھیں جو رہاشگاہ الاٹ ہوئی وہ گریڈ اکیس کے ملازمین کی تھی مگر وہ خود گریڈ اٹھارہ یا سترہ کے ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ کوئی ایسی بڑی بات نہیں جسے اتنا اچھالا جائے۔ اکثر ایسا ہو جاتا ہے اور دوسری بات یہ کہ اگر کچھ خلاف قانون ہے تو جس حکومت پر وہ تنقید کرتا ہے اور آپ جس کی آئے روز وکالت کرتے ہیں وہ کیوں اس مدعے پر عدالت نہیں گئی؟

سوال کرنا ہے، تنقید کرنی ہے تو حکومت وقت پر کیجیے۔ باقی یہ سب تفصیلات تو شاید آپ کو برسوں سے معلوم ہوں گی، پھر اس میں کیا ایسا پاناما گیٹ کے مقابلے کا کرپشن سکینڈل سامنے آ گیا جو آپ نے اچانک ایسے شدید حملے شروع کر دئیے؟ آپ کی آنکھوں کے سامنے عرفان صدیقی، عطاالحق قاسمی اور صالح ظافر پھرتے ہیں، مگر آپ کو اعتراض کلاسرہ پر ہے، کیوں؟ محض اس لیے کہ وہ نواز حکومت کیخلاف بول رہا ہے؟ وہ پیپلز پارٹی کیخلاف بھی بولا اور آج بہت سے پیپلز پارٹی کے دوست بھی اسے سکور سیٹل کرنے کا اچھا موقع تصور کر رہے ہیں جو کسی طور درست نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ گیلانی صاحب نے ان پر مہربانیاں کیں اور انہوں نے ان پر جواب میں کرپشن کے الزامات لگائے۔ اگر کسی صحافی نے اس کسی سیاستدان کو خبر کی خاطر فسیلیٹیٹ کیا اور اقتدار میں آ کر سیاستدان نے اپنے اختیارات استعمال کر کے اسے قانون کی حد میں رہتے کچھ ریلیف دیا تو یہ دو طرفہ طور پر اس وقت تک کرپشن نہ ہوگی جب تک کوئی دوسرے کے عیبوں کی پردہ پوشی نہ کرے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بد عنوانی تو یہ ہے کہ مجھے کوئی سہولت دے اور میں جواب میں اس کے سکینڈلز چُھپانے شروع کردوں۔ اس کی مہربانیوں کا جواب اس کے جرائم کی پردہ پوشی کی صورت دوں، اپنے پیشے سے غداری کروں۔ یہ ہے وہ بد دیانتی جو اصل جرم ہے۔ حکومت وقت کیخلاف بولنے کی جرات وہی کرتے ہیں جن کے دلوں میں چور نہیں ہوتا۔بہر حال فریقین اس تنازعہ کو لے کر شاید ایک دوجے کیخلاف عدالت میں جانے والے ہیں۔ میرے لیے مبشر زیدی، مطیع اللہ جان اور کلاسرا تینوں بہتر ساکھ والے اچھے صحافی ہیں۔ لہذا اس لڑائی کے پبلک ہونے پر افسوس کے ساتھ اتنا ہی کہہ سکتا ہوں کہ صحافت کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے۔ کاش یہ جنازہ ان صحافیوں کا نکلتا جنہوں نے مہربانیوں کے جواب میں ہمیشہ یک طرفہ طور پر سولین اور فوجی حکومتوں کے جوتے چاٹے، قصیدے لکھے اور جرائم کی پردہ پوشی کی!

Facebook Comments

عمار کاظمی
عمار کاظمی معروف صحافی اور بلاگر ہیں۔ آپ سماجی مسائل پر شعور و آگاہی پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply