کچھ باتیں فرحت عباس سے بھائی جون کے بارے میں/تسنیم عابدی

فرحت عباس شاہ آپ کی مختلف پوسٹ پڑھتی رہی ہوں۔لیکن اس قدر غیر متوازن گفتگو کے لیے بہت داد، جونؔ بڑا شاعر ہے یا چھوٹا اس کا فیصلہ وقت کرے گا بلکہ وقت نے کرنا شروع کردیا ہے میں نے پہلے اس لیے اظہار خیال نہیں کیا کہ بات صرف اپنی پسند اور اپنی رائے کی تھی ۔مگر آپ نے جونؔ کے حق میں فتویٰ  کیسے صادر کردیا اور وہ بھی اتنی شدت سے جیسے شریعت ناشناس مفتی فتویٰ  داغ دیا کرتے ہیں ۔

نصاب کے حوالے سے آپ کی رائے کی تائید کرتی ہوں ۔جشن اور فیسٹیول پر جو آپ نے رائے دی ہے وہ درست ہے کہ سارا معاملہ کمرشل ہے ۔مگر ایک جینوین لکھنے والے کا مطمع نظر یہ چار پانچ گھنٹے کے پروگرام نہیں ہوتے بلکہ تمام زندگی پر محیط حرف سے گہرا تعلق ہے ۔اسی لیے شعر لکھ کر جو طمانیت ہوتی ہے وہ ادھر اُدھر سے داد بٹورنے سے نہیں ہوتی ۔لکھنے والوں کو ان محافل کی بس اتنی ہی پروا ہ ہوتی ہے کہ جتنی دیر اس محفل میں شریک ہوا جائے ۔کچھ نوآموز تخلیق کاروں کے لیے اس میں شرکت بہت بڑی بات ہوتی ہے مگر پھر رفتہ انہیں سمجھ میں آجاتا ہے کہ لکھنا اور بات ہے اور ایسے پلیٹ فارم سے تشہیر ہونا ایک دوسری بات ہے ۔۔کچھ نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر ہے اسی لیے اپنی تجاویز بطور پُر خلوص مصلح کے دیتے رہنا چاہیے ۔۔

اب آتے ہیں دوسری بات کی طرف جو بہت زیادہ اہم ہے وہ جون ؔایلیا کے حوالے سے آپ کی رائے ہے ۔۔

آپ کو اپنی رائے دینے کا حق ہے مگر پھر پبلک فورم پر اس کی جوابی تنقید سہنے کا بھی حوصلہ ہونا چاہیے جو آپ میں ہے ۔فرحت عباس شاعری میں نظریہ چہ معنی دارد مجھے بتائیں کہ میر تقی میر، خواجہ میر درد، حیدر علی آتش ، مومن خان مومن ، جگر مراد آبادی ، یاس چنگیزی، اور ایسے ہی متعدد شاعر ہیں جو کلاسیکل ادب کے معمار ہیں مجھے ان عظیم شعراء  کے کلام میں کہیں کوئی نظریہ نظر نہیں آیا ۔۔میری ذاتی رائے میں نظریہ غالب کی شاعری میں بھی نہیں ہے البتہ فلسفہ اور سوال سے مصرع مزیّن ہیں جو انسان کی فکر کو بالیدگی عطا کرتے ہیں ۔درد کی شاعری پر کیونکہ عشق حقیقی محیط ہے اس لیے اکثر فلسفہ وحدت الوجود کا رنگ نظر آتا ہے ۔

جون کا حلیہ کیسا تھا ؟ ان کی ذاتی زندگی کیسی تھی ؟ ہماری تنقید یا تبصرہ اس سے بہت بلند ہونا چاہیے ۔۔ان کی زباندانی کے لیے بس اتنا عرض ہے کہ فصاحت و بلاغت ختم ہے ۔بیک وقت وہ عربی ، فارسی، عبرانی زبانوں کے ماہر تھے ۔کاش وہ کتابیں جلد منظر عام پر آجائیں جس میں انہوں نے فلسفہ مذاہب اور بہت سارے قیمتی مو ضوعات پر لکھا ہے ۔۔جونؔ ایلیا کی پہلی کتاب بہت دیر سے شائع ہوئی ،شاید ان  کی طباعت اور پھر ان کا پیش لفظ قاری کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتا ہے، اس کی تقریب رونمائی دبئی میں ہوئی تھی ان کے بقول “ایسا لگ رہا ہے جیسے دہلی کے لال قلعہ میں مسند بچھائی گئی ہے“ میری خوش نصیبی کہ میں اس یادگار جشن میں شریک تھی ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ان کی نثر فرنود میں ایک ایسے جون سے متعارف کراتی ہے جو بیک وقت انسانی نفسیات اور سماجیات کا بھرپور احاطہ کیے ہوئے ہے ۔۔۔وہ کُل وقتی شاعر تھے بس لکھتے رہتے تھے ،ان کے انتقال کے بعد جو مجموعہ شائع ہوا، اس میں بہت سارے اشعار کا انتخاب غلط ہے شاعر بہت کچھ لکھتا ہے اور بہت کم چھپواتا ہے ۔۔۔۔نوجوان شعراء  جونؔ کے سہل ممتنع اور شوخ انداز کی وجہ سے انہیں پسند کر رہے ہیں ۔۔ان کے لیے یہ صلاح ہے کہ وہ جونؔ کی طرح مصرع سازی پر توجہ دیں ،جونؔ کے اسٹائل سے جون ؔجیسے شاعر نہیں بن سکتے ۔۔۔۔۔جونؔ کی صحبت میں رہنے والے انیق احمد ، عرفان ستار ، انور شعور، حسن عابد، عارف امام ، عقیل عباس جعفری ، عبید اللہ علیم اور نجانے کون کون سے شاعر تھے جن کی گواہی عرفان اور انیق دے سکتے ہیں ۔جونؔ ایلیا صرف آج کے نوجوان شعرا کی پسند نہیں بلکہ ہماری نسل کے شعرا کو بھی بہت عزیز تھے ۔۔شاعرات میں نسیم سید سے لے کر ثروت زہرا تک سب ان کی شاعری کے مداح ہیں ۔۔ان کا ایک جملہ میرے کان میں گونجا کرتا ہےکہ “جن لوگوں کو پڑھنا چاہیے تھا وہ لکھ رہے ہیں “۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply