پچھلے ایک دو دنوں میں مختلف فلمی گروپس میں سلطان راہی مرحوم پہ اک بحث دیکھنے کو ملی۔ جس میں ہمارے اک فاضل دوست نے لالی ووڈ کا ٹھیکرا سلطان راہی مرحوم کے سر پہ پھوڑنے کی کوشش کی۔ مدعا کچھ یوں ہے کہ یوٹیوب پہ ایک چینل ہے دو دوست چلاتے ہیں یوگی بابا پروڈکشن کے نام سے۔ انہوں نے کچھ عرصہ قبل بی گریڈ فلم میکر کانتی شاہ کے متعلق بتایا۔ اس ریفرنس کو استعمال کرتے ہوئے ہمارے اک “فاضل” دوست نے سلطان راہی مرحوم کو بی گریڈ فلموں کا ہیرو اور اور ان کی فلموں کو دوسرے درجے کی قرار دیا۔ ان کے بقول مزدور اور کوچوان طبقہ ان فلموں کا اسیر تھا۔
ہمارے عالم فاضل دوست نے راہی صاحب مرحوم کے حق میں بولنے والوں کی اہمیت کو کوچوان اور مزدور طبقہ بول کر کم کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس لیے میں اپنے فاضل دوست کو کتاب کے ریفرنس سے کچھ سمجھانے کی کوشش کروں گا اگر سمجھنا چاہیں تو۔
ہندوستانی اور پاکستانی سینما وقت کے ساتھ ارتقائی مراحل سے ہوتا ہوا یہاں تک پہنچا ہے۔ سینما سے قبل تھیٹر کا دور تھا تب آج کی طرح سپیکرز مائیکس وغیرہ نہیں ہوتے تھے تو اداکاروں کو زور لگا کر ڈائیلاگز بولنے پڑتے تھے۔ ان کا یہی انداز سینما کے اندر آیا پھر نئی کھیپ آئی تو مدھم ہچکیوں بھرے لہجے کی ابتدا ہوئی۔ ووے رانڑو اور تم ہنسی کیوں کمو والے لہجے سے ہوتے ہوئے بات بڑھک تک آ پہنچی۔ پنجابی سینما میں یہ بڑھک آج بھی رائج ہے دو فروری کو گپی گریوال اور پرنس کی فلم “وارننگ 2” ریلیز ہونے والی ہے اس میں بھی کہانی بڑھک “پما بولداں ویرے” پہ ٹکی ہے۔ دوسری طرف اردو ہندی فلموں میں ڈرامائی طرز ڈائیلاگ رائج ہوئے مثلاً آپ ہندوستانی فلم صنم سے صنم نصیب دیکھ لیں یا پاکستانی اک پھول دو مالی وغیرہ۔
اب ہم ستر اسی کے کسی اداکار کو اٹھا کر آج کی کسوٹی پہ پرکھیں گے تو یقیناً آج کے مروجہ سینما سے متضاد ہی پائیں گے۔ سلطان راہی مرحوم کے متعلق پڑھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ کئی فلمیں صرف اور صرف فلم کریو کی وجہ سے سائین کر لیا کرتے تھے کہ اک فلم پہ سرمایہ لگتا ہے اس میں بہت سے لوگ انوالو ہوتے ہیں ان بہت سے لوگوں کو کام ملتا ہے جس سے بہت سے خاندان کی روزی روٹی چلتی ہے۔
راہی صاحب مرحوم بطور شخصیت انتہائی شاندار شخص تھے اور بطور اداکار وہ ورسٹائیل تھے۔ بہت سی فلموں میں ان کی ایکٹنگ رینج کھل کر سامنے آئی۔ مگر راہی صاحب بطور اداکار یوں بدقسمت رہے کہ وہ ٹائپ کاسٹ ہو گئے۔ پروڈیوسر پیسہ لگاتا ہی تب تھا جب فلم اک لگے بندھے فارمیٹ میں بنانے کا وعدہ کیا جاتا۔
فارمولے کے متعلق راحت اندوری مرحوم اک واقعہ سناتے ہیں کہ ان کو اک پروڈیوسر نے گانا لکھنے کو بولا اور فرمائش کی کہ اس میں یہ مصرعہ لازمی ہونا چاہیے۔ راحت صاحب مرحوم نے بتایا کہ یہ غالب کا مشہور مصرعہ ہے کچھ دیر توقف کے بعد پروڈیوسر نے بولا کون ہے غالب ہزار دو ہزار دے کر جان چھڑاؤ۔ ایسے ہی پروڈیوسرز کی بدولت راہی صاحب کی اک ہی فارمولے کے تحت فلمیں بننے لگیں۔
سلطان راہی مرحوم اور نصیبو لعل اس معاملے میں بدقسمت رہے کہ ان کو ٹائپ کاسٹ کیا گیا۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ نصیبو لعل کو گانا نہیں آتا اور سلطان راہی اچھے اداکار نہیں تھے۔ راہی صاحب بارہا اس خواہش کا اظہار کرتے تھے کہ کچھ ہٹ کر بنایا جائے مگر تب پنجاب کے حالات ممبئی کی طرز کے تھے۔ نامی گرامی گینگسٹرز پیدا ہوئے پولیس مقابلے ہوئے لاہور سمیت اپر پنجاب میں ڈاکووں اور گینگسٹرز کو فالو کرنے والوں کی بہت بڑی تعداد ہوا کرتی تھی۔ ان گینگسٹرز کی نام نہاد بہادری اور غریب پروری کو خوب مرچ مصالحہ لگا کر چوپالوں میں ڈسکس کیا جاتا تھا۔ سلطان راہی مرحوم سے لے کر شان تک نے ایسے ہی کئی ڈاکوؤں اور گینگسٹرز کی کہانیوں پہ فلمیں کیں اور انہیں دیکھنے گاؤں کے چوہدری نمبردار کوچوان مزدوروں کے علاوہ کرائم رپورٹرز تک جایا کرتے تھے۔
راہی صاحب مرحوم کو بی گریڈ ایکٹر کیسے قرار دیا جا سکتا ہے۔ جن کانتی شاہ صاحب کا ریفرنس دیا گیا ہے وہ ڈبل میننگ ڈائیلاگز نئے چہروں کے ساتھ ایروٹک ٹائپ فلمیں بناتے تھے جن میں سیکس کو مرکز میں رکھا جاتا تھا۔ جبکہ سلطان راہی مرحوم کی فلمیں ایکشن سے لیس ہوتی تھیں۔ پولیس کس طرح ملزم کو مجرم بناتی ہے۔ جھوٹی انا کی خاطر کس طرح گھر کی عورتیں بلی چڑھتی ہیں اور بندے مارنا کس طرح بہادری کا سمبل بن جاتا ہے راہی صاحب کی فلموں کا موضوع یہ رہتا تھا۔
سلطان راہی مرحوم کی عظمت کی سب سے بڑی مثال یہی ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ کمائی کرنے والے فلم لیجنڈ آف مولا جٹ سلطان راہی مرحوم کی فلم کا ریمیک ہے۔
اگر آپ کو کوئی جونرا کوئی اداکار پسند نہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ اچھا نہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں