عدالتوں کے فیصلوں میں اختلاف کیوں ؟ -عزیز اللہ خان ایڈووکیٹ

عدالت عالیہ لاہور کے راولپنڈی ڈویژنل بنچ کے معزز جسٹس صاحبان نے ایڈیشنل سیشن جج گوجر خان کے فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے تہرے قتل کے ملزم محمد شہباز کو جس کو تین بار موت کی سزا سنائی گئی تھی کو بَری کردیا ۔بے شک عدالت ِ عالیہ کے جسٹس صاحبان نے قانون اور آئین کے مطابق بالکل درست فیصلہ کیا ہو گا ،مگر میری قابلِ  صد احترام جسٹس صاحبان سے دست بستہ بس اتنی گزارش ہے کہ ملزمان کو بَری کرتے ہوئے اپنے فیصلہ میں یہ ضرور لکھا کریں کہ بَری ہونے والے ملزمان کی جگہ پھانسی کس کو ملنی چاہیے؟ اُس تفتیشی افسر کو جس نے چالان مرتب کیا یا اُس ایڈیشنل سیشن جج کو جس نے جرم ثابت ہونے ہر ملزم کو موت کی سزا د ی؟

عدالتِ  عظمیٰ  یا عدالت ِ عالیہ میں قتل کے مقدمات میں ملزمان کے بَری کیے جانے کی بہت سی  وجوہات ہو سکتی ہیں مگر سب سے بڑی وجہ ایف آئی آر کے اندراج میں یا پوسٹمارٹم میں تاخیر ہوتی ہے جس پر مدعی مقدمہ یا پولیس بالکل توجہ نہیں دیتی ،اسی طرح آلہ ء قتل کی مشترکہ برآمدگی سے بھی ملزمان بَری ہو جاتے ہیں مگر یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سیشن عدالتیں ان خامیوں پر ملزمان کو سزا کیوں دیتی ہیں ،تو یہ کس کی نااہلی ہے؟

خبر کے مطابق گوجر خان وارڈ نمبر گیارہ کےتہرے قتل کا ملزم ہائی کورٹ سے بری ہوگیا ۔تھانہ گوجرخان کے مشہور مقدمہ قتل ایف آئی آر نمبر 282/2017 تھانہ گوجر خان کےملزم محمد شہباز ولد محمد شہزاد قریشی ساکن حیاتسر روڈ، کو لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی کے ڈویژنل بنچ نے بری کر دیا۔ ملزم کی جانب سے مرزا عمر اسد اللہ ایڈووکیٹ سپریم کورٹ نے وکالت کی۔ ملزم پر الزام تھا کہ اس نے آتشیں اسلحہ سے محمد عمر، عبدالرحمن اور بدر علی کو اندھا دھند فائرنگ کر کے بٹ پان شاپ والی گلی میں قتل کیا تھا۔ ملزم کو ایڈیشنل سیشن جج گوجرخان خواجہ طارق خورشید نے تین دفعہ سزائے موت کا حکم سُنایا تھا۔

وطن عزیز پاکستان کو آزاد ہوئے  75  سال ہو گئے ،مگر آج بھی ہماری عدالتیں انگریز کے بنائے ہوئے قانون پر چل رہی ہیں قانون کو ربڑ کی ناک کی طرح استعمال کیا جاتا ہے، ایک عدالت کئی کئی سال کیس سُنتی ہے اور ملزمان کو سزا دیتی ہے جبکہ دوسری عدالت ملزمان کو بَری کر دیتی ہے اور اس عدالتی کشمکش سے تنگ آکر آخر کار لوگ پنے فیصلے خود کرتے ہیں اور قتل و غارت کا ایک سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

نہ جانے کب ہمارے ملک میں قانون نافذ ہو گا اور انصاف کا بول بالا ہو گا ؟۔۔ جانے کب!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply