فاطمہ جناح کا زخم ٹھیک نہیں ہورہا/مسلم انصاری

کمرے میں سپرٹ، ڈیٹول اور پایوڈین کی ملی جلی بُو گھومتی رہتی ہے۔
تین مہینے پہلے کی بات اور تھی،
مگر جب بایئک بیچ سڑک پر سلپ کر گئی تو عین اسی دن بجلی کا بل بھرنے والی رقم پنڈلی ٹھیک کروانے میں چپ چاپ چلی گئی۔
مجھے توقع نہیں تھی کہ اس بار کہانی اس فرسٹ ایڈ کِٹ سے شروع ہوگی جسے میں ہمیشہ استعمال کے بعد صحن میں موجود فریج پر رکھتا ہوں۔
کچھ روز قبل 13 مارچ کی رات..
جب میں کھڑکی کے ساتھ رکھے صوفے پر بے سُدھ سو رہا تھا شب کے کسی پہر میری آنکھ فرسٹ ایڈ کِٹ کی کھٹ پٹ سے کھل گئی،
(کسی کی بھی آخری اُمید چوری نہیں ہونی چاہیے)
سو میں اٹھا اور میں نے دروازے کی اوٹ سے جھانکا۔۔
یہ واقعی حیرانی کی بات ہے اگر کوئی 73 سالہ بوڑھی اور دبلی عورت سفید کپڑے پہنے اتنی رات گئے کسی کے گھر سے فرسٹ ایڈ کِٹ چرانے کی کوشش میں ہو۔۔
میں خاموش رہا!

کچھ دیر اس نے وہ باکس ٹٹولا اور پھر اپنی لمبی چادر میں چھپاکر دروازے سے باہر نکل گئی،
کیا میں تمہیں یقین دلاؤں کہ میں نے اس کمزور عورت کو اخبار ، ٹی وی اور اسکول کی کچھ کتابوں میں دیکھا ہوا ہے؟
خیر مگر
آج جب شہر دن بھر سے ہی عجیب معلوم ہو رہا تھا
اور پھر ایک ایسی رات آتی ہے
جس میں خاموش چوک کی طرف جاتی سڑک پر وہ عورت قدم اٹھا رہی ہے تو اس کے چلنے کی آواز سے کہیں زیادہ چوک سے اُٹھتی سعادت حسن کی اونچی آواز سنائی پڑ رہی ہے،
احمد فراز کی بہت سی زمینوں میں سے ایک اراضی پر جہاں اب یہ چوک ہے دن میں گولا گنڈے والا ریڑھی لگاتا ہے،
ان کرسیوں پر جہاں اب گنتی کے ہی چند لوگ بیٹھے ہیں،
سعادت حسن ٹہلتے ہوئے اونچی آواز میں ایک صفحے سے پڑھ رہا ہے
“میں نہیں لکھ سکتا کہ طوائف کی لاش کتنی ہلکی ہوتی ہے مگر مجھے لگتا ہے اس کا وزن ایک روٹی جتنا ہی ہوتا ہوگا”۔

میرا یقین ہے گمشدگی کے بعد مسخ حالت میں ملنے والی جوان اولادوں اور کربلا کے میدان میں اپنے عزیزوں کی لاشوں پر کیا جانے والا بین ایک جیسا تھا!
میں سوچتا ہوں کیا وہ بچے جن کی شرمگاہیں نا قابلِ بیان زیرِ مصرف رہ چکی ہیں ان کے والدین دوسری اولادیں جنمیں گے ؟
دکھلاوے کے صدقات جو کسی ریڑھی بان یا خاکروب کو اس کی بیٹی کی شادی کے لئے دئے جاتے ہیں
مجھے لگتا ہے کسی خواجہ سرا کو خود سے دور رکھنے کے لئے بھیک دینے جیسے ہیں!
میں تمہیں کیسے بتاؤں کہ خوبرو اور نئی نویلی دلہن بس یونہی سیڑھیاں پھسل کر گرنے سے نہیں مری ہے
اس کا قتل طے شدہ تھا! 
کس طرح بتاؤں کہ مذہب کا نام استعمال کرنا مسجد سے جوتی چوری کرنے سے بڑا گناہ ہے!
کیا لکھوں کہ ایک وقت کا پیٹ بھرنے کے لئے جسم بیچنا درست ہے؟ آخر میں کس طرح لکھ۔۔ ۔۔۔

سعادت حسن بول رہا تھا
مگر اچانک کسی گاڑی کی سہمی ہوئی آواز چوک میں داخل ہوئی تو وہ چپ ہوگیا
ساری آوازیں گم ہو گئیں
کرسیوں اور فٹ پاتھ پر بیٹھے لوگوں کی گردنیں آواز کی طرف اُٹھی ہوئیں تھیں،
وہ 73 سالہ بوڑھی عورت بھی جس نے ابھی ابھی میرے گھر سے فرسٹ ایڈ کٹ چوری کی تھی دیوار کا سہارا لیکر کھڑی ہوگئی
انتظار ختم ہوا تو ایک ایمبولینس دھیرے سے سرکتے ہوئے چوک میں داخل ہوئی
فٹ پاتھ پر بیٹھا اے کیو خان اٹھا
اور ایمبولینس کو دھکا لگاتے محمد علی کے پاس پہنچا
کچھ دیر وہ رکا
سبھی جانتے تھے وہ کیا پوچھے گا
وہ ہڑبڑایا
ملا  ۔۔ ؟
عبدالقدیر خان نے پوچھا
نہیں ! آج بھی پٹرول نہیں ملا!!
قائد اعظم جواب تو دے رہا تھا مگر اس کے ہونٹوں نے کوئی جنبش نہیں کی
کیا گاڑی میں کوئی ہے؟
اقبال نے دور سے پوچھا
ہاں ایک بچہ ہے
اسے بہت سی گولیاں لگی ہیں!
اب کی بار محمد علی کے ہونٹ ہلے تھے
جواب میں کسی نے کچھ نہیں کہا بس احمد ندیم اور جالب اٹھے اور انہوں  نے اسٹریچر سمیت گیارہ یا شاید بارہ سالہ لڑکے کو ایمبولینس سے باہر نکال لیا
اقبال مسیح تم ٹھیک ہوجاؤگے!
فاطمہ جناح نے چوری کیا ہوا فرسٹ ایڈ باکس چادر کے پیچھے سے نکالتے ہوئے کہا
میری نظر پڑی تو مادرِ ملت کے پیٹ پر خون کے دھبے تازہ تھے
تمہارے تو اپنے زخم ٹھیک نہیں ہیں یہ تم ہی رکھو
جالب یہ بچ تو جائے گا نا؟
احمد ندیم نے مایوسی سے پوچھا
میں نہیں مانتا
میں نہیں جانتا!
جالب نے منہ موڑ لیا
کوئی اس کے لئے پانی لاؤ۔۔۔
جونؔ کی گھبرائی ہوئی آواز نکلی تو ایک جوان کرسی سے اٹھا مگر جب وہ پانی کا گلاس بھر رہا تھا تو جگ اس کے ہاتھ سے چھوٹ گیا
اِسے کیا ہوا علامہ؟
محمد علی نے اقبال سے پوچھا
یہ مشال خان ہے اس کے ہاتھوں کی انگلیاں ٹوٹی ہوئیں ہیں!
فاطمہ جناح فرسٹ ایڈ کٹ لیکر مشال خان کی طرف چل پڑی!
جانی آج کیا تاریخ ہے؟
جونؔ نے پوچھا
14 مارچ! آج جالب کو یہاں تیس سال ہوگئے ہیں!
منٹو نے کہا
آپ جو پہلے سنا رہے تھے اسے مکمل کرلیں کیونکہ دو نئے لوگ آج آنے والے ہیں!
مشتاق احمد نے سعادت سے سرگوشی کی
اچھا!
منٹو کھڑا ہوا اس نے جیب سے صفحہ نکالا
ابھی وہ کچھ کہنے ہی لگا تھا کہ چپ ہو گیا
پھر بولا
یار! میں تھک گیا ہوں!!
اقبال مسیح سو چکا تھا
چھوٹے سے جسم سے زیادہ خون نکلنا سلا دیتا ہے

سب نے اپنا اپنا حصّہ شامل کرکے اسے اسٹریچر سمیت اٹھایا اور چوک کے بیچ میں رکھی کرسیوں کی طرف جانے لگے
کوئی انہیں دور سے دیکھتا تو ایسا لگتا جیسے بلوچ لوگ اپنے عرصے سے گم شدہ فرد کی اچانک لاش ملنے پر احتجاج کرنے نکل رہے ہوں
یا شاید وہ کوئی اسٹریچر نہیں ہے
ہاتھوں میں پکڑا ہوا بینر ہے جس پر لکھا ہے
“ہمارے بندے واپس کرو”
سبھی کے پیر بہت وزنی تھے
وہ اپنے جوتے گھسیٹ گھسیٹ کر ایسے چل رہے تھے جیسے پورا دن یوٹیلٹی سٹورز کی قطار میں کھڑے ان کے پیر سوج چکے ہیں
وہ دونوں آگئے! وہ دیکھو!
کوئی بولا
سب نے ایک ہی سمت میں دیکھا
ضیاء محی الدین ،امجد اسلام امجد کے کاندھے پر ہاتھ رکھے چل رہا تھا

Advertisements
julia rana solicitors

پھر وہ سب ایک ساتھ ہوگئے
ان کا سایہ دور ہونے لگا
میں بھی چلنے لگا مگر جانے کہاں سے سامنے گھر آگیا
میں نے نئی فرسٹ ایڈ کٹ تیار کی اور دروازے کے پاس رکھ دی
میں اس میں نئی دوائیاں رکھنا نہیں بھولا
جس سے زخم جلدی بھرتے ہیں
شاید اب کی بار فاطمہ جناح کا زخم بھر جائے !
(متروک کہانیاں)

Facebook Comments

مسلم انصاری
مسلم انصاری کا تعلق کراچی سے ہے انہوں نے درسِ نظامی(ایم اے اسلامیات) کےبعد فیڈرل اردو یونیورسٹی سے ایم اے کی تعلیم حاصل کی۔ ان کی پہلی کتاب بعنوان خاموش دریچے مکتبہ علم و عرفان لاہور نے مجموعہ نظم و نثر کے طور پر شائع کی۔جبکہ ان کی دوسری اور فکشن کی پہلی کتاب بنام "کابوس"بھی منظر عام پر آچکی ہے۔ مسلم انصاری ان دنوں کراچی میں ایکسپریس نیوز میں اپنی ذمہ داریاں سرانجام دے رہے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply