• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • ایرانی صدر کا دورہ چین،خطہ تبدیل ہورہا ہے/ڈاکٹر ندیم عباس

ایرانی صدر کا دورہ چین،خطہ تبدیل ہورہا ہے/ڈاکٹر ندیم عباس

دسمبر2022ء میں ریاض میں مشرق وسطیٰ کے اہم ممالک جمع ہوئے اور ان سے چین کے صدر نے خطاب کیا۔ اس کے بعد ایک اعلامیہ جاری کیا گیا، جس میں اسلامی جمہوریہ ایران کی بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ حدود پر بعض عرب ممالک کے موقف کی بظاہر حمایت کی گئی تھی اور اس کے ساتھ ساتھ شام اور عراق میں دہشتگردی کو شکست دینے والی قوتوں کے خلاف بھی غیر سفارتی لہجہ اختیار کیا گیا تھا۔ اس پر اسلامی جمہوری ایران کی حکومت نے چین کے سفیر کو بلا کر احتجاج کیا تھا۔ اس وقت بھی یہ لکھا تھا کہ قوموں کے تعلقات بڑی مستحکم بنیادوں پر قائم ہوتے ہیں اور بعض اوقات کچھ مقاصد کے حصول کے لیے اس طرح کے بیانات دے دیئے جاتے ہیں۔ اصل صورتحال یہ ہے کہ سعودی عرب اور اس کے اتحادی امریکی اتحادی ہیں، یہ چین کے فطری اتحادی نہیں ہیں۔ ایک حقیقت ہے کہ ان ممالک کے پاس تیل اور تیل سے کمایا پیسہ بڑی مقدار میں موجود ہے۔ چین ایک تاجر ہے اور تاجر اپنے مفادات کو نکالنے کی بات کرتا ہے۔ چین سعودی عرب اور دیگر ممالک میں اپنی سرمایہ کاری اور یہاں سے تیل کے سلسلے کو مسلسل جاری رکھنا چاہتا ہے اور اس مارکیٹ میں بڑے پیمانے پر چینی اشیاء سیل ہوتی ہیں، اس لیے ان مفادات کے تحفظ کے لیے ایسا کرتا ہے۔

آیۃ اللہ ابراہیم رئیسی کے دورہ پر غور کریں تو یہ دوہ معیشت کی ترقی کی حکمت عملی سے بھرپور ہے۔ اس میں پٹرولیم، تعمیرات، زراعت، اربن ڈویلپمنٹ، خارجہ، تجارت اور ٹرانسپورٹ کے منسٹرز شامل تھے۔ ایرانی صدر کی یہ کوشش ہے کہ انہوں نے نوجوانوں سے جو وعدے کیے ہیں، وہ انہیں جلد از جلد پورا کریں۔ امریکی لابی کی یہ کوشش ہے کہ موجودہ حکومت کو مالی طور پر غیر مستحکم کریں، تاکہ عوام زیادہ مسائل کا شکار ہو کر حکومت کی مخالفت کرے۔ ایران نے ان پابندیوں سے بہت کچھ سیکھا ہے، ایک تو وہ استقلال کی طرف گیا ہے۔ اب چھوٹی چھوٹی اشیاء سے لے کر بسیں اور ڈرونز تک ایران میں بن رہے ہیں۔ ایرانی حکومت نے امریکی اور مغربی پابندیوں کے توڑ نکالے ہیں، یعنی یہ پابندیاں اپنا اثر کھونے لگی ہیں۔ ان کے ماہرین اندازہ لگاتے ہیں کہ اگر یہ پابندیاں لگ جائیں تو ایران گھٹنے ٹیک دے گا، چلیں اب نہیں ہوا تو تھوڑی اور پابندیاں لگا لیتے ہیں، شائد ایران مجبور ہو جائے۔ یہ اسلامی جمہوری ایران کی قیادت کی محنت اور لگن کا نتیجہ ہے کہ اتنی بڑی معیشت کو کھڑا کر دیا ہے۔

ایران او چین کے درمیان 25 سالہ باہمی تعاون کا معاہدہ ہے، یہ ایک طرح کا روڈ میپ ہے، جس پر دونوں ملکوں نے چلنا ہے اور اس کے نتیجے میں کھربوں ڈالر کی سرمایہ کاری ایران میں ہونی ہے۔ ظالمانہ پابندیوں کی وجہ سے اس کی رفتار کم ہے، مگر اس پر کام جاری ہے۔ صدر ابراہیم رئیسی اور صدر شی سے ملاقات کے دوران 20 تعاون کے معاہدوں پر دستخط کیے گئے ہیں۔ دنیا کا پرانا نظام ختم ہو رہا ہے اور ایک نئی دنیا تشکیل پا رہی ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی پالیسی نئے عالمی نظام میں اقتصادی ہم آہنگی کی ہے اور یکطرفہ پن اور تسلط کی نفی میں دونوں ممالک کا موقف ایک ہے۔ اس وقت ایران کی چین کو برآمدات 12-6 ارب ڈالر ہیں اور درآمدات اس سے تھوڑی سے زیادہ ہیں، یوں چائینہ ایران کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے۔ ایک سال میں ایرانی برآمدات میں اٹھاون فیصد اضافہ ہوا ہے۔ جوں جوں وقت آگے بڑھے گا، ایران میں چائنہ کی سرمایہ کاری اور ایران سے چین کو برآمدات میں بھی اضافہ ہوگا۔

ایران اور چائینہ دونوں امریکی جارحیت کا شکار ہے، چند دن پہلے ہی امریکہ نے چائینہ کا ایک تحقیقی غبارہ مار گرایا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ امریکہ اور یورپ نے چین کے خلاف بھی معاشی جنگ چھیڑ رکھی ہے۔ امریکہ اور یورپ چین، روس اور ایران کو اپنا دشمن قرار دیتے ہیں۔ روس کے لیے یوکرین کا مسئلہ پیدا کیا گیا ہے اور جنگ مسلسل جاری ہے، جس میں امریکہ پوری طرح ملوث ہوچکا ہے۔ امریکی پیسہ اور امریکی ہتھیار استعمال ہو رہے ہیں۔ اس کا نتیجہ جلد نکلتا نظر نہیں آرہا۔ اسلامی جمہوریہ ایران پر انسانی تاریخ کی ظالمانہ ترین پابندیاں لگائی گئی ہیں۔ یوں اپنے زعم میں ان قوتوں نے ان کے ورلڈ آڈر کو چیلنج کرنے والی قوتوں کو انگیج کر لیا ہے۔ اب دنیا تیزی سے تبدیلی ہو رہی ہے، جلد ہی دنیا پر یہ یکطرفہ ورلڈ آرڈر ختم ہوگا۔

Advertisements
julia rana solicitors

چین نے 2015ء کے معاہدے میں لوٹنے کے حوالے سے ایران کے موقف کی تائید کی ہے۔ اسی طرح چین نے خود کو مغربی زعم برتری کا شکار بتایا ہے کہ ان کے اقدامات جارحانہ ہیں۔ اسی طرح چائینہ نے ایران میں مغربی ممالک کی مداخلت پر بھی بات کی ہے، جس میں ایران کی داخلی خود مختاری کے احترام کرنے کا کہا گیا ہے۔ یہ صدر رئیسی کی بڑی کامیابی ہے کہ چینی صدر خود اس پالیسی کا اعلان کر رہے ہیں۔ بین الاقوامی میڈیا اور دنیا بھر کے رہنماء اسے توجہ سے سن رہے ہیں۔ اب یہ پروپیگنڈا شروع کیا جائے گا کہ ایران چائینہ معاہدے پابندیوں کی خلاف ورزی ہیں اور کیا چائینہ ایران کی مدد کرکے ان بین الاقوامی قوتوں کو چیلنج کر رہا ہے؟ جی یقیناً ایسے ہی ہے، چین اپنے مفادات کے لیے خطے میں قدم بڑھا رہا ہے اور اسے جس طرح کے قابل اعتماد اتحادی کی ضرورت ہے، جو امریکی اور یورپی دباوں پر موقف نہ بدل رہے تو اس کے لیے موزوں ترین ملک اسلامی جمہوری ایران ہے۔ یہ دورہ خطے میں جاری تبدیلی کے عمل کو مزید تیز کر دے گا، دیکھنا یہ ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔؟

Facebook Comments

ڈاکٹر ندیم عباس
ریسرچ سکالر,اور اسلام آباد میں مقیم ہیں,بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے ان کے کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply