• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • اساتذہ کی بھرتی کا ناقص طریقہ کار؛ اسباب و سدباب۔۔۔۔عابد میر

اساتذہ کی بھرتی کا ناقص طریقہ کار؛ اسباب و سدباب۔۔۔۔عابد میر

بلوچستان میں گریڈ سترہ یا اس سے بالائی سطح کے سکول و کالج اساتذہ کو بھرتی کرنے کا اختیار بلوچستان پبلک سروس کمیشن کے پاس ہے۔ یہ ادارہ اب تک اپنی ساکھ کو بچائے رکھنے میں خاصی حد تک کامیاب رہا ہے۔ لیکن اس کے امتحانی طریقہ کار پہ ایک عرصے سے سوالیہ نشان لگتے آ رہے ہیں۔ خصوصاً اساتذہ کی بھرتی کے حوالے سے ایک بے چینی پائی جاتی ہے۔ جس کا خاتمہ از حد ضروری ہے۔

اس سلسلے میں پبلک سروس کمیشن کو اپنے متروک شدہ طریقہ کار پہ نظرثانی کر لینی چاہیے۔ یہ ضروری نہیں کہ برسوں قبل جو طریقہ کار طے پا گیا، وہ کوئی حرفِ آخر ہے جو ہمیشہ قائم رہے گا۔ لازم ہے کہ ادارے میں اصلاحات لائی جائیں اور جدید طریقہ کار اپنائے جائیں۔ آج کی جدید دنیا میں تعلیم کی ترسیل کا طریقہ کار جہاں تبدیل ہوا ہے، وہیں لازم ہے کہ اس کے اہم ترین محرک یعنی استاد کی بھرتی اور اہلیت کو جانچنے کا معیار بھی تبدیل ہونا چاہیے۔

موجودہ نظام میں سب سے بڑی خرابی اس کا ازکارِ رفتہ ہونا ہے۔ موجودہ طریقہ کار کسی صورت اکیسویں صدی کے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں۔ اس لیے اس پہ نظرثانی کر کے اسے فوری تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔

مروجہ طریقہ کار
ہمارے ہاں اب تک جو رائج طریقہ کار ہے، اس کے مطابق پہلے متعلقہ مضمون میں ایک پرچہ لیا جاتا ہے۔ جس میں تین گھنٹوں کے دوران پانچ سوالات پوچھے جاتے ہیں۔ اس کے سو نمبر ہیں۔ اس کے بعد ایک زبانی امتحان لیا جاتا ہے جس میں متعلقہ مضمون کے علاوہ اسلامیات، مطالعہ پاکستان، جنرل نالج اور سائنس سے متعلق سوالات بھی پوچھے جاتے ہیں۔ اس زبانی امتحان کے نمبر بھی سو ہیں۔ یوں کل ملا کر دو سو نمبر بنتے ہیں۔ جس میں کل نمبروں میں سبقت لے جانے والا امیدوار ہی کامیاب قرار پاتا ہے۔

اس طریقہ کار میں ایک بڑا نقص پایا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک امیدوار پرچے میں سو میں سے اَسی نمبر حاصل کرتا ہے۔ لیکن زبانی امتحان میں دیگر مضامین پہ گرفت نہ ہونے کے باعث صرف چالیس نمبر لے پاتا ہے، یوں اس کے کل نمبر 120بنتے ہیں۔ جب کہ دوسرا امیدوار پرچے میں صرف پچاس نمبر لیتا ہے، مگر زبانی امتحان میں اَسی نمبر لے لیتا ہے۔ اور اس کے کل نمبر 130 بنتے ہیں۔ اور وہ پہلے امیدوار کے مقابلے میں کامیاب قرار پاتا ہے۔ یوں ایک ایسا امیدوار مقابلے میں پیچھے رہ جاتا ہے جو متعلقہ مضمون میں زبردست گرفت رکھتا ہے۔ جب کہ اس کے مقابلے میں ایک ایسا امیدار کامیاب قرار دیا جاتا ہے جو اُس مضمون میں خاطرخواہ گرفت نہیں رکھتا، جس کی اس نے تدریس کرنی ہے۔

اسی طرح کالج اساتذہ کی بھرتی میں جو اہم ترین خرابی پائی جاتی ہے، وہ ان سے لیا جانے والا زبانی امتحان ہے۔ کالج اساتذہ عموماً ایک مخصوص مضمون پڑھانے پہ متعین ہوتے ہیں۔ اس لیے ان سے زبانی امتحان میں اسلامیات، مطالعہ پاکستان یا جنرل نالج وغیرہ سے متعلق پوچھنا غیرضروری ہے۔ نیز اس کا طریقہ کار بھی نہایت ناقص ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ اکثر ممتحن خود ایک کاپی پہ چند رٹے رٹائے سوالات لکھ کر لاتے ہیں اور توقع کرتے ہیں کہ تدریس کے لیے بھرتی ہونے والا ایک امیدوار اُن کے رٹے رٹائے جواب دے۔ یہ متروک شدہ اور ازکارِ رفتہ طریقہ کار ہے، جس سے اب جان خلاصی کرا لینی چاہیے۔

تکنیکی ڈگری کی اہمیت
عام طور پر سکول اساتذہ کی بھرتی کے لیے بی ایڈ (بیچلر اِن ایجوکیشن) کی شرط لازمی قرار دی جاتی ہے۔ البتہ ایجوکیشن میں چار سالہ بی ایس آنرز کرنے والے امیدواروں کے لیے اس ڈپلومہ کا ہونا ضروری نہیں۔ یہ بات درست ہے کہ ایجوکیشن سے وابستہ ہونے والے فرد کے لیے اس کی بنیادی تعلیمات سے آگاہی ضروری ہے۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ شرط صرف سیکنڈری ٹیچرز کے لیے ہے۔ ہائیر سیکنڈری یعنی کالجز کی سطح پر اس کا کوئی اہتمام نہیں۔ یہ ایک لطیفہ ہو گا کہ کوئی بھی پرائیویٹ ایم اے کرنے والا شخص کمیشن کا امتحان پاس کر کے کالج کا ٹیچر بن سکتا ہے، جسے اگلے ہی دن ہائیر سیکنڈری لیول کی کلاس کو ڈیل کرنا ہوتا ہے۔ گو کہ اب بلوچستان ٹیچرز اکیڈمی کی صورت میں ایک ادارہ موجود ہے، جو نئے بھرتی ہونے والے اور پہلے سے سروس میں موجود اساتذہ کی تکنیکی بنیادوں پر تربیت کا فریضہ سرانجام دیتا ہے۔ لیکن اس طرح سیکنڈری سکول کی سطح کا ایک ادارہ پراونشل انسٹی ٹیوٹ آف ٹیچرز ایجوکیشن بھی موجود ہے۔

اس لیے ہونا یہ چاہیے کہ سکول اساتذہ کی طرح کالج اساتذہ کی بھرتی کے لیے بھی ایم اے کے ساتھ ایم ایڈ کی ڈگری لازمی ہونی چاہیے۔ البتہ جن امیدواروں کے پاس چار سالہ بی ایس کی ڈگری ہو، انہیں اس سے مستثنیٰ قرار دیا جا سکتا ہے۔ کیوں کہ اس طرح پرائیویٹ ایم اے کرنے والا اور چار سال تک ریگولر پڑھنے والا طالب علم برابر ہو جاتے ہیں، جو سراسرناانصافی ہے۔ پرائیویٹ یا دو سال ایم اے کرنے والے کوجب ایم ایڈ کی ڈگری بھی لینی پڑے گی تو اس کا تعلیمی کیریئر اور صلاحیت بی ایس کے طالب علم کے برابر ہو جائے گی۔ بی ایس کے اکثر مضامین میں ایجوکیشن کا مضمون بھی موجود ہے۔ یہ اور بات کہ بلوچستان میں کالجز کی سطح پر ایجوکیشن سمیت میڈیا اسٹڈیز اور جینڈر اسٹڈیز جیسے اہم مضامین رائج ہی نہیں۔ شعبے کے متعلقہ حکام کو اس بابت توجہ دینی چاہیے اور تعلیم سے وابستہ افراد کے لیے سکول سے لے کر یونیورسٹی کی سطح تک ٹیکنیکل ڈگری یا ڈپلومہ لازمی قرار دینا چاہیے۔

سدباب کی ایک تجویز
اس ضمن میں جیسا کہ ہم گذشتہ مضمون میں کالج اساتذہ کی بھرتی کے حوالے سے جو تجویز دے آئے ہیں، اسی کو یہاں دہرانا چاہئیں گے۔

پہلی بات یہ کہ ایک سکول یا کالج استاد کا بنیادی کام تدریس ہے۔ اس لیے امتحان کا اصل مدعا مذکورہ مضمون پر اور طریقہ تدریس پہ اس کی گرفت ہونی چاہیے۔ اس کے لیے ایک طریقہ کار یہ اپنایا جا سکتا ہے کہ جس طرح پرچے کے سو نمبر ہیں، اسی طرح زبانی امتحان کو دو حصوں میں تقسیم کیا جائے۔ پہلے حصے میں متعلقہ مضمون سے متعلق سوالات پوچھے جائیں۔ جیسے کہ ایس ایس ٹی جنرل سے اُردو، انگریزی، اسلامیات، مطالعہ پاکستان اور جنرل نالج سے متعلق سوالات کیے جائیں۔ اس کے نمبر پچاس ہونے چاہئیں۔ پچاس نمبر کی ایک پریذنٹیشن ہو جس میں کسی ایک موضوع پہ امیدوار دس منٹ کا لیکچر دینے کو کہا جائے۔ اس میں موضوع پہ اس کی گرفت، لیکچر کی تیاری، مواد کی سطح، اور طریقہ تدریس اور رویہ کے الگ الگ نمبر دیے جائیں۔ اسی طرح ایس ایس ٹی سائنس سے زبانی امتحان میں سائنسی مضامین جیسا کہ باٹنی، زولوجی، کیمسٹری، فزکس اور ریاضی کے سوالات پوچھے جائیں اور کسی سائنسی موضوع پہ دس منٹ کی پریذنٹیشن لی جائے۔کالج ٹیچر کوالبتہ چوں کہ ایک مخصوص مضمون پڑھانے کو تفویض کیا جاتا ہے، اس لیے اُس سے زبانی امتحان اور پریذینٹیشن بھی متعلقہ مضمون و موضوع سے متعلق ہی ہونا چاہیے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس طرح ایک ٹیچر جس کام کے لیے بھرتی کیا جار ہا ہے، اس کی صلاحیتوں کی ہر طرح سے جانچ پڑتال ممکن ہو سکتی ہے۔

Facebook Comments

حال حوال
یہ تحریر بشکریہ حال حوال شائع کی جا رہی ہے۔ "مکالمہ" اور "حال حوال" ایک دوسرے پر شائع ہونے والی اچھی تحاریر اپنے قارئین کیلیے مشترکہ شائع کریں گے تاکہ بلوچستان کے دوستوں کے مسائل، خیالات اور فکر سے باقی قوموں کو بھی آگاہی ہو۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply