ریاست جیسی ماں قاتل بنے،
سو لاشوں پر نوحہ کناں لواحقین کے لیے ان کا منتخب وزیر اعظم ہمدردری کے دو لفظ منہ سے نہ نکالے،
شلوار لٹکانے پر گھنٹوں تجزیہ کرنے والا میڈیا خاموش رہے،
مکا مارنے پر سوموٹو نوٹس لینے والی عدالت عظمی منہ موڑ لے،
فروٹ پر پانچ روپے کی مہنگائی پر آسمان سر پر اٹھانے والا سوشل میڈیا لب سی لے،
انسانی جان اور حقوق کی علم بردار آنکھیں بند کر لیں،
جن کے قتل عام کا ذمہ دار خود انہی کو ٹھہرایا جائے،
جن پر ظلم ِ مسلسل پر زبان کھولتے اور قلم اٹھاتے ہوے دانشور سُن ہو جائیں،
جن پر مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹنے پر اپنا قوم قبیلہ بھی تماشائی بنا رہے،
جن کے پیاروں کے لیے عید خریداری بالیوں، چوڑیوں، جوتوں اور کپڑوں کی جگہ سفید کفن ٹھہرے،
ایسے بے کس مظلوم کے لیے بولنا سب سے بڑا انسانی، اخلاقی، دینی اور قومی فریضہ اور عبادت عظمی سمجھتا ہوں۔
آپ بے شک حسبِ دستور میرے لیے سازشوں کی دیگ پکاتے رہیں مگر میں بے حس، تشدد مزاج اور دہشت پسند سماج کے خلاف اپنی نحیف آواز بلند کرتا رہوں گا۔
میں ظلم پر خاموش ہوں اور نہ ظالم کا حامی، میں پاراچنار کے غم خواروں کے ساتھ ہوں،
میری عید میری خوشیاں اسی غم خواری، اشک شوئی اور دل جوئی میں پنہاں ہیں۔
کیونکہ پارا چنار کا مسلسل قتل عام دردمند مسلمانوں کو کشمیر، حلب، غزہ اور برما وغیرہ سے فارغ ہونے کے باوجود بھی نظر نہیں آتا۔
Facebook Comments
I agree with u