• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • یمن کے بچے اللہ سے سوال کرتے ہیں۔۔۔ڈاکٹر ندیم عباس

یمن کے بچے اللہ سے سوال کرتے ہیں۔۔۔ڈاکٹر ندیم عباس

یہ یمن کے شہر حدیدیہ کا سب سے بڑا سرکاری ہسپتال ہے، اس میں مسلسل ایسے بچے لائے جا رہے ہیں جو ہیضہ سے متاثر ہیں۔ بین الاقوامی میڈیا ان بچوں کو دیکھ کر حیرت زدہ ہے، بچے کیا ہیں؟ ہڈیوں کے ڈھانچے ہیں، اپنی عمر سے بہت کم دکھائی دیتے ہیں، بے بسی کی علامت بنے والدین کسی قیمتی ترین اثاثے کی طرح ان بچوں کو انتہائی احتیاط سے بستر پر لٹا دیتے ہیں۔ بچے اور معصوم بچے تو دشمن کے بھی ہوں تو پیارے لگتے ہیں، یہ تو ان والدین کے اپنے چمن کے پھول ہیں، ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہیں، ان کے دلوں کا سکون ہیں، لیکن اب یہ چمن اجڑنے کو ہے، اب یہ آنکھیں برسنے کو ہیں، تھوڑی ہی دیر میں کسی نہ کسی بچے کا دل دھڑکنا چھوڑ دیتا ہے اور کئی دلوں کی دھڑکنیں تیز کر دیتا ہے۔ جنگ کے بعد سے پانچ لاکھ  لوگ ہیضے کی وبا کا شکار ہوئے ہیں، ملک کی بڑی آبادی بھوک کا شکار ہے، کھانا نہ ملنے کی وجہ سے  یمن غذائی قلت کا شکار ہوچکا ہے۔ یمن میں موت کا رقص ہے، آسمان سے جہاز آگ برساتے ہیں اور جب اہل یمن ان کا جنازہ پڑھنے کا اہتمام کرتے ہیں تو پھر ان جنازوں پر بمباری کی جاتی ہے، جس کے نتیجے میں اور لوگ لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ یہ عمل مسلسل جاری ہے۔
اس جنگ میں سب سے زیادہ بچے متاثر ہو رہے ہیں، ننھے پھولوں سے قبرستان آباد ہو رہے ہیں، اب شہروں میں بچوں کی تعداد کم ہو رہی ہے، کیونکہ کچھ کو بارود نے زیر زمین پہنچا دیا اور کچھ وبا کا شکار ہو کر ہسپتال میں دوائیاں نہ ملنے کے سبب اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ میں ان ویڈیوز کو آبدیدہ آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں اور میرا ذہن خاتم الانبیاءﷺ کے زمانے کی طرف چلا گیا ہے۔ رحمت دو عالم کے والد ان کی ولادت سے پہلے اور ان کی والدہ بچپن میں ہی دنیا سے چلی گئیں تھیں۔ والدین کے دکھوں کو اپنا دکھ سمجھنے والے اللہ کے نبی ﷺ کو جب پتہ چلا کہ جنگ کے دوران کچھ بچے قتل کر دیئے گئے ہیں۔ اللہ کے نبیﷺ اس طرح تڑپے جیسے آپؐ کے جسم کے حصوں کو کاٹ دیا گیا ہو اور بار بار فرماتے تھے: بارالہا، اے بندوں پر ماؤں سے زیادہ رحم کرنے والے، میں ان کے اس عمل سے لاتعلقی کا اعلان کرتا ہوں، میرا ان کے اس عمل سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ لشکر کو بھیجتے وقت آقائے نامدار یہ ہدایات دیتے تھے کہ دیکھو بچوں کو قتل نہ کرنا، یہ ماؤں کے لئے چین ہیں، یہ معاشرے کے لئے رحمت خدا  کا باعث ہیں، ان کو کبھی قتل نہ کرنا، ان سے درگزر کرنا۔ اے مسلمانانِ عالم قرآن کے واقعات صرف اس لئے نہیں کہ ان کو ثواب کے لئے پڑھ کر آگے گزر جائیں، قرآن قیامت تک لوگوں کے لئے باعث ہدایت ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors


ذرا قرآن میں فرعون کے کردار پر بھی غور کر لیا کرو، قرآن نے کیوں اسے ایک قابل نفرت قرار دیا؟ اس کے بہت سے جرائم ہیں، ایک بڑا جرم یہ ہے کہ وہ بنی اسرائیل میں پیدا ہونے والے بچوں کو پیدا ہونے سے پہلے یا پیدا ہونے کے ساتھ ہی شہید کرا دیتا تھا۔ اللہ تعالی ٰکے ہاں اس کا یہ جرم اس قدر قبیح تھا کہ اس نے اس کا قرآن میں تذکرہ کیا۔ آج یمن کے  تڑپنے بچے، یمن کے سسکتے بچے، یمن کے بھوک سے بلبلاتے بچے، امت کی بے حسی پر نوحہ کناں ہیں۔ نبی اکرمﷺ نے تو فرمایا تھا کہ مسلمانوں کی مثال جسد واحد کی سی ہے، جسم کے ایک حصے کو تکلیف پہنچے گی تو پورا جسم بے چین ہو جائے گا۔ بقول علامہ اقبال
اخوت اس کو کہتے ہیں، چبھے کانٹا جو کابل میں
تو ہندوستان کا ہر پِیر و جواں بے تاب ہو جائے

افسوس تو اس بات کا ہے امت مسلمہ ان مظلوموں کے حق میں آواز کیا بلند کرتی، ان کے لئے ادویات اور کھانے کا انتظام کیا کرتی، ایک اتحاد کیا بھی تو اس بات پر کیا کہ ان کی بندرگاہیں اڑا دی جائیں، ان کے ایئرپورٹ بند کر دیتے جائیں، رسد پہنچانے کے تمام ذرائع بند کر دیئے جائیں۔ جو کام دشمنوں نے کرنا تھا، جس کے خلاف ہم نے احتجاج کرنا تھا، وہ کام ہم نے خود کر دیا۔ بقول شاعر
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
اے اہل اسلام، اے ایک خدا اور ایک رسول ﷺ کے ماننے والو، یمن میں ان بچوں کا بہتا خون قیامت کے دن ہم سب سے سوال کرے گا، ہمارا راستہ روک کر کھڑا ہو جائے گا اور کہے گا بتاؤ ،جب ہم زندہ درگور ہو رہے تھے، جب ہماری آہوں اور سسکیوں نے ہمارے والدین کے سینے کباب کر دیئے تھے، جب مسیحا رو رہے تھے، جب ہم بھوک، پیاس، بمباری اور ادویات نہ ہونے کی وجہ سے لقمہ اجل بن رہے تھے تو تم نے ہمارے حق میں کیا کیا۔ اے اہل اسلام ۔۔یاد رکھو  جیسے قرآن کہتا ہے روز محشر وہ بیٹیاں اللہ کی بارگاہ میں فریاد کریں گی، جنہیں ان کے والدین نے زندہ درگور کر دیا تھا اور دربار خداوندی کی چوکھٹ کو ہلائیں گی کہ اے ارض و سما کے خالق، اے جنت و جہنم کو خلق کرنے والے، آج روز حساب ہے اور تو نے وعدہ کیا ہے کہ عدل فرمائے گا۔ آج ہم سوال کرتی ہیں، “بای زنب قتلت” ہمیں کس جرم میں قتل کیا گیا۔؟ مشرق و مغرب میں بسنے والے اہل اسلام کوئی جواب سوچ لو، یمن کے یہ معصوم بچے کل قیامت کے دن اللہ کی بارگاہ میں فریادی بن کر آئیں گے، ان کی فریاد کے جواب میں وہ عدل کرنے والا ہم سے ضرور پوچھے گا کہ تم نے ان بچوں کے لئے کیا کیا۔؟؟

Facebook Comments

ڈاکٹر ندیم عباس
ریسرچ سکالر,اور اسلام آباد میں مقیم ہیں,بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے ان کے کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply