المیہ(اختصاریہ)۔۔علی انوار بنگڑ

ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم نے ہر شعبہ ہاۓ زندگی میں اپنے آپ کو طبقات میں بانٹ رکھا ہے. اس طبقاتی تقسیم کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ کسی مظلوم کی آواز بننے کے لیے سب سے پہلے ہم اس کی جانچ پڑتال کرتے ہیں ،کہ اس کا تعلق کس مذہب، مسلک، قومیت یا ذات سے ہے.

اگر اس کا تعلق آپ کے مسلک یا قوم سے نکل آۓ پھر تو وہ مظلوم ہے نہیں، تو ہم تاویلیں ہی ڈھونڈتے ہیں. ہم نے تو دکھ درد کو بھی مذاہب، مسالک، قومیت اور ذات برادری کی بنیاد پر بانٹ لیا ہے. ہمیں مذہب، لسانیت، مسالک اور ذات برادری کی بنیاد پر قابو کرنا بہت آسان ہے. اور کرنے والے کر بھی رہے ہیں. اور ہم کولہو کے بیل کی طرح ایک دوسرے پر الزام تراشی کرکے آگے بڑھ جاتے ہیں اور اصلی مجرم بچ جاتے ہیں.

اس کا صرف ایک ہی حل ہے ہمیں ہر معاملے  میں شخصیت پرستی  کو چھوڑنا ہوگا، کیونکہ جو لوگ شخصیت پرستی میں مبتلا ہوتے ہیں، وہ ہمیشہ نظریے سے اختلاف کرتے ہیں اور ہر اٹھاۓ جانے والے اعتراض پر سیخ پا ہوجاتےہیں. اسی وجہ سے وہ سیاسی اور معاشی حقوق سے زندگی بھر محروم رہتے ہیں.

Advertisements
julia rana solicitors london

اس لیے ہمیں اپنے ضمیر کو خود احتسابی کے عمل سے گزارنا ہوگا تاکہ ہم ظالم کو ظالم تو کہہ سکے نہیں تو روز ایک نئی ظلم کی داستان رقم ہوگی اور ہم بین ہی ڈالتے رہ جاۓ گے.

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔