تیسری جنس اور پاکستان۔۔۔۔توقیر یونس بُھملہ

ایک  حساس موضوع، ایسے موضوعات جو معاشرے میں متنازعہ ہوں یا جن کو معاشرہ پورے حقوق کے ساتھ اپنانے سے گریزاں  ہو ۔ان پر بحث کرنا بھی ایک نئی بحث کو جنم دیتا ہے ،مخصوص گروہ جو ہر چیز پر اپنی اجارہ داری سمجھتے ہیں وہ آپکے راستے کی پہلی رکاوٹ بنتے ہیں اور ایسے گنجلک معاملات میں آپ کو دھکیل دیں گے جو آپکو اصل موضوع سے ہٹا دیں گے یا ان پر مزید کام کرنے سے روک دیں گے۔
ٹرانسجینڈر یا تیسری جنس کیا ہے، پاکستان میں عام فہم میں ان لوگوں کو “ہیجڑا” ہی کہا جاتا ہے۔ لیکن کچھ ممالک میں ٹرانس جینڈر وہ مرد نہیں ہیں جو فقط میک اپ کر کے اپنے آپ کو عورت ظاہر کرتے ہیں۔ بلکہ یہ وہ مرد ہیں جو آپریشن کروا کر اپنی مرضی سے باقاعدہ عورت بنتے ہیں۔ کیونکہ ان مردوں کو لگتا ہے کہ ان کو مرد کی بجائے عورت پیدا ہونا چاہیے  تھا۔ اور ایسی عورتیں بھی ہیں جن کا خیال ہے کہ ان کو عورت کی بجائے مرد پیدا ہونا چاہیے  تھا تو وہ بھی اپنے آپریشن کرا کے اپنے آپ کو مرد بناتی ہیں۔ کچھ عرصہ قبل پاکستان میں حکومتی سطح پر بے شمار ہیجڑوں کا طبعی معائنہ کیا گیا۔ اس طبعی معائنہ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں موجود اسّی فیصد سے زیادہ ہیجڑے مکمل مرد ہیں، اور جب ان سے پوچھا گیا کہ مرد ہونے کے باوجود عورت کا روپ اختیار کرنے کی وجہ کیا ہے؟تو کم و بیش سب ہی نے کچھ ایسا جواب دیا کہ، “ہمیں لگتا ہے ہمیں  مرد کی بجائے عورت پیدا ہونا چاہیے تھا۔ جب کسی کے ہاں ہسپتال میں بچے کی پیدائش ہوتی ہے تو والدین کو پتا چلے کہ ہمارے اس بچے میں جنسی مسائل ہیں تو وہ پہلے چیک اپ کے بعد بچے کو دوبارہ ہسپتال ہی نہیں لیکر جاتے جس سے زیادہ تر یہی تاثر لیا جاتا ہے کہ یا تو انہوں نے اپنا بچہ خواجہ سراؤں کے حوالے کردیا ہے یا پھر اسکو چھپ چھپا کر پلنے پر مجبور کر دیا گیا ہے۔

جب ہم ایسے موضوعات پر پڑھتے ہیں تو ہمارے علم میں آتا ہے کہ ایسے بچوں کو بچپن سے مختلف تجربات یا سرجریوں کے ذریعے والدین مرد بنانے کے چکر میں اپنے بچے کو لمبے عرصے تک اذیت میں مبتلا رکھتے ہیں جہاں وہ ذہنی اور جسمانی اذیت کے ساتھ باقی زندگی گزارتا ہے، ہمارے غلط رویے ہماری آنے والی نسلوں کی ذہنی بیماری کی وجوہات ہیں۔ ایک مرد کو لگے کہ اس کو عورت ہونا چاہیے  یا ایک عورت کو لگے کہ اس کو مرد ہونا چاہیے ایک انتہائی خطرناک نفسیاتی سوچ ہے۔ جو دن بہ دن پروان چڑھ رہی ہے۔ یہ ان لوگوں کی اعصابی کمزوری اور اندر کی ٹوٹ پھوٹ کا نتیجہ ہوتا ہے جو ٹرانس جینڈر لوگوں کو معاشرے میں جنم دیتا ہے، پاکستان میں  اسکے علاج یا ٹرانسجینڈر سرجری پر بہت زیادہ سہولیات تو نہیں ہیں لیکن ایسے لوگ جو بچپن سے تعین کر لیتے ہیں کہ ہم نے کس جنس کے طور پر زندگی گزارنی ہے انکو معاشرے میں باقاعدہ مقام اور شناخت دینی چاہیے لیکن ایسے لوگ جو شادی شدہ اور بچوں کے والدین ہوں اور ان کو لگے کہ نہیں مجھے مرد کی بجائے عورت ہونا چاہیے تھا اور وہ باہر کے ممالک میں مہنگے علاج کے ذریعے اپنی جنس تبدیل کر لیں یہ ایک نفسیاتی مسئلہ ہے جس کا حل تلاش کرنا بھی ضروری ہے، پاکستان میں پہلی بار حالیہ مردم شماری میں تیسری جنس کو بھی اہمیت دی گئی جس کے مطابق تعداد 10ہزار 418 بتائی گئی ہے۔ پاکستان میں موجود ٹرانسجینڈر آبادی کا سب سے زیادہ 64.4 فیصد حصہ پنجاب میں ہے جو آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ بھی ہے۔پنجاب میں ٹرانسجینڈر کے 6 ہزار 709 افراد موجود ہیں جبکہ سندھ میں 2 ہزار 527 افراد موجود ہیں اسی طرح خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں بالترتیب 913 اور 109 اور وفاق کے زیرا تظام قبائلی علاقوں (فاٹا جو اب خیبرپختونخوا  میں ضم ہوچکا ہے ) میں صرف 27 جبکہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں یہ تعداد 133 بتائی گئی ہے۔

دی جینڈر گارڈین نامی ایک ادارے نے ٹرا نس جینڈر کو فیشن ڈیزائیننگ،بیوٹیشن ،ہیر سٹائلینگ،مشین ایمبرائیڈری،پروفیشنل ککنگ،کنفیکشنری بیکری اینڈ سویٹ،گرافک ڈیزاءننگ،کمپیوٹر اپلیکیشن کے علاوہ ا نگلش بول چال کے کورسز کروا کر ہنرمند بنانے کا آغاز اسلام آباد سے کیا ہے، اس کے بعد بینکوں میں انکے اکاؤنٹ کھولنے، شناختی کارڈ، پاسپورٹ کے ساتھ ساتھ مختلف شعبہ ہائے زندگی میں ان کی نمائندگی کیلئے بھرپور کام ہورہا ہے ایک ٹرانسجینڈر کی حال ہی میں فلم بھی آئی ہے اور انکو گزشتہ الیکشن میں ووٹنگ کے ساتھ ساتھ الیکشن میں حصہ لینے کا حق بھی دیا گیا اس کے علاوہ 40 افراد کو حج پر بھیجا گیا، پھر پنجاب بھرکی اسکول انتظامیہ کو ٹرانس جینڈر بچوں کے لیے خصوصی اقدامات کی ہدایت کی گئی ہے۔محکمہ اسکول ایجوکیشن کی جانب سے ارسال کیے گئے مراسلے میں ہدایت کی گئی تھی کہ ٹرانس جینڈر بچوں کو دوسرے بچوں کی طرح حقوق دیے جائیں جبکہ داخلے کے وقت ایسے بچوں کا نام مخصوص کالم میں لکھا جائے۔مراسلے میں کہا گیا تھا کہ سو فیصد داخلے کا ہدف پورا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ خواجہ سرا بچوں کے داخلوں پر خصوصی توجہ دی جائے اور انہیں بھی دوسرے بچوں کے مساوی حقوق دیے جائیں۔ پاکستان میں یہ طبقہ اپنی بقا کیلئے بھیک مانگنے ا ور جسم فروشی پر مجبور ہے، لیکن کچھ خوش کُن  خبریں بھی ہیں کہ اکنامک اور اسلامک اسٹڈیز کے شعبے میں تعلیم بھی حاصل کررہے ہیں، ان کو معاشرے میں ایک مقام اور شناخت دینا ایک انتہائی مشکل اور پیچیدہ کام ہے کیونکہ ماضی میں بہت سے واقعات میں ان کو حکومت اور پرائیویٹ سیکٹر کی جانب سے کچھ نوکریاں دی گئیں  لیکن ان کے ساتھ وہی ہوا جو کوؤں کے درمیان نئے آنے والے ایک خوشنما پروں والے پرندے کے ساتھ ہوتا ہے جس کو ٹھونگیں مار مار کر کوے مار دیتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کچھ سال قبل پشاور میں ایک خواجہ سرا علیشا کو بھتہ نہ دینے پر چھ گولیاں مار گئی تھیں ۔ جب اسے ہسپتال لے جایا گیا تو ڈاکٹرز یہ فیصلہ نہ کر سکے اسے کون سے وارڈ میں رکھا جائے زنانہ یا مردانہ جب علیشا کو مردانہ وارڈ لے جایا گیا تو وہاں موجود مردوں نے اسے نکالنے کا کہا ، اتنی دیر میں علیشا کی موت واقع ہوجاتی ہے۔ کتنے افسوس کی بات ہے ایک انسان کی جان کی پروا نہیں لیکن خود کی اپنی جنسی اجارہ داری قائم رہنی چاہیے۔ ہمارے ملک میں ان کے تحفظ کے لیے قانون تو بنا دیے جاتے ہیں لیکن ان پر عمل درآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہ بات صرف ہسپتال تک محدود نہیں انہیں بس ٹرین اور دیگر مقامات پر بھی ایسی پریشانی رہتی ہے انہیں عورت مرد حتی  کہ والدین دونوں ہی برداشت نہیں کرتے، ہمیں انہیں  باقاعدہ مقام دینے کے لیے خود کو تعلیم یافتہ کرنا ایک دوسرے کو برداشت کرنا اور باہمی احترام اور اتفاق سے مل جل کر رہنے پر بھی کام کرنا ہے۔

 

Facebook Comments

توقیر بھملہ
"جب خلقت کے پاس آؤ تو زبان کی نگہداشت کرو"

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply