این گرین کو آکسفورڈ میں 1650 میں سزائے موت سنا دی گئی۔ ان کے شوہر نے ان پر الزام لگایا تھا کہ انہوں نے اپنے نوزائیدہ بچے کو مارا ہے۔ گرین کا کہنا تھا کہ بچہ کمزور پیدا ہوا تھا اور اس کی موت میں ان کا کوئی ہاتھ نہیں تھا۔ بچے کے والد طاقتور خاندان سے تھے۔ گرین قصور وار قرار پائیں اور انہیں سزائے موت سنا دی گئی۔انہوں نے سیڑھی چڑھی۔ پھندا ان کی گردن کے گرد ڈالا گیا۔ حمد گائی گئی۔ اور تختہ کھینچ لیا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انسانی اناٹومی کی سٹڈی کے لئے انسانی جسم درکار تھے۔ کنگ چارلس اول نے اس بات کی اجازت دے دی تھی کہ مجرموں کی لاشوں کو میڈیکل کی تحقیق کیلئے استعمال کیا جائے۔ پھانسی کے بعد یہ لاش ڈاکٹر تھامس ولس اور ڈاکٹر ولیم پیٹی کے حوالے کر دی گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب پوسٹ مارٹم کیلئے تابوت کھولا گیا تو پیٹی نے گرین کے گلے میں سے کچھ آواز سنی۔
مردوں پر آپریشن کے وقت میں یہ پہلا موقع تھا جب کسی لاش نے ایسا احتجاج کیا تھا۔ انہوں نے گردن چھو کر محسوس کیا تو کمزور سی نبض باقی تھی۔ اگلے پندرہ منٹ تک دونوں ڈاکٹر ان کے ہاتھ اور پاؤں کی مالش کرتے رہے۔ گردن پر ہونے والے زخم پر تارپین کا تین ڈالا۔ اور گلے کے اندر پر سے گدگدایا۔ یہ کام کر گیا۔ گرین نے کھانس دیا۔ اگلی صبح تک این گرین پوری طور پر واپس زندہ ہو چکی تھیں۔ انہوں نے پینے کیلئے مشروب کی فرمائش کی اور چند دنوں میں وہ بستر سے باہر تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
این گرین کو منصفوں نے دوبارہ سزا دینے کا فیصلہ کیا۔ لیکن ولس اور پیٹی کا استدلال تھا کہ این گرین کی واپسی خدا کی طرف سے اشارہ تھی کہ وہ بے گناہ تھیں۔ آخرکار انہیں چھوڑ دیا گیا۔ انہوں نے دوبارہ شادی کی جس سے کئی بچے پیدا ہوئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ واقعہ مشہور ہوا۔ تھامس ولس کو “وہ ڈاکٹر جو خاتون کو موت کے پنجوں سے چھڑا لیا” کے طور پر شہرت ملی۔ ان کے اعزاز میں نظمیں لکھی گئیں۔
ولس کا فوکس دماغ تھا۔ اپنی زندگی میں انہوں نے جو پوسٹ مارٹم کئے تھے، ان کی مدد سے ولس دماغ کے ضرر اور abnormal behavior کے درمیان تعلق نکالنے میں کامیاب ہوئے۔ وہ پہلے شخص تھے جس نے رویہ اور دماغ کے سٹرکچر کا تعلق نکالا۔ نیورولوجی کی اصطلاح ان کی بنائی ہوئی ہے۔ انہوں نے دماغ کے کئی علاقوں کی شناخت کی اور ان کے نام رکھے جو ہم آج بھی پڑھتے ہیں۔ اپنی شہرت کو انہوں نے اپنے کام کی اشاعت کے لئے استعمال کیا۔ اور مشہور آرکیٹکٹ کرسٹوفر رین کی مدد سے انہوں نے انسانی دماغ کی ڈرائنگز بنوائیں جو کہ اگلے دو سو سال تک اس کی سب سے ایکوریٹ تصاویر تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
ولس کی موت کے تین سو سال کے بعد اب ہمیں یہ انتظار نہیں کرنا پڑتا کہ کوئی شخص فوت ہو تو پھر ہی اس کے سر کے اندر جھانک سکیں۔ ٹیکنالوجی ہمیں زندہ لوگوں کے دماغ کو سٹڈی کرنے کا موقع دیتی ہے اور اس نے کوگنیٹو نیوروسائنس کا شعبہ ممکن کیا ہے۔ اس میں ہم یہ پڑھتے ہیں کہ سوچ اور دماغ کا کیا تعلق ہے اور یہ ہوتا کیسے ہے۔
کوگنیٹو نیوروسائنس کا ایک بنیادی اصول ہے کہ سوچ کا سٹرکچر اور ساخت اس کے مواد سے الگ ہے۔ یعنی کہ، وہ ذہنی ایکٹیویٹی جو کئی نئے بزنس، شیمپو یا کھانے کی ترکیب کی تخلیق کرتی ہے، بنیادی طور پر ویسے ہی ہے جس سے نئی سائنسی تھیوری، مصوری اور ساز کی تخلیق ہوتی ہے۔ تو اس میں جانے سے پہلے ہم ایک زیادہ عمومی سوال کرتے ہیں۔
سوچ خود کیا ہے؟
(جاری ہے)
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں