ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم نے ہر شعبہ ہاۓ زندگی میں اپنے آپ کو طبقات میں بانٹ رکھا ہے. اس طبقاتی تقسیم کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ کسی مظلوم کی آواز بننے کے لیے سب سے پہلے ہم اس کی جانچ پڑتال کرتے ہیں ،کہ اس کا تعلق کس مذہب، مسلک، قومیت یا ذات سے ہے.
اگر اس کا تعلق آپ کے مسلک یا قوم سے نکل آۓ پھر تو وہ مظلوم ہے نہیں، تو ہم تاویلیں ہی ڈھونڈتے ہیں. ہم نے تو دکھ درد کو بھی مذاہب، مسالک، قومیت اور ذات برادری کی بنیاد پر بانٹ لیا ہے. ہمیں مذہب، لسانیت، مسالک اور ذات برادری کی بنیاد پر قابو کرنا بہت آسان ہے. اور کرنے والے کر بھی رہے ہیں. اور ہم کولہو کے بیل کی طرح ایک دوسرے پر الزام تراشی کرکے آگے بڑھ جاتے ہیں اور اصلی مجرم بچ جاتے ہیں.
اس کا صرف ایک ہی حل ہے ہمیں ہر معاملے میں شخصیت پرستی کو چھوڑنا ہوگا، کیونکہ جو لوگ شخصیت پرستی میں مبتلا ہوتے ہیں، وہ ہمیشہ نظریے سے اختلاف کرتے ہیں اور ہر اٹھاۓ جانے والے اعتراض پر سیخ پا ہوجاتےہیں. اسی وجہ سے وہ سیاسی اور معاشی حقوق سے زندگی بھر محروم رہتے ہیں.

اس لیے ہمیں اپنے ضمیر کو خود احتسابی کے عمل سے گزارنا ہوگا تاکہ ہم ظالم کو ظالم تو کہہ سکے نہیں تو روز ایک نئی ظلم کی داستان رقم ہوگی اور ہم بین ہی ڈالتے رہ جاۓ گے.