روشنی براستہ زخم/ڈاکٹر مریم زہرہ

ٹھوکر لگتے ہی اسے منوں مٹی تلے دفنا دینے والوں کو یہ گمان تھا کہ اب وہ ان اندھیروں میں گم ہو جائے گی۔ لوگ ایسا کرنے کے بعد بھی مطمئن نہ ہوئے اور یقین دہانی کے لیے ہر روز اس مٹی کے ڈھیر پر اپنے جوتے کی مہر لگاتے رہے۔ ایک عرصے بعد جب تسلی ہوئی کہ زندگی کی کوئی رمق باقی نہیں رہی تو جائے وقوع سے پہرے ہٹا دیے گئے۔ دنیا سے اس کے تمام نقوش مٹا دیے اور لوگ اسے بھولنے لگے۔

پھر ایک دن زمین کے اس ٹکڑے میں دراڑ پڑی، پہلے وہ روشن ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے فصل کی انگوری پھوٹنے لگی۔ ہرا رنگ دور تک دکھائی دیتا، کوئی اسے پہچان نہیں پایا مگر وہ نظر میں آنے لگی تھی۔ اب چگنے کی کوشش میں اسے تار تار کیا گیا۔ بالآخر بارش، تند و تیز ہوائیں اور مخبر پرندے دیکھتے رہ گئے اور اس نے مضبوط تنے کا روپ دھار لیا۔

ایک نئے سفر کا آغاز ہوا جہاں وہ خود نہیں جانتی تھی کہ ہاتھ کے سہارے سے اپنے پیروں پر واپس کھڑے ہونا کیسا محسوس ہوتا ہے مگر اس نے ہاتھ بڑھانا سیکھ لیا، جب لگا یہ کافی نہیں ہے تو ٹھوکر زدہ فرد کے ساتھ بیٹھ کر رو دی۔ اسی راستے پر اس کا سامنا ایک بخیہ گر سے ہوا جس نے خاموشی کے پیچھے چند اُدھڑے ہوئے زخم پہچان لیے۔ بخیہ گر کا یہ کہنا تھا کہ سلائی زخموں کی کی جائے، لبوں کی نہیں۔ سو اس نے سلے ہوئے ہونٹوں سے ٹانکے نکالے اور انہیں واپس حرکت کرنا سکھایا۔

شام کے پچھلے پہر غول سے بچھڑ جانے والا آخری پرندہ جیسے کھوئی ہوئی آواز میں فریاد کرتا ہے، ان لبوں سے بھی چند ایسی صدائیں سنائی دیتیں۔ اب اس کے پاس دوسروں کو دینے کے لئے محض آنسو نہیں، چند ٹوٹے پھوٹے الفاظ بھی تھے۔

وہ اس سفر میں آگے بڑھتی چلی گئی کیونکہ اس کو یقین تھا یہ مسافت رائیگاں نہیں جائے گی۔ ایسا بھی نہیں کہ یہ راستہ محفوظ تھا۔ کئی پتھر اس کے پیروں پر برسائے گئے مگر اب قدم نہ رُکے۔ وہ کہتی تھی (ایک خاص زمانے اور مقصد کے لئے حنوط کی گئی شے کا وقت آ گیا ہے)
دیکھنے والوں کو یہ خدشہ تھا کہ اس دل کا نرم گوشہ دبوچ لیا جائے گا۔ کسی کی ذات کا نازک پہلو بیک وقت اس کی طاقت بھی بن سکتا ہے، یہ ان کی سوچ سے بالاتر تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

آنے والے برسوں میں بخیہ گر کو پیش کی گئی عرضی کے عوض میں اُس نے بتایا: اب وہ چوٹ نہیں کھا سکتی، وہ نفع نقصان سے آزاد ہو چکی ہے، حاصل کردہ رنجشوں کا اثر زائل کرنے کا ہنر جانتی ہے!
اک آزاد پنچھی، جو دنیا کی تلخیوں کو اپنے پیروں میں دبوچے دور کسی ویرانے میں دفنا کر، زندگی کا گیت گاتے ہوئے لوٹ آئے گا اور ویرانے میں ایک اور محبت پھوٹے گی۔
وہ آسمان کی وسعتوں میں محو رقص، نفرتوں سے ماورا، ہر ذرے میں محبت و خوبصورتی تلاش کرنے والی من موجی روح بن چکی ہے۔

Facebook Comments

ڈاکٹر مریم زہرہ
ڈاکٹر مریم زہرہ کا تعلق اسلام آباد سے ہے۔ آپ نے ایبٹ آباد یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سے شعبہ ڈاکٹر آف فارمیسی میں ڈگری حاصل کی۔ آپ بیک وقت ایک تبصرہ نگار، فکشن نگار، مترجم، موٹیویشنل سپیکر اور کتب بین ہیں۔ آپ اردو ادب سے منسلک ہونے کے ساتھ نفسیات پر کچھ سوشل ویب سائٹس پر بطور تربیت کار اور مشیر کردار ادا کر رہی ہیں۔ آپ روٹری انٹرنیشنل کلب(روٹیریکٹ) کی رکن ہیں۔ اس کے علاوہ تھیلیسیمیا سے متاثرہ بچوں کی فلاحی تنظیم رضاکار کی صوبائی صدر خیبر پختونخوا خواتین ونگ ہیں۔ آپ کا تحریری مواد کراچی سے شائع ہونے والے مؤقر ادبی جریدے تظہیر میں شامل ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply