ڈاکٹرز کمیونٹی کا”ایم۔ٹی۔جے”ڈاکٹر عفان قیصر /عبدالستار

ایم۔ ٹی۔ جے ہمارے معاشرے کا وہ علامتی کردار یا استعارہ ہے جو جزا و سزا کے پیمانے کے بالکل درمیان میں کھڑا ہوکر اپنا معاشرتی مقام بناتا ہے، اس قسم کا کردار اپنی سحر بیانی سے جنت کو مزین اور جہنم کو سوا نیزے تک لے جانے کا ہنر خوب جانتا ہے، تصوراتی منظر کشی کے سہارے اپنی دنیا و عاقبت کھری کرکے ایک “برانڈ” بن جاتا ہے جب کہ اس کے پیچھے کھڑے عوام وہیں کے وہیں اور اس کی ایک جھلک دیکھنے یا لمس کی صورت میں مصافحہ کرنے کے لئے ترستے رہتے ہیں۔ جس طرح سے ایک مزدور اپنے اندر چھپے “جوہر” سے بے نیاز ہوتا ہے اور مزدوری کرتے کرتے زمین کا رزق بن جاتا ہے مگر ساری زندگی اس پر یہ عقدہ نہیں کھلتا کہ تمہارے اندر ہی وہ جوہر چھپا ہوا ہے جسے “قوت” کہا جاتا ہے، اسی قوت کا استحصال کرکے ہی تو یہ سب زمینی خدا معرض وجود میں آتے ہیں ورنہ ان کی اتنی اوقات کہاں؟ ان کے بڑے بڑے محلات کی بنیادوں میں مزدور کا خون پسینہ رچا بسا ہوتا ہے اور لاکھوں مزدوروں کے سہارے یہ زمینی خدا بنتے ہیں ورنہ یہ تو اتنے کمزور ونازک ہوتے ہیں جو اپنے چھوٹے موٹے کاموں تک کے لیے بھی مزدور کی قوت کے محتاج ہوتے ہیں۔ بالکل اسی طرح سے یہ عوام اس حقیقت سے بھی بے نیاز ہوتے ہیں کہ جن کی ایک جھلک دیکھنے یا مصافحہ کے لئے یہ سارا دن سڑکوں پر رلتے ہیں ان کی نجی سطح پر کوئی اہمیت نہیں ہوتی بلکہ انہی نے تو اسے برانڈ بنایا ہوتا ہے مگر وہ اس حقیقت کا ادراک نہیں رکھتے۔ یہ جتنے وی آ ئی پیز یا برانڈ ہوتے ہیں ان کی بنیادوں میں لوگوں کی اندھی تقلید و فالونگ یا سبسکرپشن کی طاقت شامل ہوتی ہے جس طاقت کو یہ سادہ لوح ان وی آ ئی پیز کی چمک دمک پر بغیر کچھ سوچے سمجھے لٹا دیتے ہیں اور ساری زندگی غربت کا رونا روتے رہتے ہیں۔ ظاہر ہے یہ استحصال کو مشیت ایزدی سمجھتے ہیں اور اپنے زمینی خداؤں کو مالک کی رضا اور اپنی غربت و پستی کواپنے مقدر کی پہلے سے لکھی ہوئی کہانی۔ تو پھر کسی بھی طبقے کا طاقتور استحصالی انہیں بڑی آ سانی سے بیوقوف بنا لیتا ہے اور اپنی دنیا و آخرت سیدھی کر کے چلتا بنتا ہے، بس اپنے پیچھے اشتہار چھوڑ جاتا ہے جسے بھولے بھالے عوام اٹھائے رکھتے ہیں۔ برانڈز یا وی آئی پیز کی کہانی بس اتنی سی ہوتی ہے اور استحصالی معاشرے میں اس قسم کے مہان کھمبیوں کی طرح اگتے رہتے ہیں، جہالت کی وجہ سے خلا کافی ہوتا ہے اور اسی چیز کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس قسم کے چالاک اور شاطر لوگ میدان میں آ جاتے ہیں اور لوگوں کے ذہنوں سے خوب کھیلتے ہیں۔ آج جس برانڈ کی بات کرنی ہے وہ طبقہ “مسیحا” جنہیں ڈاکٹرز کہا جاتا ہے کا ایم۔ٹی۔ جے ڈاکٹر عفان قیصر ہے، جو کہ آج کل بہت وائرل ہیں، اپنے پروفیشن کو سو فیصد دینے کی بجائے ویڈیوز کی صورت میں”ورچو سگنلنگ” کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں اور اپنی رائے کو “پروفیشنل سینٹرک” رکھنے کی بجائے اپنا ذاتی”ورچو ٹچ” یا اخلاقی بھاشن بازیاں کرتے زیادہ دکھائی دیتے ہیں۔ ایسے لگتا ہے کہ جیسے وہ موٹیویشنل سپیکر یا مبلغ بننا چاہتے تھے مگر غلطی سے یا معاشرتی جبر کی وجہ سے ڈاکٹر بن گئے اور اب وکٹ کے دونوں طرف کھیل کر اپنا شوق پورا فرما رہے ہیں بالکل ایم۔ٹی۔ جے کی طرح سے، جو کہ سنگر بننا چاہتے تھے مگر والد کی وجہ سے ڈاکٹر بننے لگے اور درمیان میں رائیونڈ والے آگئے، میڈیکل چھوڑی ادھر چل دئیے اور اب بطور مبلغ مختلف چٹکلوں کی صورت میں اپنا شوق پورا فرماتے رہتے ہیں۔ ڈاکٹر عفان قیصر کو بھی نظر ثانی کرکے رجوع کر لینا چاہیے کیونکہ مس فٹ لوگ اپنے پروفیشن کے لیے زہر قاتل ہوتے ہیں اور تشنہ خواہشات کی وجہ سے ادھر ادھر پھدکتے رہتے ہیں اور عطائیت کو فروغ دینے لگتے ہیں، اپنا شوق ضرور پورا کریں آپ کا حق ہے مگر ایک ایسا معاشرہ جو پہلے ہی عطائیوں کی آماجگاہ ہے اور جا بجا اناڑی ملنگ یا درویش بن کر عوام کو لوٹ رہے ہوں وہاں پروفیشنلز بھی انہی راہوں پر چل نکلیں تو پھر سماج کا کیا بنے گا؟ ہماری اخلاقیات و عاقبت سنوارنے کے لیے لاکھوں مبلغین پہلے سے موجود ہیں یہ الگ بات ہے کہ وہ اس قوم کا کچھ بھی نہیں بگاڑ پائے، جہاں تھے آج بھی وہیں کھڑے ہیں مگر اگر پروفیشنلز بھی ملاوٹ زدہ ذہنیت کا شکار ہو جائیں تو پھر “اصل یا کھرا” کہاں سے ملے گا؟ پھر گلہ کیسا جناب! اگر ہر قسم کی شعبدہ بازیوں کے بعد بھی ہمارے ملک کے “حماد صافیوں” کو اصل یا کھرا علم و شعور لینے کے لئے انہی ملکوں کی یاترا کرنی پڑتی ہے جو ہماری نظروں میں جہنمی، ہر وقت سیکس کے متلاشی یا راندہ درگاہ نجانے کب کے ڈکلیئرڈ ہیں؟ظاہر ہے جہاں خالص ملاوٹ کے ساتھ بکنے کا چلن ہو گا تو خالص کے متلاشیوں کو ہجرت کرنا پڑے گی اور برین ڈرین کی صورت میں کافرستان سدھارنا مجبوری بن جائے گا کیونکہ دھوکہ یا شعبدہ بازی کی شیلف لائف مختصر ہوتی ہے اور دھوکے کے سہارے ساری زندگی نہیں گزاری جاسکتی۔ ڈاکٹر عفان قیصر کی ویڈیو سنی جس میں وہ فرما رہے ہیں کہ سموسہ ایٹم بم، بریانی نیوکلئیر میزائیل اور پیزہ تین ہزار کیلوریز کا ڈرون اٹیک ہے اور اس کے ساتھ ہی اپنے ذاتی کھانے کی نمائش بھی فرما رہے ہیں، جس میں ملٹی گرین آٹا کی روٹی، چکن کوفتے اور انڈے کی سفیدی کے علاوہ کچھ سلاد وغیرہ بھی موجود ہے اور ساتھ میں بتا رہے ہیں کہ آپ کو زیتون کا تیل کھانوں میں استعمال کرنا چاہیے تاکہ آپ صحت مند و توانا رہیں۔ بات بلکل درست ہے مگر نان پریکٹیکل، آئیڈیلزم یا مسحورکن قسم کی باتیں ہیں جہاں دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوں وہاں اس قسم کے چونچلوں کا کون رسک لے سکتا ہے؟ ویسے بھی جو متبادل آپ بتا رہے ہیں وہ بارہ چودہ کی فیملی میں ممکن نہیں ہے اور اکثر اوقات تو ایسا ہوتا ہےکہ چند سموسوں و پکوڑوں سے غریب کی پوری فیملی سیر ہوکے روٹی کھا لیتی ہے۔ اس لئے ڈاکٹر صاحب! آپ کے ان فرامین کا غربت میں اٹے لوگوں پر تو کوئی اثر نہیں ہوگا ہاں البتہ مالدار و صاحب حیثیت طبقہ ضرور اس نہج پر سوچے گا کیونکہ وہ افورڈ کر سکتے ہیں اور ویسے آپ کا مخاطب بھی یہی مال دار ہوں گے، غرباء کو یہاں کون پوچھتا ہے؟ لیکن دھندہ بڑے کمال کا ہے دونوں طرح سے مگرمچھ ہی مستفید ہوں گے اور لگژری آ ئٹم کو مارکیٹ میں لانے والوں کے وارے نیارے ہوں گے۔ ڈاکٹر عفان قیصر! پکوڑے،سموسے اور جلیبیاں ان غریبوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں، جو ایک وقت کی کھا کر دو وقت بھوکے رہ سکتے ہیں وہ اس قسم کی معمولی عیاشیوں سے بیمار نہیں ہوتے بلکہ مسیحاؤں کے رویوں کی وجہ سے زیادہ بیمار پڑتے ہیں اور ان معمولی نوعیت کی بیماریاں ناسور بن جاتی ہیں۔ سرکاری ہسپتالوں میں ڈاکٹرز کی عدم توجہگی اور پرائیویٹ ہسپتالوں میں زیادہ مصروف ہونے کی وجہ سے سرکاری ہسپتال کے فرشوں پر رلتے رہتے ہیں، پرائیویٹ ہسپتالوں کی فیس افورڈ نہ کر سکنے کی وجہ سے مسیحاؤں کے انتظار میں رلتے ان مریضوں کی بیماریاں ناقابل علاج ہو جاتی ہیں۔دوسری طرف پرائیویٹ ہسپتالوں میں کمپنیوں کا دھندا کامیاب کرنے کے لئے اور اپنے ہسپتالوں کی رونق بڑھانے کے لیے ڈاکٹرز مافیا مہنگی ترین ادویات لکھتے ہیں جس کا صلہ انہیں لگثری گاڑیوں، ہسپتال کے لئے آلات کی مد میں شئیر کے طور پر ملتا ہے۔سب سے بڑا المیہ یہ ہےکہ یہی ڈاکٹرز نماز اور روزوں کا بھی مکمل اہتمام رکھتے ہیں، مطلب فیس سیونگ کابھی مکمل بندوبست ہوتا ہے۔ کیا آپ اس بات سے بے خبر ہیں کہ صحت کارڈ کا ناجائز فائدہ کیسے یہ نام نہاد مسیحا اٹھا رہے ہیں؟ آپ اندر کی باتیں سب جانتے ہیں مگر سب سے مشکل کام

Advertisements
julia rana solicitors london

“اپنی منجی تھلے ڈانگ پھیرنا ہوتا ہے”
دوسری ویڈیو جس پر بات کرنا بہت ضروری ہے۔
“اپنے بچوں کو سیکس ایجوکیشن کیسے دیں”
جس میں ڈاکٹر صاحب نے بہت اچھی باتیں کیں مگر ایل۔ جی بی۔ ٹی کمیونٹی بارے ڈنڈی مار گئے اور تسلیم شدہ حقائق پر اپنی پروفیشنل یا ایکسپرٹ رائے کے ذریعے معاشرے کی رہنمائی کرنے کی بجائے بھاشن بازی پر اتر آئے اور ایل۔ جی۔ بی۔ٹی کمیونٹی کو”پرورٹ ازم”کے ساتھ جوڑ دیا۔ میڈیکل ڈاکٹر اور انسانی جسم کو باریک بینی سے سمجھنے والے بندے سے اس قسم کی رائے کی توقع نہیں رکھی جاسکتی اور یہ کہہ دینا کہ ان کی وجہ سے عورت عورت کے ساتھ اور مرد مرد کے ساتھ سیکس کرنے لگتے ہیں۔بڑی ہی بودی سی سویپنگ سٹیٹمنٹ ہے۔اس قسم کی باتیں اخلاقی بھاشن تو ضرور ہو سکتی ہیں جنہیں تسلیم کرنا یا نہ کرنا ہر ایک کازاتی حق ہے مگر حقائق کا دور دور تک اس تصور سے کوئی تعلق نہیں ہے،پرورٹ ازم اس طبقے کے ساتھ جڑی ہوئی نہیں ہے بلکہ حقیقی پرورٹ ازم کا مظاہرہ بڑے عہدوں پر فائز صاحب اختیار لوگ کرتے ہیں جن کی نظروں میں خواتین کی اہمیت محض لبھانے والی آ ئٹم کی حد تک ہوتی ہے، سیکشؤل پرورٹڈ بطور مدرس،استاد یا ڈاکٹر کے روپ میں رہنما یا مسیحا بن کر بچے بچیوں کا ابیوز کرتے ہیں۔ اور اگر کوئی ڈاکٹر اکیسویں صدی میں مسلمہ حقیقتوں کو نظر انداز کرکے پیڈوفیلیا، ہم جنسیت اور انسیسٹ کو ایک جیسا سمجھتا ہے تو اس کی مسیحائی پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔ حقائق تاویلات کے محتاج نہیں ہوتے اور ریت میں سر دبائے رکھنے سے چھو منتر نہیں ہو جاتے بلکہ اپنی جگہ پر موجود رہتے ہیں جو معاشرے ادراک کر لیتے ہیں آگے بڑھ جاتے ہیں اور جو انکاری رہتے ہیں وہیں پھنس کے رہ جاتے ہیں۔ جنسی ترجیحات کو سمجھنے سے قاصر یا جنسی ترجیحات سے آگہی کے ڈر میں مبتلا کسی بھی معاشرے یا شخص، فلسفہ یا کسی بھی”ازم”کے اخلاقی پیمانے قانون یا حرف آ خر نہیں ہوتے اور نا ہی کسی دوسرے شخص کو اپنے مطابق سوچنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے، ہر وہ شخص نفسیاتی عارضے میں مبتلا ہے جو اپنی ذاتی پسند و ناپسند کو دوسرے کے لئے اخلاقی کوڈ یا قانون سمجھنے پر بضد رہتا ہے، کنسینٹ یا بالغ انتخاب آج کی مہذب دنیا کا تحفہ ہے۔ دوسروں کو اس وجہ سے تضحیک کا نشانہ بنانا کیوں کہ وہ مختلف ہیں یا ذراہٹ کے سوچتے ہیں یا معاشرہ اس قسم کی جاہلانہ روش کی حمایت کرتا ہے اس سے بڑھ کر گھٹیا اور قبیح عمل کوئی اور نہیں ہوسکتا اور انہیں بھی سالٹ آ ف دی ارتھ نہیں کہا جا سکتا جو پیڈوفیلیا، ہم جنسیت اور انسیسٹ کو ایک جیسا سمجھنے پر بضد رہتے ہیں۔ منافقتوں میں اٹے معاشروں میں کچھ بھی خالص نہیں رہتا، رہنما اور پروفیشنلز اپنی شہرت کی رینج بڑھانے کے لئے شعبدہ بازی کرنے لگتے ہیں۔ دگرگوں قسم کے معاشرے کو پورا سچ بولنے والے ماہرین کی ضرورت ہوتی ہے نہ کہ آدھا سچ بولنے والے عطائیوں، مبلغین یا پارساؤں کی۔ایسے ماہرین کی ضرورت ہوتی ہے جو اخلاقی بھاشن بازیوں کی بجائے اپنی پروفیشنل تھکنگ کو پوری دیانتداری سے پیش کرنے کا حوصلہ رکھتے ہوں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply