من کے سچے/شکور پٹھان

یہ جو سفید داڑھی مونچھ والے بزرگ ہیں۔ سر میں جن کے اب زیادہ تر نقرئی بال نظر آتے ہیں۔ آنکھوں پر موٹے شیشوں کی عینک جو پچھلے دس سال سے ان آنکھوں کو سنجیدگی کا خاص روپ دیتی ہیں۔ محلے میں ان صاحب کی بڑی عزت ہے۔ نوجوان مسجد میں انہیں اگلی صفوں میں جگہ دیتے ہیں۔ پڑوس کے بڑے بوڑھے بھی انہیں ایک بردبار اور نفیس طبع انسان جانتے ہیں۔ آس پاس کے دکان والے بھی بڑے میاں کا بڑا احترام کرتے ہیں۔

گھر میں البتہ صورتحال کچھ مختلف ہے۔ اکثر یہ گردن جھکائے کچھ سنتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ کبھی کبھار آواز بلند بھی کر لیتے ہیں لیکن اکثر وبیشتر دم دبائے سنتے ہی رہتے ہیں۔

لیکن یہ کیا۔۔ بڑے میاں کمپیوٹر اسکرین کے سامنے بیٹھے طرح طرح  کی شکلیں بنا رہے ہیں۔ منہ سے ایک اجنبی سی بولی میں کچھ عجیب وغریب آوازیں نکال رہے ہیں۔ کمپیوٹر سے کسی کے کھلکھلانے اور کلکاریاں مارنے کی آوازیں آرہی ہیں اور بڑے میاں کا جنون بھی بڑھتا جارہا ہے۔ اب اپنے دونوں کانوں پر انگوٹھا رکھے، ہتھیلی کی تمام انگلیاں کھولے، زبان باہر لٹکائے ایسی آوازیں نکال رہے ہیں جیسے کوئی پانی میں ڈوب رہا ہو۔ اب کھڑے ہوکر ایک ہاتھ سر پر رکھ کر ایک طرف کی پسلیوں یہ گدگدی کرتے ہوئے بندر بننے کی اداکاری کررہی ہیں۔ اب بندر ہی کی طرح ایک پیر اُٹھا کر رکھتے ہیں پھر دوسرا پیر اٹھا رہے ہیں، جیسے تماشے والے کے حکم پر بندر سیر کو جاتا ہے۔

کمپیوٹر اسکرین پر کلکاریاں اور کھلکھلا ہٹ کی آواز بڑھتی جارہی ہے۔ ساتھ ہی بڑے صاحب کی  حرکتیں بھی تیز تر ہوتی جارہی ہیں۔

آپ حیران نہ ہوں کہ یہ کس کا ذکر ہے۔ سفید داڑھی مونچھوں اور کھچڑی جیسے سر والے یہ بزرگ کوئی اور نہیں ، آپ کا خادم یعنی راقم الحروف ہے۔ اور اسکرین پر دورافتادہ دیس میں بسنے والے میرے نواسے نواسیاں  ہیں۔ آپ کو ان حرکتوں کا  مطلب سمجھ نہیں آئے گا لیکن میرے نواسے ، نواسی کو میری ایک ایک بات سمجھ آتی ہے۔ یہ ہمارے اپنے بنائے ہوئے کھیل ہیں، اور یہ کھیلتے ہوئے نانا اور بچوں کی عمروں میں کوئی فرق نظر نہیں آتا۔ اب بیگم بھی اپنے کاموں سے فارغ ہوکر آگئی ہیں اور اب ان کے ساتھ کسی اور زبان میں ، کسی اور طرح کے کھیل ہورہے  ہیں۔ اور یہی خاتون جو گھر والوں ، اور گھر والے کے سامنے، ” فولاد ہے مومن” کی صورت بنی نظر آتی ہیں اس وقت “بریشم کی طرح نرم ” ہیں۔

اس دوران بیٹی کچھ کہنا چاہتی ہے لیکن نانا اور نانی اس وقت بچوں کے ساتھ مصروف ہیں۔ یوں بھی جب کمپیوٹر کے ذریعے یا اسمارٹ فون پر بیٹی یا داماد سے بات ہوتی ہے تو فوراً  دوسرا جملہ ہوتا ہے ” بچے کہاں ہیں” اور بچوں کے آنے کے بعد پھر بیٹی سے ساری باتیں غیر اہم ہوجاتی ہیں،اور سارے دن کی کوفت اور تھکن جیسے ہوا میں اُڑ جاتی ہے۔ یہ بچے میرے جگر کے ٹکڑے ہیں، ایک اور نواسہ جو چھوٹا ہے اور قریب ہی رہتا ہے اور ہفتے میں ایک دن نانا نانی کے ہاں رہنے آتا ہے، اور اس کے آنے کے بعد نانا کی سب سے اہم مصروفیت اس کے لئے گھوڑا بن کر زمین پر گھٹنوں کے بل چلنا، کندھوں پر اٹھا کر گھر میں گھومنا، پیٹ میں گدگدی کرنا اور اس کے ساتھ ساتھ رہنا ہے۔ اس دوران نانا فیس بک اور واٹس اپ وغیرہ کو گھاس بھی نہیں ڈالتے۔

ان بچوں کی مسکراہٹ، ہنسی، رونا، گویا نانا نانی کی زندگی ہیں۔ کیا یہ بچے بہت پیارے ہیں۔ سب سے خوبصورت ہیں، سب سے زیادہ تیز اور چلبلے ہیں۔ اوروں کا تو نہیں پتہ ، لیکن ہمارے بچے تو بہرحال ہیں ایسے ہی۔۔ اب آپ کہیں گے بچے تو سارے ہی پیارے ہوتے ہیں۔ اس دنیا کی رونق انہی کے دم سے ہے۔ بے شک ہے ، لیکن جو حرکتیں میرے بچے کرتے ہیں وہ کوئی نہیں کرتا۔ یہ اور بات ہے کہ جب مہمانوں کے سامنے کہو کہ آنٹی کو سلام کرکے دکھاؤ، شاباش کہو چھااام، اچھا وہ پوئم سناؤ، اچھا بلی کیسے بولتی ہے۔۔۔اور عین اسی وقت میرے بچے منہ میں گھنگنیاں ڈال کر بیٹھ جائیں گے۔ میری بیٹی شرمندہ نظروں سے کہے گی، آپ سے شرما رہا ہے، یا پھر، ابھی سوکر اٹھا ہے ناں، اس وقت موڈ نہیں ہے، ورنہ اس کو تو کلمہ پورا یاد ہے، دس تک گنتی آتی ہے، بابا بلیک شیپ بھی یاد ہے۔ اور ہمیں یقین ہے کہ جو کچھ ہمارا ببلو کرتا ہے کوئی اور بچہ نہیں کرسکتا۔

اور اس بات سے کون انکار کرسکتا ہے کہ بچے فرشتوں کی مانند ہوتے ہیں۔ ان کی ہنسی سے کانوں میں گھنٹیاں بج اٹھتی ہیں، ان کے چہرے کی مسکراہٹ دیکھ کر ماں باپ کا سیروں خون بڑھتا ہے۔
لیکن یہ ایک بہت بڑی غلط فہمی ہے۔ سارے بچے ایسے نہیں ہوتے۔ مثلاً میرے لبنانی پڑوسی کے بچے ہیں، میں جب گھر آتا ہوں، تو یہ کوریڈور میں فٹبال کھیل رہے ہوتے ہیں، مجھے یقین ہے کہ یہ میرا مذاق اڑا رہے ہوتے ہیں، اور وہ جو میرے گھر کی گھنٹی بجا کر بھاگ جاتا ہے وہ یہ لمبے کانوں والا لڑکا ہے، جی چاہتا ہے کہ اس کے کان اچھی طرح سے مروڑ کر اس کی طبیعت صاف کردوں ، ایک بار ذرا سا ڈانٹنے کی کوشش کی تھی تو اس بدبخت نے اتنا رولا ڈالا کہ اس کا باپ باہر نکل آیاجو ایک کالج میں باکسنگ کا انسٹرکٹر ہے۔ میں نے اسے دیکھ کر دانت نکال دیے ۔ آپ کا بیٹا ماشاءاللہ بہت شریر ہے۔ اچھا لگتا ہے جب یہ یہاں کھیلتے ہیں۔

ایسے ہی نالائق بچوں میں ایک بٹ صاحب کا بیٹا ٹیپو بھی ہے۔ ٹیپو بٹ صاحب ہی کی تصویر ہے۔ اکثر لگتا ہے کہ اس کی نیکر اس کے موٹاپے کو نہیں سہار سکے گی۔ ٹیپو کو شاید کسی بزرگ نے قسم دے رکھی ہے کہ جب بھی میرے گھر آئے تو کوئی گلدان، مرتبان یا الماری کا شیشہ وغیرہ ضرور توڑے۔ میرے نواسے نواسوں کے کھلونے جو اس کے آنے سے پہلے چھپانے سے رہ گئے، یہ ان کھلونوں کا آخری دن ہوتا ہے۔ اور کم بخت واپس جاتے ہوئے میرے بچوں کا پسندیدہ ترین کھلونا اٹھا کر ضد کرتا ہے کہ وہ اسے ساتھ لے جائے گا۔ اور مجھے بٹ صاحب کے سامنے کہنا پڑتا ہے کہ لے جانے دیں ۔ بچہ ہی تو ہے۔ بٹ صاحب ایسے موقع پر خاموشی اختیار کر جاتے ہیں لیکن بھابی شگفتہ، ان کی بیگم نرمی سے اور بعض اوقات سختی سے وہ کھلونا ٹیپو سے چھین کر میری بیگم کے حوالے کر دیتی ہیں، جسے وہ فوراً  کسی محفوظ جگہ رکھ دیتی  ہے مبادا کہ ٹیپو کی نیت بدل جائے۔

بٹ صاحب اور ٹیپو کو شاید میں اپنے گھر میں کبھی برداشت نہ کروں ، یہ تو بھابی شگفتہ ہیں جن کی وجہ سے میں انہیں گھر بلاتا رہتا ہوں۔ بھابی نک سک سے درست، خوش لباس اور بڑی ہنس مکھ ہیں۔ نجانے بٹ صاحب جیسے شخص سے ان کی شادی کیسے ہوگئی۔ بہرحال جب وہ آتی ہیں گھر میں رونق ہوجاتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اسی طرح پڑوس کے لبنانی باکسر اور اس کے آفت کے پر کالے بیٹے کی بہ نسبت اس کی بیوی کی وجہ سے میں ان سے نہیں بگاڑتا۔ آپ تو جانتے ہی ہیں لبنانی خواتین کیسی سرخ وسپید اور اسمارٹ ہوتی ہیں۔
پتہ نہیں ان کے بچے ایسے کیوں ہوتے ہیں۔ آپ سمجھ رہے ہیں ناں؟

Facebook Comments

شکور پٹھان
محترم شکور پٹھان شارجہ میں مقیم اور بزنس مینیجمنٹ سے وابستہ ہیں۔ آپ کا علمی اور ادبی کام مختلف اخبارات و رسائل میں چھپ چکا ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply