قوم کا نوحہ

میں نوحہ لکھوں بھی تو کس کے لیئے؟۔۔۔ میں آہ و زاری کروں بھی تو کیوں ؟۔۔ یہاں قوم نے بے شرمی کی چادر اوڑھ رکھی ہے۔اسے مارا جائے،زندہ درگور کیا جائے ،اس کےحقوق پر ڈاکہ ڈالا جائے ، لوٹا جائے،ذلیل و خوار کیا جائے مگر اس قوم نے ٹس سے مس نہیں ہونا۔یہ ہر تکلیف سہنے کے لیئے تیار ہے لیکن اپنے حقوق کے لیئے آواز اٹھانے کے لیئےقطعاً تیار نہیں۔اس قوم کو آزادی ملی لیکن سنبھالی نہ گئی، یہ قوم ذہنی طور پر اب بھی غلام ہے۔اس قوم نے اپنے حقوق پہچانے ہی نہیں۔جس دن اس قوم میں بیداری کی لہر جاگ اٹھی اس دن انقلاب کی نئی راہیں کھلیں گی۔بعض اوقات سوچتا ہوں اگر یہ قوم جان لےکہ ہمارے اصل حقوق کیا ہیں ؟اور حکمرانوں نے ہمیں کیا دیا ہے ابتک؟تو شاید اس دن سے جدی پشتی حکمرانی کا تختہ ہی الٹا جائے،لیکن یہ سب ممکن بنانے کے لیئے پہلے قوم کو باشعور بنانا ہوگا اور اس کے لیئے تعلیم عام کرنا ہوگی،اسی صورت غلام ذہنیت سے چھٹکارہ ممکن ہے،جب تک پوری قوم یکجا ہو کر آواز ملا کر اپنے حقوق طلب نہیں کرے گی تب تک ایوانوں میں بیٹھے غاصب اپنی عیاشیوں میں مصروف رہیں گے،لازم ہے کہ قوم ہم آواز ہو کر پکارے او ر یوں پکا رے کہ ان ایوانوں میں لرزہ طاری ہو جائے اورغفلت کی نیند سوئے عوامی نمائندے ہڑ بڑا کر جاگ اٹھیں بلکہ ایوانوں سے بھاگ اٹھیں ۔۔سنو قوم کے معماروں !اب بھی وقت ہے درست سمت کی نشاندہی کر لو۔۔

Facebook Comments

Khatak
مجھے لوگوں کو اپنی تعلیم سے متاثر نہیں کرنا بلکہ اپنے اخلاق اور اپنے روشن افکار سے لوگوں کے دل میں گھر کرنا ہے ۔یہ ہے سب سے بڑی خدمت۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply