بریسٹ کینسر جان لیوا مرض ہے /حریر ملک جہانگیر اقبال

میری یونیورسٹی لائف بہت مختصر رہی ہے اور اس مختصر دورانیے میں کوئی ڈھنگ کا دوست ہی نہ بن سکا ۔ کچھ لڑکے اس لئے دور رہتے تھے کہ میں “پھڈے باز” ہوں ، جبکہ جو تین چار لڑکے ساتھ رہتے تھے وہ دراصل بھرم بازی کے چکر میں دُم بنےرہتے تھے ۔ جبکہ لڑکیوں کے  معاملے میں یہ سمجھ لیں کہ دوسرے روز ہی ایک محترمہ سے اچھی دعا سلام ہوئی تیسرے دن تک اُن کے ساتھ مستقبل سوچ لیا ، چوتھے دن ایک طلبہ تنظیم میں شمولیت اختیار کی تو پانچویں دن ہی ناظم صاحب نے حرام تعلق پہ سخت بھاشن دے کر مستقبل چکنا چور کردیا۔

اُسکے بعد میرا کلاس میں کم ہی جانا ہوتا تھا ، پہلا سمسٹر پتہ نہیں کیسے گزر گیا اور پھر شروع ہوا دوسرا سمسٹر ۔

اسی سمسٹر میں نازش (فرضی نام) نے یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور میری جونیئر بن گئی ، نازش صاحبہ وہ واحد محترمہ تھیں جنہوں نے مجھے پہلے دن ہی بھائی کہا اور مابدولت بہنوں کے معاملے میں ویسے ہی جذباتی ہیں لہٰذا میں نے اُنہیں بہن مان بھی لیا ۔ ہماری ملاقات اکثر یونیورسٹی شروع ہوتے وقت گیٹ پہ ہی ہوتی تھی جہاں میں اپنی تنظیم کے تھڑے (مختص بینچ) پہ بیٹھا ناشتہ کر رہا ہوتا تھا اور وہ اچھے بچوں کی طرح کلاس لینے جارہی ہوتی تھیں۔ وہ سر کے اشارے سے سلام کرتی اور میں مسکراتے ہوئے زیر لب وعلیکم السلام کہہ دیتا اور بس ۔۔۔

پھر یونیورسٹی میں صورتحال کشیدہ ہوتی گئی اور ایک اندوہناک حادثے کے بعد مجھے یونیورسٹی سے نکال دیا گیا پر جب بھی کسی یونیورسٹی والے کلاس فیلو یا تنظیمی ساتھی سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے نازش بابت بتایا کہ وہ خیریت پوچھتی ہے اور رابطہ نمبر مانگتی ہے جو میں کبھی نہ دے سکا ۔

آج سے کوئی پانچ چھ سال قبل پتہ چلا کہ نازش کو چھاتی کا سرطان ہوا جس پہ وقت پہ توجہ نہیں دی گئی اور یوں کینسر ہڈیوں تک سرائیت کرگیا اور نازش اس دنیا سے رخصت ہوگئی ۔ دکھ کیسا تھا کتنا تھا یہ بات رہنے دیں پر روح کا ایک حصہ یہ خبر سنتے ہی مر گیا تھا ۔ منہ بولی ہی سہی پر تھی تو بہن ہی نا ، اور اس یونیورسٹی کے  دورانیے  میں  واحد انسان تھی ،جو مجھے بھائی بولنے لائق انسان سمجھتی تھی ۔

ابھی چند ماہ قبل میرے اچھے دوست ایوب بھائی کے چھوٹے بیٹے کو بھی یہ خبیث مرض تشخیص ہوا ہے ۔ اور سچ کہوں تو جب سے مجھے پتہ چلا ہے اُنہیں کال کر کے انکے بیٹے بابت استفسار کرنے کی میری ہمت ہی نہیں ہوتی ۔

تمام افراد بالخصوص خواتین اس موذی مرض سے متعلق خبردار رہیں ، جسم کے کسی بھی حصے بالخصوص چھاتی میں کوئی گلٹی محسوس ہو تو اسے بالکل نظرانداز نہ کریں ۔ نیچے دی گئی تصویر شاید معیوب لگے پر شرم شرم میں ہم اپنی بہن بیٹیوں کو نہیں کھو سکتے ۔ یہاں جو مائیں ہیں وہ اپنی بیٹیوں کو اس تصویر بابت سمجھائیں اور جو بیٹیاں ہیں وہ اپنی ماؤں کو اس مرض سے آگاہی دینے کے لیے اس تصور سے سمجھائیں۔

آپ اپنے بھائیوں ، والدین ، اولاد اور شریک حیات کی زندگیوں کا قیمتی سرمایہ ہیں۔ اپنا بہت خیال رکھیں

Advertisements
julia rana solicitors

بشکریہ فیس وال

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply