مَیں پیر پنجال ہوں۔۔۔۔ جاویدخان

میں پیر پنجال ہوں۔کشمیر میراوطن ہے۔مگرمیں سارے ایشیا کافخر ہوں۔مشرقی فطری حسن کا نمائندہ،پربتوں میں مجھے خاص مقام حاصل ہے۔288کلومیٹر لمبا اور40سے 50 کلومیٹر چوڑاہوں۔کئی درّے میرے دامن میں ہیں۔یہ دروازے ہیں جو فطرت نے میرے اندر لگارکھے ہیں۔سال کااکثر حصہ میں برف کی سفید چادر اوڑھے رکھتا ہوں۔کئی پرجمال وادیاں میرے دامن میں بسی ہوئی ہیں۔میری گھپاؤں (غاروں)میں بیٹھ کر رشی اور صوفی لوگوں نے نروان پایا۔علم و ادراک،دھیان و گیان کے دیے جلانے والے اجلے دلوں کے مالک لوگ میری طرف ہمیشہ سے کھینچے چلے آئے۔میری وسیع چراگاہوں میں گڈریوں کے ریوڑ آج بھی پھرتے ہیں۔ان چراگاہوں میں پھیلے دیار،تونگ اور بیاڑ کے سدا بہار جنگل ہیں۔میرے نشیب وفراز،اُجلی برفوں،پھول دار نخلستانوں،گہری اور بلوری ندیوں سے آباد ہیں۔میرے دامن میں بہار کے موسم میں،فضا میں پھولوں کی مہک ہوتی ہے۔ٹھنڈے میٹھے پانی کی ندیاں اور جھرنے نغمے بکھیرتے ہیں۔ درختوں پر پنچھی سریلے بول بولتے ہیں۔بھیڑ،بکریاں اور پالتو مویشی رَس دار گھاس چرتے ہیں۔گڈریے اس ماحول میں مست ہو کر بانسری کی تانیں چھیڑتے ہیں۔دُور دُور تک فطرت نغمیں اَلاپتی ہے۔

مستی ہوتی ہے۔زندگی فطری رنگوں میں نظر آتی ہے۔پونچھ،ویشو ندی،چٹی ندی،دودھ گنگا ندی،بیتاڑ ندی،توی،مناروتوی اور اوجھ ندی میرے قدموں سے پھوٹتی ہیں۔میں کئی خوب صورت وادیوں کاوارث ہوں۔ٹھنڈے چشمے،آب رواں،ٹھنڈی ہوائیں،قد آور بلندیاں،سفید گلیشر یہ سب میرا سرمایہ ہیں۔پاکستان کی ملکہ کو ہسار مری اور بھارت کاشملہ میری ہی سنواری ہوئی سیر گاہیں ہیں۔میرے سلسلے کی بے شمار وادیاں بلندو بیاباں اور خاموش ہیں۔بیابانوں کی اپنی زبان ہوتی ہے۔خاموش زبان،خاموش حسن۔میں کشمیر کا خاموش حسن ہوں اورخاموش زبان ہوں۔روس کو سائبیریا پر فخر ہے۔روس کے پاس دنیا کے قدیم ترین پہاڑ،یورال کی پہاڑیاں ہیں۔ان کاقد میرے برابر کبھی نہیں رہا۔ایران کا کو ہ البرز خو ب صورت ہے۔ریاست ہائے متحدہ امریکہ بلند قامت برفیلے پہاڑوں کامالک ہے۔سوئٹزرلینڈ یورپ کا سب سے خو ب صورت خطہ ماناجاتا ہے۔میں سوٹزلینڈ کے پہاڑوں سے ٹھیک چار ہزار فٹ بلند قامت چوٹیوں کا وارث ہوں۔میرے سلسلے کی اکثر چوٹیوں کی پیمائش صیحح نہیں کی گئی۔مجھے اس بات کی شکایت ہے۔یہاں کے باسی پیر پنجال کے بیٹے کہلاتے ہیں۔میں عظیم ہمالیہ کے خاندان سے ہوں۔یوں سب کشمیری (لداخ،گلگت،بلتستان،جموں و کشمیر)ہمالیہ کے بیٹے کہلاتے ہیں۔ہمیں ان پر فخر ہے۔میں دنیا کا منفرد پربت ہوں۔دنیا کے کسی پربت کو ”پیر“کانام یاخطاب نہیں دیا گیا۔اس لفظ میں پاکیزگی ہے،بزرگی ہے،احترام ہے،روحانیت ہے،نیابت ہے اور الوہیت ہے۔میرے بیٹوں نے مجھے یہ نام دیاہے۔صدیوں پہلے بلکہ آج سے ہزاروں سال پہلے۔مجھے اپنے ان باسیوں پر فخر ہے۔ میر ا یہ نام ان کی اپنے وطن سے،مجھ سے لازوال محبت کی علامت ہے ۔میرے عظیم بیٹے،میرے رکھوالے سلامت رہیں،میری شفاف ندیاں،میری برفیں،میرے موسم،میرے رشی،میرے صاف دل صوفی شاد رہیں۔مگر میرے نخلستانوں میں کالی اور زہریلی گیس گھس آئی ہے۔وہ میرے چہرے کو گندہ کر رہی ہے۔میرے گھر میں (کشمیر) کوئی آلودہ کارخانہ نہیں۔میری کسی گھُپا میں ایٹم بم نہیں ہے۔مگر میں،میری برفیں،میرے دریا،میری فضائیں تاب کاری اور آلودگی کی زد میں ہیں۔ میرے باسیوں نے ہمیشہ چھوٹے چھوٹے شہر فاصلوں پر بسائے ہیں۔میں ان کی اس حکمت عملی کاگواہ ہوں۔وہ ماضی میں بہت سلجھے ہوئے تھے۔وہ درختوں کونہیں کاٹتے تھے،وہ درختوں سے بھی بزرگانہ رشتے بنائے ہوئے تھے۔وہ چشموں کااحترام مسجد اور مندر کی طرح کرتے رہے۔ہاں کبھی کبھار وہ آپس میں الجھ گئے اور باہر کسی کو مددکے لیے پکارا۔وہ ناسمجھ تھے۔آج ان کی اولادیں ان کی غلطیوں پر شرمندہ ہیں۔اور آپ سے معافی چاہتے ہیں۔معاف کرنابڑا پن ہے۔آپ انھیں معاف کردیجیے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہاں تو میرے بدن میں گندہ دھواں گھس رہا ہے۔میرے دریا،میرے چشمے اور میری سفید پَوِتر برفیں پریشان ہیں۔یہ گندگی کہاں پر بن رہی ہے۔؟کیا اس دنیا میں لوگ گندگی بھی بناتے ہیں۔؟کیاگندگی بھی کبھی بنائی،پالی اور پھیلائی جاتی ہے۔؟ ایسا کون لوگ کرتے ہیں۔؟ یہ انسانوں کی کون سی پر جاتی (نسل) ہے۔؟پانیوں میں گندگی انڈیلی جارہی ہے۔گندگی کے یہ ڈھیر ہمارے اردگرد کیوں پھیل رہے ہیں۔؟کیاوہاں۔۔۔۔۔۔۔۔جہاں سے یہ گندہ اور زہریلا دھواں آتا ہے۔وہاں کوئی درس گاہ ہے۔؟ وہاں رشی اور صوفی لوگ ہیں کہ نہیں۔؟کیاوہاں کوئی پڑھا لکھا نہیں ہے۔؟میرے (کشمیر) رشی اور صوفی ہزاروں سالوں سے لوگوں کو پڑھاتے آئے ہیں۔کہ چشموں کو پَوِتر (پاک)رکھو۔جل (پانی) گدلاکرنا گناہ ہے۔اورجنگلوں کو غیر ضروری مت کاٹو یہ بدعادیتے ہیں۔یہ پاٹ (سبق)ہر بچہ،بوڑھا ،عورت اور مرد جانتا تھااور عمل کرتا تھا۔میں دنیاے پربت کامنفرد پہاڑ ہوں۔میرے بیٹے،میرے باسی،دنیا میں منفرد لوگ تھے۔ان پر کیا اُفتاد پڑی کہ وہ سچائی،محبت اور صفائی کا سبق بھول گئے۔جو میرے رشیوں نے انھیں بغیر دام لیے پڑھایا تھا۔
میں ہمالیہ کے خان دان سے ہوں
میں پیر پنجال ہوں
کشمیر میری خانقاہ ہے
یہاں صاف اُجلے چشمے ہیں
برفیں ہیں اور دریا ہیں
ان کافیض عام ہے۔
یہ فیض زندگی ہے
اسے جاری رہنے دو
یہ ضروری ہے
یہی میری ذمہ داری ہے
میری خانقاہ کو گندہ نہ کرو
مجھے میری اُجلی فضاواپس کرو
میں اِستقامت کاستعارہ ہوں
میں ہمالہ ہوں، میں پیر پنجال ہوں۔

Facebook Comments

محمد جاوید خان
جاوید خان راولاکوٹ آزادکشمیر سے تعلق رکھتے ہیں. شعبہ تدریس سے منسلک ہیں. سفرنامے لکھتے ہیں اور مکالمہ خاندان کا اہم رکن ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply