منڈی کی حقیقت

منڈی کی حقیقت ۔۔۔ ذیشان ہاشم
میں نے اسلام آباد فروٹ منڈی میں دو سال آم بیچے ہیں دو ہزار چھ اور سات – ڈیلی تین چار ٹرک بیچتا تھا – اپنے آم ہوتے تھے اس لئے کوشش ہوتی تھی کہ بہتر سے بہتر قیمت ملے – آڑھتی کا کردار قیمتوں کے تعین میں تقریبا صفر تھا اسے پانچ روپے بیوپاری کی طرف سے اور پانچ روپے گاہک کی طرف سے ملتے تھے جس کے بدلے وہ ہمیں یہ سروسز مہیا کرتا تھا کہ پیمنٹ وقت پر ملتی تھی اور ایڈوانس بھی – ایسی خدمت کرتا تھا کہ لگتا تھا پاوں گھول کر پی جائے – میاں امتیاز اور میاں فیاض ہمارے آڑھتی تھے -ہمارے پاس ٹھیلے والے اور جوس والے سے لے کر بڑی دکانوں والے اور افغانستان و ایران کے ایکسپورٹر آم خریدنے آتے تھے – آڑھتی سارا دن اس میں لگا رہتا کہ زیادہ سے زیادہ گاہک لائے – میں نے تربوزوں کے ٹرک گلتے سڑتے دیکھے ہیں کہ خریدار نہیں ہیں – ہر جنس کی قیمت ڈیمانڈ اور سپلائی پر تھی –
اس وقت آم کی ایک پیٹی باغ سے لے کر منڈی تک ستر روپے کی پڑتی تھی – اس ستر روپے میں باغ کی خریداری کی لاگت شامل نہیں – مجھے یاد ہے جب میں ماموں کے ساتھ کبھی باغ خریدنے گیا تو ایک آم کے پودے کی کل پیٹیاں estimate کرتے تھے اگر بالفرض پچاس بنتی تھیں تو تین آندھیوں کو بھی calculate کرتے تھے کہ کتنی گر جائیں گی اگر فرض کیا پچاس میں سے بیس آندھیوں میں گرنی ہے تو بقیہ تیس کو پچاس سے ضرب دے کر ایک آم کے درخت کی قیمت لگاتے تھے جبکہ ایک باغ میں سو سے زائد پودے بھی ہوتے تھے – کسان کے پاس ایک ایک کر کے بیوپاری جاتے تھے اور جو زیادہ ریٹ لگاتا تھا اسے وہ باغ بیچتا تھا –
جب پچاس ساٹھ میں پیٹی بکتی تھی جس کی منڈی تک کل قیمت ایک سو تیس بنتی تھی تو رونا آتا تھا – خیر جزبات بیان کرنا یہاں مقصود نہیں –
اسلام آباد میں پیر ودھائی کے پاس فروٹ منڈی ہے کل چکر لگا لیں اور ایک بار ٹریڈنگ تو دیکھیں کیسے ہوتی ہے پھر فیس بکی دانشوری بھی خوب کر لیجئے گا – ساتھ میں کسی شجاع آبادی سے فون کر پوچھیں کہ کتنی آندھیاں آ چکی ہیں اور باغ پر کتنے آم باقی ہیں – ہمارا اپنا باغ ہے اور درختوں پر الو بول رہے ہیں – آموں کے باغ کا بھی چکر لگ جائے تو ساری دانشوری لیجنڈری بن جائے – شکریہ

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply