بیگمات/عارف خٹک

صبح سے بیگم کا منہ پھولا ہوا تھا۔ میں ناشتہ بھی ٹھیک سے نہیں کرسکا کیونکہ وہ مسلسل شکایتی نظروں سے مجھے گھورے جارہی تھی۔ میرا دھیان اپنے موبائل کی طرف گیا کہ مبادا اس نے میرا پاسورڈ کہیں سے ہتھیا لیا ہے اور اندر گھس کر اس نے بہت کچھ دیکھ لیا ہے مگر مجھے یاد آیا کہ میرا موبائل فون تو صرف میری آنکھوں سے ہی کھل سکتا ہے۔ پھر خدشہ ہُوا کہ آجکل بنوں میں ایک تازہ عشق کی بھنک تو کہیں آس کے کانوں تک نہیں پہنچی ہے؟۔

خیر ڈرتے ڈرتے بیگم کو مخاطب کیا
” نصیب دشمناں مزاج تو ٹھیک ہیں؟”۔
آگے سے آنکھوں میں آنسووں بھر لائیں اور اپنا چہرہ دوسری طرف کرلیا۔ میں دہل گیا کہ ہو نہ  ہو اس کو فیصل آباد کی شکیلہ نے میری وہ والی ویڈیو تو نہیں بھیجی ہے جو نادانی میں ریکارڈ ہوئی تھی اور آجکل شکیلہ بار بار کہہ رہی ہے شادی کرلو ورنہ ویڈیو وائرل کردوں گی۔ حالانکہ میرا اپنا دل بہت چاہتا ہے کہ ویڈیو وائرل ہو اور آجکل کے لونڈوں کو خبر ہوجائے کہ لالہ اس عمر میں بھی ان کا باپ ہے۔۔ اپنے دماغ میں آئے پراگندہ خدشوں کو ایک طرف جھٹک دیا اور دوبارہ پوچھ بیٹھا۔۔
“بیگم بتاؤ بھی مجھ سے کوئی جرم سرزد ہُوا ہے یا اپنے بڑے بیٹے کو کسی لڑکی کیساتھ پکڑا ہُوا ہے؟”۔
بیگم کو بیٹے پر میرے الزام سے شدید تکلیف ہوئی۔ تنک کر بولی
“اللہ نہ کرے میرا بیٹا آپ پر جائے، آپ جیسا ظالم، گھٹیا اور ذلیل بیٹا خدا کسی ماں کو نہ دے”۔

یہ کہہ کر اس نے اپنا منہ دوسری پھیر لیا اور اپنے آنسوؤں کو صاف کرنے لگیں۔ مجھے شدید غصہ آیا۔ غصہ اس بات پر نہیں آیا کہ اس نے مجھے گھٹیا اور ذلیل کہا تھا مگر ظالم کہنے کا حق اس کو نہیں تھا۔ میں تو آج تک خود کو  مظلوم سمجھ رہا تھا جو سترہ سالوں سے اس بلا سے نمٹنے کی ناکام کوشش کررہا تھا اور ہر کوشش میں منہ کی کھاتا تھا۔ اپنے اندر کے غصے پر قابو پاتے ہوئے میں نے حتی الامکان اپنی آواز نارمل کرتے ہوئے ایک دفعہ پھر پوچھا۔
“منہ کیوں بنا رہی ہو، ہُوا کیا ہے آخر؟”۔
بدستور اس نے اپنا منہ دوسری طرف کرکے میرے سوالات کو مسلسل  نظرانداز کررہی تھی۔ میں بھی بالآخر اپنی نشست سے اٹھ گیا کہ مزید یہ ڈرامے میری سمجھ سے بالاتر تھے۔ جیسے ہی میں دروازے کھول کر باہر جانے لگا۔ پیچھے سے اس کی ہچکیاں سنائیں دیں۔
“تم میرے ساتھ ایسا کیسے کرسکتے ہو؟”۔
میں پیچھے مُڑا اور حیرت سے اس کا منہ تکنے لگا کہ میں نے ایسا کیا کردیا ہے۔جس کا مجھے خود پتہ نہیں ہے۔
“رات کو تم نے مجھ پر پستول تان لی تھی اور مجھے جان سے مارنے کی کوشش کی”۔
میں ہکا بکا اس کا منہ دیکھنے لگا۔
“تم نے مجھ پر فائر بھی کیا۔۔”
یہ کہہ کر وہ دھاڑیں مار مار کر رونے لگی۔ میں حیرت سے اس کا منہ دیکھنے لگا کہ شاید اس کا دماغ چل گیا ہے۔ میرے منہ سے حیرت زدہ چیخ نکلی
“زارا تم پاگل ہوگئی ہو؟۔ میں نے کب تم پر پستول تانی؟”۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہچکیوں کے بیچ جواب دیا
“خواب میں۔۔۔”
اب بت بنا کھڑا یہ سوچ رہا ہوں کہ اس خواب کیلئے میں اس سے کیسے معافی مانگوں حالانکہ میرا یہ جرم ناقابل معافی ہے اور اصولاً مجھے پھانسی پر لٹکا ہوا ہونا چاہیے۔

Facebook Comments

عارف خٹک
بے باک مگر باحیا لکھاری، لالہ عارف خٹک

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply