محترمہ بھنگ یا محترم بھنگ۔۔۔رمشا تبسم

محترمہ زرتاج گل صاحبہ نے بھنگ کی بہت تعریف کی۔ پاکستان کے تمام بڑے مسائل کو پسِ پشت رکھ کر ان کو صرف بھنگ کی فکر ہوئی۔لوگ بھوک سے مر رہےہیں۔بجلی ,گیس ,پانی کی قلت کا سامنا ہے۔روزگار کی عدم دستیابی ہے۔تعلیمی فقدان عروج پر ہے۔معاشرے میں جنسی درندے گھوم رہے ہیں۔عورتوں کی عزت کی بولیاں لگ رہی ہیں۔ادویات مہنگی ہو چکی ہیں۔سرکاری ہسپتالوں سے مفت علاج کی سہولیات ختم کر دی گئی  ہیں۔نفرت عروج پر ہے۔کوئی توہینِ رسالت کا الزام لگا کر قتل کر رہا ہے۔تو کوئی توہین لیڈران برداشت نہیں کر رہا ۔غریب کے لئے دو وقت کی روٹی کمانا نا ممکن ہو گیا ہے۔اور حکومتِ وقت ٹھٹھہ لگانے میں مصروف ہیں۔آئے دن کوئی نا کوئی لطیفہ عوام کو سنا دیا جاتا ہے۔جس پر اسکا دفاع کرنے والے میدان میں آ جاتے ہیں۔اور جو تنقیدکرے اُسے “غدار”یا “بُغضِ عمران” کا سرٹیفکیٹ دے کر چُپ کر وا دیا حاتا ہے۔۔راقم کو بھی ماشاﷲ سینکڑوں بار “غداری” اور “بُغضِ عمران” سرٹیفکیٹ سے نوازا جا چکا ہے۔

اب چونکہ پی۔ٹی۔آئی کی طرف سے اور خاص کر محترمہ زرتاج گُل صاحبہ نے “بھنک” کو ایک عزت سے نوازا ہے اس لئے بھنگ اب معمولی  شئے  نہیں رہی بلکہ “بھنگ شریف” ہو گئی  ہے۔جس کے فضائل و برکات پی۔ٹی۔آئی ۔ کا سوشل میڈیا آپ کو بتا رہا ہے۔اور اگر آپ نے بھنگ کی شان میں گستاخی کی تو یاد رکھیے  گا اُن کے پاس ڈھیر سارے “غداری” کے سرٹیفکیٹ اور “گودام گالیوں” سے بھرا ہوا ہے۔ اس لئے آج سے “بھنگ” کو “محترمہ بھنگ” یا “محترم بھنگ” کا لفظ کہہ کر پُکارا جائے۔ کیونکہ پی۔ٹی۔آئی  نے ابھی بھنگ کی جنس واضع نہیں کی۔ اس لئے ایک بار جنس کا تعین ہو جائے پھر ہم واضح  طور پر “محترم”یا “محترمہ” کا لفظ بھنگ کے ساتھ استعمال کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔ ابھی جس کو لگتا ہے کہ  “محترمہ بھنگ” ہیں وہ یہی اصطلاح استعمال کرے۔اور جس کو یقین ہے کہ  “محترم بھنگ” ہے ( “ی یا ن” کا بھنگ کے آخر میں استعمال آپ کی خواہش ہو سکتی ہے راقم کا ارادہ نہیں) وہ یہ استعمال کر سکتا ہے۔جنس کا تعین ہونے کے بعد اگر کسی نے بھنگ کی شان میں گستاخی کی تو یقین رکھیے گا وہ نواز شریف کا ساتھی ہے اور اس کی کرپشن چھپانے کے لئے بھنگ شریف کی عزت پامال کر رہا ہے۔۔

لہذا اُسی طرح بھنگ کی عزت سب پر لازم ہے جیسے ہم نے شراب کی بوتلیں دیکھ کر اسکو شہد شریف نہ صرف تسلیم کیا بلکہ جنہوں نے شہد ماننے سے انکار کیا ان کو گالی گلوچ کے ذریعے اپنے بیانیے پر راضی کر لیا۔شراب جو پرانے پاکستان میں شہد کا نام حاصل کر چکی تھی اب نئے پاکستان میں مکمل طور پر معتبر بن کر سرٹیفکیٹ حاصل کر کے عام ہونے جا رہی ہے۔۔

ایسے ہی جیسے تمام پارٹیز کے کرپٹ لوگ اٹھا کر پی۔ٹی۔آئی  میں نا صرف شامل کئے گئے بلکہ انکا دفاع بھی سب پر فرض کر دیا ہے۔مثلاً  موجودہ حکومت بننے سے چند ماہ قبل فردوس عاشق اعوان صاحبہ پی۔ٹی ۔میں آ گئیں ۔لہذا اب انکی ماضی کی غلطیاں معاف ہیں جیسے شراب حرام نہیں اسی طرح فردوس صاحبہ بھی حلال ہو گئیں  ۔فردوس صاحبہ کے لئے حرام کا لفظ اس لئے نہیں لکھا کیونکہ میری تعلیم و تربیت اجازت نہیں دیتی کہ  خاتون کے ساتھ برا لفظ لگاؤں۔ چاہے وہ خاتون سرِ عام ماضی میں پیپلز پارٹی کی محبت میں مخالفین کو ننگی گالیاں ہی کیوں نہ  دے چکی ہوں۔

اب نئے پاکستان میں حلال اور حرام کا فرق جاننے کے لئے کسی قسم کی اسلامی تعلیمات سے راہنمائی کی ضرورت نہیں۔صرف ایک قانون ہے کہ “جو چیز عمران خان صاحب سے منسوب ہے یا جو چیز ان کی دسترس میں ہے۔چاہے جیسے بھی جہاں سے بھی آئی ہو وہ سو فیصد حلال ہے۔تمام دیگر اشیاء و اشخاص جو عمران خان کی پہنچ میں نہیں یا عمران خان کی پہنچ سے دور کر دیئے گئے ہیں وہ حرام ہیں”۔

اسی طرح سے کچھ حرام چیزیں اور اشخاص مزید حلال کر دیئے گئے ہیں جیسے فواد چوہدری اور اور اپنی طرف سے ہی ڈاکٹر بنے عامر لیاقت صاحب۔جو کہ نہ  ہی ڈاکٹر لفظ کا بھرم رکھ سکے ہیں اور نہ  ہی “عامر” اور “لیاقت” کا۔۔بات ہو فواد چوہدری کی تو جتنا بُرا اور گھٹیا یہ بولتے ہیں مجھے پورا یقین ہے کہ  اتوار کے اتوار شیطان بھی ان سے کلاس لینے آتا ہو گا۔۔

خیر فواد صاحب اور عامر لیاقت صاحب کی حلال ہونے سے پہلے کی حرکات یہ تھیں  کہ  عمران خان کے ہر فعل حتٰی کے ان کے بُشری بی۔بی سے نکاح پر بھی سب سے زیادہ طنز اور تنقید کرنے والے یہی لوگ ہیں۔انہی لوگوں نے سب کو نکاح اور  طلاق کا فرق سمجھایا اور عدت میں نکاح کا معاملہ  زیرِ بحث لائے۔حالانکہ راقم بالکل بے خبر تھی اس سارے معاملات سے مگر ان دونوں اشخاص نے اس معاملے پر عمران خان کو بے انتہا تنقید کر کے لوگوں کو سمجھایا تھا کہ  عمران خان حرام کام کو حلال کر رہا ہے ۔ مگر بنی گالہ سے جب سے گلے میں پی۔ٹی۔آئی  کا دوپٹہ نما وفاداری کا کپڑا باندھا ہے تب سے اِنکے برکات و فضائل میں اضافہ ہو گیا ہے۔اور حکومت کے حامی ان دونوں کا دفاع کرتے نظر آتے ہیں۔

ان کی زبان جو عمران خان کے خلاف بول بول کر کافی لمبی  ہو چکی تھی۔ اس کے نشتروں کا رُخ اب مخالف سیاسی جماعتیں ہیں۔ اور اب شیطان بھی ان کی زبان کے آگے ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہوتا ہے کہ  “سائیں ہم سے نہ  ہو پائے گا تم تو ہم سے بھی آگے کی چیز ہو”۔

یاد رکھیے ! یہ ایک ہی واحد نیا پاکستان کا اصول ہے کہ عمران خان سے منسوب سب “حرام” اب “حلال” ہے۔جس کو قانون کی طرح نافذ کیا جا چکا ہے۔ اور کسی مجبور کی طرح ہم مان رہے ہیں۔

لہذا بات ہو رہی تھی محترمہ بھنگ کی  میرا مطلب ہے محترمہ زرتاج گل صاحبہ کی جن کا فرمان ہے “صرف بھنگ سے اب ہمیں اتنا فائدہ ہونے جا رہا ہے کہ  آپ کی سوچ بھی نہیں”۔سوچ تو واقعی کسی کی بھی نہیں تھی کہ  محترم بھنگ میرا مطلب محترم عمران خان صاحب اتنا بڑا ویژن رکھتے ہیں کہ  ایسے ایسے پروجیکٹ لائیں گے کہ  ہم حیران و ششدر رہ جائیں گے۔کس طرح سے شکریہ ادا کرو ں میں حکومت کا کہ  انہوں نے کبھی ہمیں مرغے مرغیوں سے ترقی دلوائی۔کبھی کٹے اور کٹیوں سے ۔۔یہاں تک کہ لیٹرینیں بنانے کا خاص منصوبہ تیار کیا ۔اب یہ لیٹرین والا تو سِرے سے ہی غلط ہے۔جتنی مہنگائی کر دی ہے عوام نے صرف “صبر” کھانا ہے اور صبر کھا کر کسی کو لیٹرین کی ضرورت نہیں پڑتی۔

بھنگ اور حکومتی کارکردگی سمجھنے کے لئے ایک واقعہ سُنیے۔۔۔۔

ایک آدمی بھنگ پی بیٹھا۔راستے سے گزر رہا تھا کہ  ایک چھوٹی سی “نالی” آ گئی۔اس نے کھڑے ہو کر رونا اور چلانا شروع کردیا کہ  یہ “نالہ” ہے “دریا” ہے میں گر جاؤں گا۔کافی سمجھانے کے بعد بھی وہ اس “نالی” کو پار کرنے کو تیار نہ ہوا اور روتے روتے بے ہوش گیا۔ ہسپتال لے جایا گیا۔اس نےاُونچی اُونچی رونا شروع کر دیا ۔ڈاکٹر نے پریشان ہو کر پوچھا کیا ہو گیاہے؟ ۔تو اس نے کہا کہ  “ڈاکٹر صاحب میرا بڑا آپریشن نہیں کرنا نارمل ڈلیوری کروا دینا”۔۔

ایسے ہی بھنگ اچھے بھلے انسان کو ابنارمل اور بزدل بنا دیتی ہے۔مگر اب بات یہ ہے کہ  بھنگ کے اثرات اگر  زیادہ ہو گئے ہیں تو اس کو ٹھیک کیسے کیا جائے۔؟

کیسے سمجھایا جائے حکومت کو کہ  مسائل کی صرف ایک آدھی” نالی” ہی تھی ,یا ہے بھی , نہ  کہ “نالہ” , “دریا” یا “سمندر”۔حکومت اب نالی کے اُس پار کھڑی صرف روئے جا رہی ہے۔ واویلا مچا رہی ہے۔جبکہ مسائل اتنے سنگین نہیں تھے اور جو مسائل اب ہیں وہ بھی موجودہ حکومت کی ناقص کارکردگی اور نا اہلی کی وجہ سے ہیں ۔مسئلہ ان کا صرف ایک ہی ہے وہ ہے “بھنگ” کا اثر بس۔۔۔

اب اگر اتنے مہینوں بعد حکومت کا کام ہی نہیں ڈلیور ہوا تو اس کا مطلب یہ ہے کے حکومت اور عمران خان ڈلیوری کرنے کے لئے بنے ہی نہیں۔۔ قدرت نے قابلیت ہی نہیں رکھی۔جس کا کام ہو اس کو ہی ساجھے ۔اب جیسے بھنگی بچہ پیدا نہیں کر سکتا تھا یہ صرف اس پر بھنگ کا اثر تھا اور نا صرف اسکو لگا کہ  وہ بچہ پیدا کرنے جا رہا ہے بلکہ یہ بھی احساس ہوا کہ  بڑے آپریشن سے اسکو تکلیف ہو گی۔اسی طرح ایک تو عمران خان اور حکومت کا کام ہی نہیں کہ کچھ ڈلیور کر سکے یا ملک کی بہتری کر سکے, اور دوسرا ان کو ڈر ہے کہ جو کام عمران خان اور حکومت کر ہی نہیں رہی, یا جو کام وہ بگاڑ چکے ہیں , اس پر ذلیل نہ ہو جائیں ۔۔لہذا آئے دن لطیفے سنا دیئے جاتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

باتیں بہت سی ہیں مگر آج صرف محترمہ بھنگ اور محترم بھنگ کا ذکر ضروری تھا تا کہ انکی کارکردگی, ان کے حلال,حرام کے قوانین اور ان کی سنجیدگی کا اندازہ لگایا جا سکے کہ  ہمارا مستقبل اور پاکستان کِن غیر سنجیدہ لوگوں کے ہاتھ میں ہے۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply