بدن (47) ۔ لبلبہ، تلی اور پتہ/وہاراامبار

جگر کے قریب دو مزید اعضا ہیں۔ یہ لبلبہ اور تلی ہیں۔ لبلبہ ایک گلینڈ ہے جبکہ تلی نہیں۔ لبلبہ زندگی کے لئے لازم ہے جبکہ تلی کے بغیر گزارا کیا جا سکتا ہے۔ لبلبہ جیلی کی طرح کا عضو ہے۔ چھ انچ لمبا اور کیلے کی شکل کا جو معدے کے پیچھے ہے۔ انسولین پیدا کرنے کے علاوہ یہ ایک اور ہارمون پیدا کرتا ہے جو گلوکاگن ہے۔ یہ بھی شوگر کی ریگولیشن کیلئے کام کرتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ ہاضمے کے انزائم، ٹرائپسین (trypsin)، لائپیس (lipase) اور امائلیس (amylase) پیدا کرتا ہے جو کولیسٹرول اور فیٹ ہضم کرنے میں مدد کرتے ہیں۔ ہر روز یہ ایک لٹر جوس پیدا کرتا ہے جو اس سائز کے عضو کے لئے متاثر کن ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تلی کا سائز مٹھی جتناہے۔ وزن آدھا پاونڈ اور یہ سینے میں بائیں جانب ہے۔ اس کا اہم کام خون کے خلیات کی نگرانی ہے اور سفید خلیات کو انفیکشن کی جگہ پر بھجوانا ہے۔ یہ خون کے ذخیرہ کا کام بھی کرتی ہے تا کہ اسے اچانک ضرورت پڑنے پر پٹھوں کو مہیا کیا جا سکے۔ اور یہ امیون سسٹم کی مدد بھی کرتی ہے۔
جگر کے بالکل نیچے پِتہ ہے۔ یہ ایک دلچسپ عضو ہے جو کئی جانداروں میں موجود ہے اور کئی میں نہیں۔ جبکہ زرافہ وہ جانور ہے جس میں کچھ زرافوں میں یہ ہے جبکہ کچھ میں نہیں۔ انسانوں میں پتہ جگر کا پیدا کردہ بائل ذخیرہ کرتا ہے اور اسے آنت کو مہیا کرتا ہے۔ یہاں پر ہونے والی گڑبڑ کی صورت میں پتھری بن جاتی ہے۔ یہ عام عارضہ ہے۔ ایک چوتھائی بالغ لوگوں میں یہ پایا جاتا ہے لیکن زیادہ تر کو اس کا علم نہیں ہوتا۔ اگر یہ پتھری اس کے باہر جانے کے راستے کو بلاک کر دے تو پیٹ میں تکلیف سے اس کا معلوم ہوتا ہے۔
پتے کے پتھری کی سرجری اب معمول کا کام ہے لیکن کسی وقت میں اس سے جان جا سکتی تھی۔ انیسویں صدی کے آخر تک سرجن یہ کرتے ہوئے گھبراتے تھے۔ کیونکہ اس علاقے میں بہت اہم اور نازک اعضا اور رگیں پائی جاتی ہیں۔ ایسا کام کرنے کی کوشش کرنے والے سرجن ہالسٹیڈ تھے (جو کئی اقسام کے سرجری کے بانی سمجھے جاتے ہیں)۔ نوجوان ہالسٹیڈ نے پتہ نکالنے کا ایک ابتدائی آپریشن اپنی والدہ کا کیا، جو اپنے گھر میں باورچی خانے کی میز پر کیا گیا تھا۔ اور اس آپریشن میں ایک اور غیرمعمولی بات یہ تھی کہ اس وقت کسی کو علم نہیں تھا کہ پتہ نکال دینے کے بعد کوئی زندہ رہ بھی سکتا ہے یا نہیں۔
جب وہ اپنی والدہ کو کلوفارم سنگھا رہے تھے تو کیا ان کی والدہ کو اس بات کا علم تھا یا نہیں؟ تاریخ اس پر خاموش ہے۔ لیکن وہ مکمل طور پر صحتیاب ہو گئیں۔ جبکہ تقدیر کی ستم ظریفی یہ رہی کہ اس سے چالیس سال کے بعد ہالسٹیڈ کی اپنی وفات خود پتے کے آپریشن کے بعد ہونے والی پیچیدگیوں سے ہوئی، حالانکہ اس وقت تک یہ آپریشن عام ہو چکا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
ہالسٹیڈ نے اپنے آپریشن کا خیال شاید چند سال پہلے ہی جرمن سرجن گسٹاو سائمن سے لیا ہو، جنہوں نے ایک خاتون پر آپریشن کرتے ہوئے ان کا خراب ہو جانے والا گردہ نکال دیا تھا۔ اس وقت انہیں علم نہیں تھا کہ ایک گردہ نکال دینے سے کیا نتیجہ ہو گا۔
سائمن یہ دریافت کر کے غالباً بہت خوش ہوئے ہوں گے کہ مریضہ کا انتقال نہیں ہوا۔ اور اس خوشی میں یقیناً وہ مریضہ بھی شریک ہوں گی۔
یہ وہ پہلا موقع تھا جب انسانوں کو علم ہوا تھا کہ ایک گردے کے ساتھ نارمل زندگی بسر کی جا سکتی ہے۔ یہاں پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر ہمارے دو گردے کیوں ہیں؟ یہ تو ٹھیک ہے کہ بیک اپ ہونا اچھی بات ہے۔ لیکن پھر یہ سوال آ جاتا ہے کہ دل یا جگر یا دماغ ایک کیوں ہیں؟ ان کا بیک اپ کیوں نہیں؟ بہرحال، اضافی گردہ ہونا ہمارے لئے ایک خوش قسمتی ہے۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply