اک حرف تسلی کا۔۔سائرہ خلیل

“تم میرے پاس ہوتے ہو گویا, زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری۔۔۔ میں رات کے دو بجے ماما سے کافی مانگتا ہوں تو وہ مجھے یہاں چھوڑ کر چلی گئیں۔ میرا بہت دل چاہتا ہے کہ میں بھی باقی لڑکوں کی طرح ون ویلنگ کروں۔ میں مہدی حسن کی فلمیں بہت دیکھتا ہوں۔ میرا شناختی کارڈ نہیں بنا۔ میرے ڈرائیور کے پاس لائسنس نہیں۔ میں امریکہ جانا چاہتا ہوں۔ میں یہاں صفائی کا کام کرتا ہوں۔ آج بہت سردی ہے۔ کل عمران خان نے مجھے چائے پہ بلایا تھا۔ میرے بھائیوں نے میری جائیداد چھین لی ہے۔ مجھے کبھی کبھی بہت غصہ آتا ہے ہا ہا ہا۔ میں تھک گیا ہوں۔ آپ کو گانا سناؤں؟ کوئی چھپ کر ہماری باتیں سن رہا ہے۔ شعر سنائیں مجھے گھر جانا چاہیے۔”
ان سب باتوں کا بظاہر آپس میں کوئی تعلق نہیں بنتا ان کو پڑھنا اور سننا یقیناً مضحکہ خیز ہے۔ لیکن یہ تمام گفتگو ایک 21 سالہ نوجوان کی ہے جو امراض نفسیات کے ایک نجی ہسپتال میں زیرِ علاج ہے۔ نفسیات کی لغت میں اس کو “شیزوفرنیا” (Schizophrenia) کہتے ہیں۔ یہ شیزوفرنیا کی خطرناک حد تک تکلیف دہ اقسام میں سے ایک قسم ہے جس میں ایک نارمل انسان کے خیالات اور الفاظ کا ربط ٹوٹ جاتا ہے۔ یہ کوئی فلمی کہانیاں نہیں ہیں بلکہ حقیقت پر مبنی ذہنی بیماریاں ہیں۔ ایک سروے کے مطابق پاکستان میں 50 ملین افراد ذہنی امراض کا شکار ہیں جن میں ڈپریشن, Anxiety, شیزوفرنیا اور منشیات کا استعمال سرِ فہرست ہیں۔ دنیا بھر میں 10 اکتوبر بطور “عالمی ذہنی صحت کا دن” (World Mental Health Day) منایا جاتا ہے لیکن ستم ظریفی کا یہ عالم ہے کہ ہم میں سے بیشتر افراد اس کا شعور ہی نہیں رکھتے۔۔ نفسیاتی امراض کی بہت سی وجوہات ہوسکتی ہیں لیکن ہمارے معاشرے کے حالات کے تناظر میں صرف ایک لیکن نہایت اہم وجہ زیرِ غور لانا چاہوں گی۔
دورِ جدید میں جہاں انسان آسمانوں کی حدود کو چھونے کی جہتوں میں مصروفِ عمل ہے, جہاں چھوٹی سی خبر پلک جھپکتے وائرل ہو جاتی ہے , وہی انسان اپنے ساتھ بیٹھے دوست اور ساتھی کے ذہنی مسائل، جذبات اور خیالات کی توڑ پھوڑ سے بے خبر ہے۔ ہم نے اتنی ترقی کر لی ہے کہ ہم مائیکروسکوپک لیول پر پائی جانے والی اشیاء کی ساخت دیکھ سکتے ہیں لیکن ہمارے سامنے بیٹھا شخص ہمارے رویے سے نفسیاتی مریض بن سکتا ہےاس راز سے لاعلم ہیں۔ ہمارے آس پاس ہر انسان ظاہری یا پوشیدہ طور پر ہمہ تن بےشمار لڑائیاں لڑ رہا ہے۔ آپ کی معمولی سی بات اس کے خیالات اور ذہن میں کیسی خلاء پیدا کر سکتی ہے آپ نہیں جانتے۔ انسانیت انسانیت کا راگ الاپنے والے لوگ اپنے بے نیاز رویوں کے نشتر سے کسی کو ذہنی مریض بنا سکتے ہیں۔
بحثیت قوم ہم اپنی اخلاقی اقدار کھو چکے ہیں۔ والدین اور اساتذہ ہونے کے ناطے ہم پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ جتنا ہو سکے معاشرے کو صحیح سمت پر لانے کی کوشش کریں۔ آپ کی تسلی کا ایک حرف بھی کسی کےلئے مرہم کا کام کر سکتا ہے۔ جتنا ہو سکے لوگوں کے مسائل حل کرنے کی کوشش کریں اور آسانیاں پیدا کریں۔ دوسروں کو اپنی ذاتی رائے اور معیار کی کسوٹی پر پرکھنا چھوڑ دیں۔الفاظ وہ رسیاں ہیں جن سے ہم سب بندھے ہیں۔ رسیاں پھندا بھی بن سکتی ہیں۔ احتیاط کیجیے!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply