رنگ درمان کریں گے تو مداوا ہوگا/شائستہ مبین

آرٹ یا فن اتنا ہی قدیم ہے جتنا انسانی معاشرہ۔ قدیم سماج میں آرٹ کو انسانی ضرورت کے تحت استعمال کیا جاتا تھا۔ آرٹ اس قدر وسیع المفہوم کہ اپنے اندر معنی کی ایک دُنیا آباد رکھتا ہے، اس کی کئی ایک اشکال ہیں جن کے ذریعے انسانی نفسیات کی عکاسی کی جاتی ہے۔فن مصوری ان میں سے ایک ہے ۔ مصوری قوم اورمعاشرے کے لئے آئینہ کی حیثیت رکھتی ہے بلکہ بین الاقوامی سطح پر کسی قوم کی شناخت میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ سماجی، ثقافتی، اقتصادی اور نفسیاتی حالات کے مختلف ادوارٗ تبدیلیوں کے اتار چڑھاؤ کو عیاں کرنے میں مصوری کے نمونے بے حد مدد گار ثابت ہوتے ہیں۔ فن مصوری کی شروعات بنی نوع انسان کی پیدائش سے منسلک کی جاتی ہے۔

قدیم زمانہ کے پتھروں اور غاروں کے ادوار میں مصوری کسی حد تک ایک زبان کی حیثیت رکھتی تھی۔ انسان تصاویر کے ذریعے اپنے خیالات کا اظہار کرتے تھے۔ آہستہ آہستہ یہ فن منظر کشی کے ساتھ ساتھ احساسات کی ترجمانی کا ذریعہ بھی بن گیا۔ نفسیاتی جائزہ لیا جائے تو مصوروں نے انسان کے کئی نفسیاتی، ہیجانی اور معاشرتی معاملات کی پیچیدگیوں کیلئے مصوری کا سہارا لیا۔ رنگوں کے ذریعے معاشرے اور نفس کے ان پہلوؤں کو واضح کیا جن کا اظہار شاید کسی اور فن کے ذریعے ناممکن تھا۔

اسی مصوری کے سلسلے کی ایک کڑی ” فاضل حسین موسوی” ہیں جن کا تعلق ہزارہ سے ہے۔ جیسے ” ہزارہ ” خوبصورت اور دلکش مناظر سے بھر پور علاقہ ہے ویسے ہی وہاں کے باسی بھی خوبصورت، سادہ اور متانت سے بھر پور۔ اتنے خوبصورت علاقے کو ہم نے کئی دہائیوں سے ظلم و بربریت اور دہشت کی علامت بنا رکھا ہے۔ فاضل حسین موسوی وہ پہلے فنکار ہیں جنہوں نے اس علاقے کی نفسیاتی اور جذباتی کیفیات کو رنگوں میں بھرا ہے ۔کون ہے جو اس درد کا درمان کرنے والے مصور سے واقف نہ ہوگا۔ ہزارہ میں ہونے والی نا انصافیوں اور ظلم و بربریت کو ان کے فن مصوری نے آواز دی یے۔ ان کا ایک ایک فن پارہ ہزار رنگوں کی داستان ہے جس میں غم و غصے، خوف، ہیجانی انتشار اور خلفشار سے لیکر انسان کی سوچ کے ہر زاویے تک رسائی کی گئی ہے۔ ہزارہ کے لوگوں کے الم کی ترجمانی ان کے کینوس پر پھیلتی ہے اور ہر کینوس ایک نئی داستان میں بدل جاتا ہے۔
ہزارہ کے باسیوں کے اسی درد کو آرٹ کے ایک اور کلاکار نے اپنے طریقے سے سمیٹنے کی پہلی کوشش 2011 میں کی جو ایک فلم “کون ہزارہ” کی صورت تھی۔ اس فلم میں ہزارہ کے رہنے والوں کے نفسیاتی، جذباتی اور جانی نقصانات اور ان کے پیچھے محرکات کو اجاگر کیا گیا۔ ہزارہ کے باسی وہ لوگ ہیں جن پر بات کرنا ہمارے ہاں گناہ تصور کیا جاتا ہے جن کے درد کو کوئی زبان نہیں دے سکا۔ “کون ہزارہ” وہ پہلی کاوش تھی جس سے اس علاقے کے المناک دکھوں کا مداوا سینما کے پردے پر کیا گیا۔ اس فلم کے ہدایتکار اور لکھاری کوئی اور نہیں بلکہ “محمد حسن معراج” ہیں جو بنیادی طور پر ایک لکھاری ہیں اور معاشرے کے ان موضوعات پر بات کرنے میں پہل کرتے ہیں جن پر بات کرنے سے پہلے بڑے بڑے سورما بھی گھبراتے ہیں۔ جیسے آجکل وہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 25 کی تشریح ایک تھیٹر کی صورت کر رہے ہیں۔ ان کی کاوشوں کو سلام۔

2011 میں بننے والی فلم “کون ہزارہ” کیلئے مواد اور تحقیق میں فاضل حسین موسوی کا اپنا ایک کردار رہا، چنانچہ 2022 میں ان دو تخلیق کاروں نے ہزاروی داستانوں کی تکلیف کو دوبارہ اجاگر کرنے کا فیصلہ کیا چونکہ ہم لوگ بہت کمزور یادداشت کے مالک ہیں، تو ہماری یاددہانی کیلئے ضروری تھا کہ ایک دفعہ پھر کسی فلم کسی فن پارے، کسی رنگ کی صورت ہزارہ کے باسیوں کی کہانی کو پڑھا جائے تاکہ وہ داستان نہ بن جائے۔ اور اس ہزار داستان کیلئے دسمبر کا مہینہ چنا گیا ، چونکہ یہ وہ مہینہ ہے جب ہمارے تمام پرانے زخم رسنے لگتے ہیں اور ہم کسی بھی کیفیت کو باقی مہینوں کی نسبت زیادہ بہتر سمجھ سکتے ہیں۔ موسوی صاحب اپنے فن پارے پاکستان آرٹس کونسل اسلام آباد لائے ہیں ان کی اس رنگ لکیر کی افتتاحی تقریب سات دسمبر کو ہوئی، محمد حسن معراج اور موسوی صاحب کی ایک نشست رکھی گئی ، اسلام آباد، ہزارہ اور لاہور کے بہت سے مصور، لکھاری، آرٹ اور نفسیات کے سٹوڈنٹس کے علاوہ درد دل رکھنے والے کئی مہمانوں نے اس نشست میں شرکت کی ۔ جس میں ہزارہ کی مختلف داستانوں کو رنگ کی نفسیات میں جانچا اور پرکھا گیا ۔ دونوں تخلیق کاروں نے اپنے اپنے فن کے ذریعے ان داستانوں کے درد کو سمویا وہ درد جو اس وقت ہر سننے والے نے اپنے اندر محسوس کیا۔ نشست کے بعد موسوی صاحب کے فن پاروں کی نمائش کا اہتمام کیا گیا۔ ہر ایک پینٹنگ اپنا دکھ سنا رہی ہے، ہر فن پارہ abstract اور concrete کا حسین امتزاج ہے، دیکھنے والے پر ایک فسوں طاری ہو جاتا ہے۔ موسوی صاحب کے فن پاروں کی نمائش پاکستان آرٹس کونسل اسلام آباد میں ،14 دسمبر تک جاری رہے گی۔ اس راس لیلا کے ہزار رنگ ہیں اور ہر رنگ دلفریب ہے جکڑ دینے والا ہے۔ خصوصی طور پر نفسیات اور آرٹ کے طالب علموں کیلئے ان نمائشی تصاویر میں بہت اچھا مواد ہے جن پر تحقیقی مقالے لکھے جا سکتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

موسوی صاحب نے اپنے خوبصورت علاقے میں پہاڑوں کی اوٹ میں ایک گھر کی چھت پر پہاڑی بچوں کیلئے ایک Arts club بھی بنا رکھا ہے جہاں خیالوں کی اور آرٹ کی ایک آزاد دنیا ہے ، کئی بچے اپنے فن کو ہزارہ کی دہشت گردی ، ظلم و بربریت اور دہشت سے پاک کر کے اسے رنگوں میں ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں اور موسوی صاحب ان کی راہنمائی کرتے ہیں۔ آپ سب پڑھنے والوں سے گزارش ہے کہ اس نمائش کو دیکھیں ، کون جانے کس دل میں کوئی ایک آدھ رنگ سمو جائے اور وہ دل ہزارہ کیلئے ایک مختلف فن کی صورت ان کی آواز بن جائے۔

Facebook Comments

شائستہ مبین
شائستہ مبین ماہر نفسیات لیکچرار، کوہسار یونیورسٹی مری

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply