انگ انگ رنگریز۔۔ناصر خان ناصر

عزیزم نسیم خان کی انوکھی دلفریب آزاد شاعری کی کتاب “رنگریز” پڑھتے ہوئے جب انگ انگ ان دیکھے رنگوں میں رنگتا چلا گیا تو یوں محسوس ہوا جیسے قدموں تلے بچھے قالین کے دھیمے رنگ دھنک بن کر لہرانے لگ پڑے ہیں اور روح کی گہرائیوں تک انوکھے دلفریب رنگوں کی اک کہکشاں سی بچھ گئی  ہے۔

کسی بہت بڑی علمی ہستی نے ایک بار یہ کہا تھا کہ “ادب ایک علیحدہ شئے ہے اور علمِ ادب اک دوسری شئے ۔ ادب کا مفہوم علم  و ادب سے زیادہ عمیق، وسیع اور گھمبیر ہوتا ہے، یہ وہ فطرت ہے جو اگر برتنے میں آ جائے تو تہذیب کہلائے، گفتگو بنے تو نثر اور وزن میں مقید ہو جائے تو شاعری، آہنگ میں ڈھل جائے تو موسیقی۔”

اسی خوبصورت بیان میں اپنے حقیر الفاظ جمع کرنا چاہوں گا کہ اگر یہی خوبصورت نثر شاعرانہ رنگین پہناوہ پہن کر اپنے منہ آپ بولنے لگے اور انگ انگ رنگ بکھیرتے ہوئے زندگی کی روح تک رسائی پا لے، پھر اس کی گیرائ و گہرائ ماپنے لگے تو “رنگریز” بن جاتی ہے۔

اس دلفریب شاہپارے “رنگریز” میں کل دو سو سات انوکھی اچھوتی نظمیں ہی نہیں ہیں بلکہ یہ تو آسمان پر اپنے پر پوری طرح پھیلائے، آزاد اُڑنے والے کسی خوبصورت پنچھی کی روداد ہے۔
یہ اس پرندے کی دوربین نما تیز آنکھوں سے دیکھی ہوئی  کائنات کے وہ ہزاروں بکھرے ہوئے رنگ ہیں، جنہیں عام انسانوں کی 20 بائی  20 نظریں دیکھنے سے قاصر ہیں۔ یہ وہ پرندہ ہے جو خوابوں کے جزیرے سے اڑ کر امنگوں اور خواہشوں کے سمندر میں ڈبکی لگاتا ہے تو سر تا پا عقل و دانش بھری تشبیہات کے رنگوں سے بھیگ جاتا ہے، اس بیکراں سمندر سے، جس کا کوئی  اور ہے، نہ چھور، وہ دانائی  کے ایسے ایسے چمکدار شہوار موتی چن کر لے آتا ہے کہ وباید و شاید۔ ان نایاب موتیوں کے متاثر کن رنگ و روپ گویا روشنی سی بکھیرنے لگتے ہیں۔ پھر ان انوکھے رنگوں کا سحر ایک ایسے بالغ شعور میں ڈھل جاتا ہے جو ہر ذی روح کو پاتال کی گہرائیوں سے نکال لاتا ہے۔ اور پھر انھیں ڈگر ڈگر نگر نگر گھماتا پھراتا ہے اور تالیاں بجاتے سرشار پتوں، جوبن سے مست ہوئے پھولوں کی بہار سے گزار کر بیکراں پھیلے آسمان تلک اُڑا کر لے جاتا ہے۔ یہ وہ آسمان ہے، جس پر بے شمار محبوس امیدوں، نارسیدہ آرزوؤں اور بھیانک مظالم کا شکار بنے ان گنت مجبور لاچار انسانوں کی طرح پیلے پڑتے، ٹمٹماتے، بجھتے ہوئے اداس ستارے مقید ہیں۔

عزیزم نسیم خان صاحب انہی خاموش ستاروں کو ایسی بلیغ و فصیح، مسجع و مقفع، مفرس و معرب، حسین و سجع بند، حسن معنی سے آراستہ و پیراستہ دلآویز زبان مرحمت فرماتے ہیں کہ وہ نظموں کے دلفریب پیکر میں ڈھل کر رنگ بکھیرنے لگتے ہیں۔
پھر بھلا یہ نظمیں کہاں ہیں؟
یہ تو لفظوں کے نازک پیروں میں شاندار علمی تشبیہات و مطالب کی چھن چھن کرتی جھانجھریں پہنا دی گئی  ہیں اور انھیں مٹکتا، بہکتا، جھنجھناتا، مسکراتا، دل لبھاتا اور رنگ لٹاتا ہوا چھوڑ دیا گیا ہے۔
انھیں پڑھ کر تو سارا جہاں جھوم جھوم کر رقص کرنے لگتا ہے۔ ریت کے ایک چھوٹے سے ذرے سے لے کر پوری کائنات تک رنگوں کا یہی عالم رقصاں ہے۔
انہی رنگوں سے من کے گھور اندھیرے آسمان پر امیدوں کے روشن چاند ستارے چمکتے ہیں اور پھر انہی اندھیروں کو چیر کر جگمگاتی آرزوؤں کا نیا سورج نئی  امید بن کر طلوع ہوتا ہے۔

یہ نظمیں کہیں تو ابھرتے سورج کی نرم خو اور ملائم کرنوں جیسی ہیں تو کہیں دوپہر کی تند خو، جلا دینے والی دھوپ کی مانند سخت گرم۔
یہ نظمیں کہیں جل ترنگ بجاتی، رس گھولتی، اپنے منہ آپ بولتی، روح ٹٹولتی، من میں ڈولتی، اپنے بھید بھاؤ آپ کھولتی ہیں تو کہیں رنگ ترنگ لیے دل آہنگ، شوخ و شنگ، پُر امنگ اور پھولوں کی طرح خوش رنگ ہیں۔

ان میں آرزوؤں کے لہو کا رنگ بھی ہے اور بہتے آنسوؤں کی بے رنگ نمکینی بھی۔ ان نظموں کی بے ساختگی، روانی، عقل گردانی، نظرِ فرزانی، حیرتِ سبحانی، خطابتِ سلطانی، جوشِ ایمانی، مطالب و معنی مانندِ گلِ بہار عطر دانی ہیں کہ دل و دماغ معطر ہو کر عش عش کر اٹھیں۔
اگر ان نظموں کے جیتے جاگتے حروف موتیا کی سپید کلیوں کی مانند ہیں تو یہ نظمیں کوری ٹھلیا پر لپٹے گجروں جیسی ہیں جو اپنی مدھر خوشبو اور دلفریب حسن سے جسم و جاں کو یوں شاداب کر دیتے ہیں کہ صبحِ بنارس، دوپہرِ مالوہ اور شامِ اودھ یاد آ جاتی ہیں۔ کہرے اور اوس سے بھیگے سبزے کے مخمل میں کھلے سرخ گلاب جیسی معطر یہ خوبصورت کتاب جسے پا کر اور پڑھ کر ہمیں بے حد مسرت ہوئی  ہے، سچ مچ ایک خوبصورت یادگار تحفے کی مانند ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہم دعاگو ہیں کہ عزیزم نسیم خان صاحب کو علم، حلم، بخت، شہرت، عزت، ایمان، صحت اور درازی عمر نصیب ہوں۔ رب العزت اس کتاب کو مقبولیت کے اوجِ ثریا تک لے جائے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply