لکھ لیجیئے،تعویز باندھ کر گلے میں لٹکا لیجئے۔ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ مولوی اور فوجی ہے۔ آپ جب تک ان دونوں کو نتھ نہیں ڈالیں گے،پاکستان ترقی نہیں کرے گا۔ ایک آپ کے وسائل پر قابض ہے تو دوسرا آپکے شعور و فکر اور مذہب پر غالب ہے۔ ایک حب الوطنی جبکہ دوسرا اسلامیت کا چورن بیچ رہا ہے اور دھڑلے سے بیچ رہا ہے۔
اب واقعہ سنیے اور سر دھنیے ۔ تاندلوالہ میں ایک مولوی (عالم دین ہر گز نہیں) ابوبکر معاویہ مدرسے میں ایک کمسن بچے کے ساتھ زیادتی کرتا پایا گیا۔ بچے کے باپ نے FIR درج کروا دی کہ مولوی بچے کی شلوار اتارے کھڑا تھا، میرے بیٹے کو زیادتی کا نشانہ بنایا۔ پولیس ضروری کارروائی کرے۔
سوشل میڈیا کے توسط سے بات پھیلی تو ہمارے نام نہاد مولوی نما علما کرام کا اسلام جاگ اُٹھا۔ ایک دوسرے کے پیچھے نماز نہ پڑھنے والے اپنے پیٹی بھائی کو بچانے کے لیے اکھٹے ہو گئے ۔ لاہور سے دوسرا مولوی ابتسام الہی تاندلوالہ پہنچا، بچے کے باپ کو صلح کے لیے راضی کیا۔ زیادتی کے شکار بچے کے والد نے ابتسام الہی ظہیر کی اعلیٰ دینی خدمات کے صلے میں ابوبکر معاویہ کو معاف کر دیا،FIR واپس ہوئی، مولوی ابوبکر معاویہ پولیس کی حراست سے باہر آ گیا۔ جبکہ مولوی ابتسام الہی کا فرمانا تھا کہ یہ دو مسلمانوں کا باہمی معاملہ تھا جو کہ غلط فہمی پر مبنی تھا،لہذا اس معاملے کی تحقیق کے لئے کافروں ،یہود و نصاریٰ کی ایجاد کردہ DNA لیبارٹری میں ہر گز نہیں جایا جائے گا۔ مولوی ابوبکر معاویہ و دیگر مولویوں نے پریس کانفرنس سے خطاب کیا، فتح مبین پر اظہار تشکر ادا کیا۔ وکڑی نشان بنائے، جبکہ جیل سے رہائی پر مولوی صاحب کو پھولوں کے ہار بھی پہنائے گئے ۔ رہائی اور پھر صلح پر مولوی صاحب،انکے مریدین و شاگرد اور دوسرے مولویوں کی خوشی قابل دید تھی ۔
سوال یہ ہے کہ ماں جیسی ریاست اس سارے واقعہ کے دوران کہاں کھڑی تھی؟ کیا ریاست اتنی کمزور ہے کہ ان چند مٹھی بھر مذہبی انتہا پسند عناصر کے سامنے بے بس ہے۔؟ ریاست اس سارے واقعہ میں کیوں مدعی نہیں بنی؟ پولیس نے یہ کیوں نہیں تصدیق کی کہ FIR کس بنیاد پر واپس لی گئی؟؟ ابتسام الہی ظہیر اور دیگر مولوی کیوں اپنے پیٹی بھائی کو بچانے کے لیے اسلام کو بیچ میں لے کر آئے؟ کیا متاثرہ فریق کو اسلامی ٹچ دیکر صلح پر مجبور کیا گیا ؟ یہ وہ سوالات ہیں جو کہ ریاست کا منہ چڑا رہے ہیں ۔
اگر باپ نے پریشر میں آ کر صلح کی ہے تو ایسے باپ کو بھی جیل میں ہونا چاہیے جو کہ اپنے بیٹے کے لئے اسٹینڈ نہیں لے سکا۔ کل کو متاثرہ بچہ ایک کارآمد شہری کیسے بنے گا ؟ جبکہ اسکے بچپن میں ہی اسے مولوی نے اپنی ہوس کا نشانہ بنا ڈالا تھا۔ کیا وہ کبھی اس ذہنی ٹارچر اور ڈپریشن سے نکل پائے گا؟ کیا وہ یہ بات کبھی مان پائے گا کہ جس مولوی نے اسے زیادتی کا نشانہ بنایا تھا،اسے اسلام کے نام پر معاف کیوں کر دیا گیا تھا؟ یہ وہ سوالات ہیں،جس کے جوابات نہ ماں جیسی ریاست ،نہ اس کے باپ اور نہ ہی ہم میں سے کسی کے پاس ہیں۔
چند دن قبل وفاقی کابینہ نے ایک حاضر سروس جنرل کو تین سال کے لئے چیئرمین نادرا تعنیات کر دینے کی سمری کو قبول کر لیا تھا۔ سویلین اداروں میں فوجی سربراہان کی تعیناتی ایک ایسا خوفناک لاوا ہے جو جب پھٹے گا تو بچے گا کوئی بھی نہیں ۔
وطن عزیز میں سویلین اداروں کی سربراہی آہستہ آہستہ اب سویلینز کے ہاتھوں سے لیکر آرمڈ فورسز کے افراد کو دی جا رہی ہے، جبکہ ریٹائرڈ حضرات کو بھی کسی نا کسی طریقے سرکاری سویلین اداروں میں ایڈجسٹ کیا جا رہا ہے۔ یہ ایک خوفناک امر ہے،جسکی وجہ سے پاکستان کا نوجوان یہاں سے مایوس ہوتا چلا جا رہا ہے۔ کیونکہ اسے پتا چل چکا ہے کہ وہ جتنی بھی ڈگریاں حاصل کر لے،یہ ملک اسے بہتر مستقبل نہیں دے سکتا، کیونکہ وہ کبھی کسی ادارے کا سربراہ لگ ہی نہیں سکے گا،اسی وجہ سے آج پاکستان کا نوجوان پاکستان کی بجائے کسی بھی دوسرے ملک جانے کو ہمہ تن تیار بیٹھا ہے ۔
جب اہل نوجوان امیدواروں کو ڈھنگ کی نوکری نہیں ملے گی اور دوسری طرف حاضر سروس افراد کو بیک وقت دو دو نوکریوں سے نوازا جائے گا تو سوال تو اٹھیں گے،جبکہ ریٹائرمنٹ کے بعد کے مزے اور نوکریاں الگ ہیں ۔ احباب اختیار کو اس بارے میں لازمی سوچنا پڑے گا کہ اس سے پہلے بہت دیر ہو جائے ۔ یاد رکھیں ! ڈر کے سہارے قائم عزت زیادہ دیر تک نہیں ٹھہر سکتی، جس دن ڈر کا یہ عنصر ختم ہو گیا تو تب کیا بنے گا؟ سوالات جوابات مانگتے ہیں ۔ اب حب الوطنی و مذہبی ٹچ کے مرچ مصالحوں سے آج کا پاکستانی نوجوان نہیں ماننے والا،کیونکہ اسے ستر سالوں سے ان مرچ مصالحوں کے سِوا ملا ہی کیا ہے؟
نوٹ:تحریر میں بیان کردہ خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، مکالمہ ویب کا ان سے اتفاق ضروری نہیں اور نہ ہی یہ خیالات ادارے کی پالیسی کا اظہار ہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں