مال مفت دل بے رحم

حیراں ہوں، دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو مَیں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو مَیں !
بات کہاں سےشروع کی جائے اور کہاں ختم ہو۔ ڈاکٹر عاصم اللہ بخش صاحب نے احمد پور شرقیہ واقعہ کے محرکات کا نچوڑ تین لائنوں میں بیان کردیا اور مزید اختصار کے ساتھ میں صرف ایک جملے میں بیان کرنے کی جسارت کرنے لگا ہوں کہ” مال مفت دل بے رحم “۔اتنی جانوں کے ضیاع پردل خون کے آنسو رورہا ہے اور شاید اس موقع پر تنقید کرنا بہت سے احباب کو ناگوار بھی گزرے لیکن موقع کی مناسبت سے اصلاحی تنقید اور اپنی غلطیوں سے سیکھنے کا عمل جاری رہنا چاہئے۔ ہم ہمیشہ مغربی اور غیر مسلم اقوام کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ لیکن کبھی ایسے ہوشربا واقعات سننے کو نہیں ملیں گے کہ کسی بس یا ٹرین کا حادثہ وقوع پذیر ہوا ہو اور لوگ جائے حادثہ پر زخمیوں اور لاشوں کو چھوڑ کر لوٹ ما ر میں مصروف عمل نظر آئیں۔ بوتلوں کی پک اپ ، تربوز کے ٹرک ، آئل ٹینکر اور اس طرح کے حوادث جب بھی پیش آئے اکثر ہجوم کی توجہ لوٹ مار پر ہی مرکوز رہی۔

بہت سے واقعات یا د آرہے ہیں جو آپ کے گوش گزارنا چاہتا ہوں۔جھنگ سرگودھا روڈ پر آج بھی جب گنے کی ٹرالیاں گزرتی ہیں تو لوگ بے تحاشا ان کےپیچھے بھاگ پڑتے ہیں اور اس دیدہ دلیری سے گنے نکالتے ہیں جیسے یہ ا ن کے باپ کی ملکیت ہو اور باقاعدہ مقابلہ ہوتا ہے کہ کس نے کتنی زیادہ ڈکیتی ماری ہے۔ اس جذبہ کو کیا نام دیا جائے جہالت ، بے شرمی، بے حسی، تربیت میں کمی ، تعلیم کا فقدان، معاشرتی علت یا حرامخوری ؟ یقیناً یہ لوٹ کا مال گھروں تک بھی پہنچتا ہے اور دوست احباب بھی مل بیٹھ کے کھاتے ہیں۔بم بلاسٹ اور کشمیر کے زلزلہ میں بہت سے ایسے واقعات رپورٹ ہوئے کہ انسانی اعضاء کو کاٹ کردوسرے کسی مقام پر لے جایا گیا تا کہ تسلی سے سونے کی چوڑیاں ، گھڑیاں یا دوسری قیمتی اشیاء الگ کی جا سکیں۔

کراچی میں میرے ساتھ ایک دفعہ ٹریفک حادثہ ہوا۔ بہت سے افراد نے میری مدد کی اور کچھ افراد ایسے بھی تھے جو موبائل بھی لے اڑے۔ میں تکلیف سے کراہ رہا تھا اور خون میں لتھڑا ہوا تھا کہ میری گود میں بکھرے ہوئے مالٹے ایک صاحب نے یہ کہہ کر اٹھا لئے کہ اب آپ نے کیا کرنے ہیں۔ایسے بہت سے واقعات ذہن میں گردش کررہے ہیں لیکن اختصار کے ساتھ اتنا عرض کرنا چاہتا ہوں کہ شہر دیہات یا کسی خاص علاقہ کے لوگ اس طرح کی حرکتوں میں ملوث نہیں۔ غریب و امیر یا جاہل وتعلیم یافتہ کا بھی مسئلہ نہیں ہے۔ ندیدے پن کی آخر کیا وجوہات ہیں کہ متمول اور بھوکا دونوں ہی حریص ہیں۔شراب ، زنا ، سود اور ایسی بہت سی برائیاں تو غیر پاکستانی معاشروں میں زیادہ عیاں ہیں لیکن ایسی اخلاقی گراوٹ کا شکار صرف ہم ہی کیوں ہیں؟۔

اہل علم حضرات ہی رہنمائی فرمائیں کہ کیا ہم لقمہ حرام ہی تو کھاتے ہیں ، صرف شراب پیتے ہیں؟، رمضان کے تقدس کا خیال نہیں کرتے؟ نماز روزہ کو کوئی اہمیت نہیں دیتے؟ روز جزا کا کوئی خوف نہیں رکھتے، یتیم مسکین کو دھکے دیتے ہیں؟، گدھے اور کتے کا گوشت کھاتے ہیں؟ شب قدر میں رقص و سرور کی محافل منعقد کرتے ہیں؟۔۔۔ تو پھر آخر کیا وجہ ہے کہ ہم نا گہانی اموات کا شکار ہورہے ہیں ؟۔۔خدا تعالٰی نے ایک قوم پر صرف اس لئے عذاب نازل کیا تھا کہ وہ ناپ تول میں کمی کیا کرتے تھے اور مسافروں کو لوٹ لیا کرتے تھے۔ بصد افسوس کہنا پڑتا ہے کہ ہر وہ برائی کہ جس کے ہونے کی وجہ سے ہم عذاب میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔ ایسی برائیوں کے مجموعے ہمارے معاشرے میں سرایت کر چکے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

روزہ کی حالت میں انسان حرام مال کے حصول میں جل کر بھسم ہو جائے کس منہ سے سرور کائنات کا دامن پکڑکر کہے گا کہ میں آپﷺ کا امتی ہوں؟۔ خدا تعالٰی ہمیں بار بار موقع دے رہا ہے کہ ہم اپنا محاسبہ کر لیں ورنہ اس کی گرفت ایسی ہے کہ پھر کوئی بھاگ نہیں پائے گا۔ میں دعا گو ہوں کہ خدا تعالٰی متاثرین کی مغفرت فرمائے اورہم سب کو حلال رزق کی طرف راغب کرے اور ایسے مزید واقعات نہ ہوں کہ بحیثیت قوم سر شرم سے اٹھ ہی نہیں سکے۔
وزیر اعظم صاحب سے گزارش ہے کہ اگربہاولپور میں فوٹو سیشن ختم ہو جائے تو کوئٹہ کا بھی چکر لگالیں وہا ں کے لوگ بھی آپ کی راہ دیکھ رہے ہیں اور پارہ چنار بھی اسی ملک کا حصہ ہے جو 100 شہداء کے جنازہ لے کر 2 دن سے مظاہرہ کررہے ہیں۔ لندن جانے کی جلدی نہ ہو تو کراچی میں بھی تعزیت کے لئے تشریف لے آئیں۔

Facebook Comments

محمد کمیل اسدی
پروفیشن کے لحاظ سے انجنیئر اور ٹیلی کام فیلڈ سے وابستہ ہوں . کچھ لکھنے لکھانے کا شغف تھا اور امید ھے مکالمہ کے پلیٹ فارم پر یہ کوشش جاری رہے گی۔ انشا ء اللہ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply