کشمیر کی جنت نوحہ کناں ہے۔۔۔ڈاکٹر ندیم عباس

ہندوستان کے ایک چھوٹے سے قصبے میں کشمیر کے کچھ طلاب مقیم ہیں، وطن سے دور یہ بچے بڑی دل جمعی کے ساتھ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ ایسے میں کشمیر میں جاری تحریک آزادی پر ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں۔ پلوامہ میں ایک واقعہ ہوتا ہے، جس میں انڈین مظالم کا ستایا ایک کشمیری جوان بارود سے بھری گاڑی ایک فوجی قافلے سے ٹکرا دیتا ہے۔ اس کے نتیجے میں پورے انڈیا میں ایک جنگی ماحول پیدا ہو جاتا۔ لوگ اس قدر انتہاء پسند ہو جائیں گے، سوچ کر حیرت ہوتی ہے۔ اس قصبے میں مقیم چند کشمیری طلباء کے خلاف مظاہرہ کیا جاتا ہے اور الٹی میٹم دیا جاتا ہے کہ جن لوگوں نے کشمیری طلاب کو کمرے کرائے پر دیئے ہوئے ہیں، اگر انہوں نے کل صبح تک انہیں نہیں نکالا تو ان کے گھروں کو پہنچنے والے نقصان کے وہ ذمہ دار نہیں ہوں گے اور ہاں ہم یہ بہانہ بالکل نہیں سنیں گے کہ ان بچوں کے پاس کرایہ نہیں یا ان کے امتحانات ہیں یا ان کے ساتھ ایگریمنٹ ہے، ان کو ہر حال میں یہاں سے نکالا جائے۔

پلوامہ حملے کے فوراً بعد جموں میں مسلم آبادیوں پر حملے شروع کر دیئے گئے، سینکڑوں دکانوں اور مکانات کو آگ لگائی گئی، حالات اس قدر خراب ہوئے کہ کرفیو نافذ کرنا پڑا، جو ایک ہفتے تک جاری رہا۔ جموں میں مقیم کشمیریوں نے جامع مسجد میں پناہ لی۔ جموں اور دیگر علاقوں کے ستائے مسلمانوں کے قافلے سرینگر پہنچ رہے ہیں۔ لٹے پٹے مسلمان قابل رحم حالت میں سرینگر میں پناہ گزین ہو رہے ہیں۔ صرف جموں میں ہی حالات خراب نہیں ہیں، پنجاب، ہریانہ، چھتیس گڑھ اور ہندوستان کی کئی ریاستوں میں کشمیری طلباء کو ہراساں کیا جا رہا ہے۔ کالجز اور یونیورسٹیز کے ہاسٹلز سے ان کے کمرے منسوخ کئے جا رہے ہیں اور بعض جگہوں پر ان کے داخلے منسوخ کئے جا رہے ہیں۔ آگرہ جو تاج محل کی وجہ سے پوری دنیا میں شہرت رکھتا ہے اور امن و محبت کی علامت سمجھا جاتا ہے، وہاں پر ایک ہوٹل پر لکھ کر لگایا گیا کہ اس ہوٹل میں کشمیریوں کا داخلہ ممنوع ہے۔

کشمیر وہ بدقسمت خطہ ہے، جو تقسیم کے بعد صرف ایک راستے سے دنیا سے متصل ہوتا ہے۔ سرینگر جموں شاہراہ وہ واحد رابطہ سڑک ہے، جو کشمیریوں کے لیے لائف لائن کی حیثیت رکھتی ہے، جب اسے بند کر دیا جائے تو وادی ایک لینڈ لاک علاقے کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ امرناتھ یاترا میں زمین کے مسئلے پر جب شدید اختلافات پیدا ہوگئے تو جموں کی ہندو جماعتوں نے اس شاہراہ کو بند کر دیا۔ اس سے وادی میں شدید غذائی بحران پیدا ہوگیا تھا، حتی کہ بچوں کے لئے دودھ بھی نایاب ہوگیا تھا۔ اس بار بھی یہی کوشش کی گئی، جو زیادہ کامیاب نہیں ہوئی، لیکن اس کے اثرات ضرور ہوئے۔ اسی لیے اہل کشمیر نے مطالبہ کیا کہ پنڈی اور سکردو کے روٹ کھولے جائیں، جس سے کشمیر باقی دنیا سے متصل ہو جائے۔ جب بھی انڈیا میں الیکشن قریب ہوتے ہیں تو وہاں پر پاکستان مخالفت کا کارڈ بڑی بری طرح استعمال کیا جاتا ہے۔ سوا ارب آبادی کا ملک ہندوستان نجانے کیوں یہ ضروری سمجھتا ہے کہ اپنی نئی نسل کے ذہن میں پاکستان دشمنی کو پروان چڑھائے رکھے؟ الیکشن کے لیے صنعتی ترقی، تعلیم، صحت اور سینکڑوں ایسے عناوین ہیں، جن کو الیکشن کی بنیاد بنایا جاسکتا ہے، مگر شائد ان تمام کو حاصل کرنے کے لیے کچھ کرنا پڑتا ہے، اس لیے سب سے آسان دشمنی پر مبنی مہم چلا کر خود کو سب سے بڑا محبت وطن ظاہر کرکے الیکشن جیت لیا جاتا ہے۔ یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے کہ ہندوستان میں الیکشن سے پہلے پاکستان مخالف مہم چل رہی ہے، اس سے پہلے بھی بمبئی حملوں کو بڑی بری طرح سے پاکستان کے خلاف استعمال کیا گیا تھا۔

انڈین میڈیا نے ایک عجیب و غریب صورتحال اختیار کر لی ہے، یوں لگتا ہے کہ کوئی بھی معقول بات کرنے والا یا تو مدعو نہیں کیا جاتا یا اس جنگی ماحول میں کوئی بھی حقیقت پسندانہ بات کرکے اپنی کریڈیبلٹی کو چیلنج نہیں کرانا چاہتا۔ نوجوت سنگھ سندھو نے اپنے ردعمل میں دہشتگردی کو ملک و مذہب سے جوڑنے کے خلاف بات کی تو اس پر انڈین میڈیا میں طوفان کھڑا کر دیا گیا، یہاں تک کہ ان کو مشہور شو سے نکالنے کی بات کی گئی۔ ایک بات بہت اہم ہے کہ انڈین میڈیا ایک مہمان کو مدعو کرتا ہے اور اینکر سے لیکر دیگر مہمانوں تک کوشش میں لگے ہوتے ہیں کہ وہ انڈیا کے سرکاری موقف کو من و عن بیان کرے اور اگر کوئی انہیں چیلنج کرتا ہے تو اس طرح چیخ و پکار کر رہے ہوتے ہیں، جیسے استاد کی غیر موجودگی میں بچے جھگڑ رہے ہوں۔ کئی شوز میں کشمیری مہمانوں کو مدعو کیا اور جب انہوں نے کشمیر کی بات کرنا چاہی تو بڑی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں معافی مانگنے کا کہا گیا اور انکار پر لائیو شو سے نکال دیا گیا۔ جب بات چیت اور گفتگو کے راستوں کو بند کر دیا جائے اور اپنی سوچ کو سپر سمجھ کر ہر کسی پر مسلط کرنا شروع کر دیا جائے تو حالات میں کوئی بہتری نہیں آتی۔ کشمیر کے لوگ عقل و خرد رکھنے والے پڑھے لکھے لوگ ہیں، ان کے ساتھ اس قسم کا رویہ اختیار کرنا کہ ان کی بات ہی نہ سنی جائے گھمبیر نتائج دے گا۔ جب مکالمہ ختم ہوتا ہے تو نفرت دل ہی دل میں پروان چڑھتی ہے، جو بڑھتے بڑھتے ایک تناور درخت کی صورت اختیار کر لیتی ہے اور پھر واپسی کے راستے ختم ہو جاتے۔ ایسی صورتحال میں صرف تصادم کا راستہ باقی رہ جاتا ہے۔

انڈیا اور پاکستان دو ایٹمی طاقتیں ہیں، ان کے درمیان ہونے والا کوئی بھی تصادم محدود تصادم نہیں ہوگا۔ جنگ کی بات کرنا آسان ہے اور اس کو اور اس کے اثرات کو بھگتنا بہت مشکل ہے۔ وہ طاقتیں جو دنیا میں اپنا تسلط قائم کرنا چاہتی ہیں، براہ راست جنگ ان کے مفاد میں نہیں ہے۔ وہ انڈیا اور پاکستان دونوں کو اسلحہ فروخت کرنا چاہتی ہیں، ان کی خواہش ہے کہ دونوں ممالک میں جنگی ماحول باقی رہے، ممکنہ خطرے سے بچنے کے لئے اسلحہ خریدا جاتا رہے۔ اس سے اسلحہ بیچنے والوں کا کاروبار چلتا رہتا ہے۔ سعودی عرب کو اسلحہ کے معاہدوں پر صدر ٹرمپ نے جن خیالات کا اظہار کیا تھا، وہ پوشیدہ نہیں ہے۔ اہل کشمیر مدت سے ظلم و بربریت کو برداشت کر رہے ہیں، اس واقعہ کے بعد بھی گھر گھر تلاشی اور آپریشن آل آوٹ نے حالات کو مزید ابتر کر دیا ہے۔ ہندوستان کو یہ بات سمجھنا ہوگی کہ کشمیری پتھر نہیں انسان ہیں اور ان کے جذبات ہیں۔ جب پوری پوری رات اہلخانہ سمیت انہیں ذلیل و رسوا کیا جاتا رہے گا تو اس کا ردعمل آئے گا اور یہ ردعمل انڈیا کے لئے پریشان کن ہوگا۔ کشمیریوں سے بات کریں، ان کے تحفظات کو سنیں کسی بھی قوم کو لمبے عرصے تک صرف اسلحہ کے ذریعے غلام بنا کر نہیں رکھا جا سکتا۔ ان شاء اللہ وہ دن ضرور آئے گا، جس دن ہمارے کشمیری بھائی آزادی اور امن کی نعمت سے سرفراز ہوں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بشکریہ  https://www.islamtimes.org

Facebook Comments

ڈاکٹر ندیم عباس
ریسرچ سکالر,اور اسلام آباد میں مقیم ہیں,بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے ان کے کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply