• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • شاہ زیب قتل کیس معاشرے پر ہر طرف سے اثر انداز ہو رہا ہے۔عمار کاظمی

شاہ زیب قتل کیس معاشرے پر ہر طرف سے اثر انداز ہو رہا ہے۔عمار کاظمی

شاہ زیب قتل کیس میں خوف اور مصلحت دونوں کارفرما تھے۔ مرنے والا واپس نہیں آ سکتا تھا اور مارنے والا نہ صرف مالدار تھا بلکہ طاقور بھی اتنا کہ بیٹی کے باپ ڈی ایس پی کو مصالحت پر مجبور ہونا پڑا۔ اصل جرم ریاست کا ہے جو اس سارے معاملے میں خاموش  رہ کر سرمایہ دارقاتلوں کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے۔ الیکٹرانک میڈیا شاہ زیب کے والد کو ڈیل کرنے کا طعنہ دے کر لواحقین کے زخموں پر نمک پاشی کے علاوہ کچھ نہیں کر رہا۔ جہاں دیت کے قانون پر علما سے رجوع کرنے اور ریاست کی خاموشی پر تنقید کی ضرورت ہے ، وہاں وہ جواں سال مقتول کے باپ کو نشانہ بنا یا جا رہا ہے۔ ایک زوال پذیر معاشرے سے اور کیا توقع  کی جا سکتی ہے؟ دنیا بھر میں ہمارا مذاق بن رہا ہے کہ مسلم ریاست  میں پیسے کے بدلے قتل  کی معافی ممکن ہے۔ ایسے میں سوال یہ بھی ہے کہ علمائے اکرام کو اس سب پر خاموش رہنا چاہیے یا آگے بڑھ کر کوئی کردار ادا کرنا چاہیے؟ اسلامی شرعی کونسل اس ضمن میں کیا کر رہی ہے؟ اور سب سے اہم ریاست کا کردار ہے۔ ریاست کسی امیر زادے کی طرف سے کسی کمتر کے قتل پر خاموش رہ کر کیا پیغام دے رہی ہے؟

چینل بانوے کے مطابق مقتول کے باپ اورنگزیب خان نے میڈیا سے چُھپتے ہوئے عدالت میں یہ بیان حلفی داخل کیا کہ واقعہ حادثہ تھا اور دہشت گردی نہیں تھا۔ پہلی بات ، باپ کی گواہی تو ویسے ہی اس ضمن میں قابل قبول نہیں ہوسکتی اور دوسری بات یہ کہ وہ اسے دہشت گردی یا حادثہ قرار دینے کا اہل کیسے ہو سکتا ہے؟ عدالت یہ سب قبول ہی کیسے کر سکتی ہے؟ جبکہ یہ ریمارکس ماضی میں  بارہا سننے کو مل چکے کہ ایسی نوعیت کے مقدمات میں ریاست خود مدعی کا کردار ادا کرے گی جو معاشرے پر انتہائی منفی اثرات مرتب کرتے ہیں۔ یعنی یا تو آپ پہلے ہی بڑھکیں نہ ماریں اور اگر کوئی بات کی تو اس کا پہرہ بھی دیں۔ دراصل یہی وہ تضادات ہیں جو عدلیہ کے کردار کو متنازعہ بنانے میں معاون و مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ اس فیصلے کا استعمال کیسے ہونیوالا ہے اس کا اندازہ آپ بیرون ملک مقیم لیگی صحافی کے سوشل میڈیا بیان سے با آسانی لگا سکتے ہیں’’وزیراعظم اقامہ پر نااہل ، شاہ رخ جتوئی قتل پر بری، ججوں کا انصاف‘‘۔

یقیناً وہ سپریم کورٹ اس مقدمہ پر خاموش کیسے رہ سکتی ہے جو نواز شریف جیسے طاقتور شخص کے ٹرائل کا کریڈیٹ لے رہی ہے؟ کیا یہ فیصلہ میاں صاحب کی مہم کو سپورٹ نہیں کرے گا کہ ان کے خلاف فیصلہ طاقتور کیخلاف نہیں بلکہ سیاسی تھا؟ بڑے جج صاحب یہ تاثر کیسے ختم کریں گے اور کہاں کہاں صفائیاں دیں گے؟ سوال یہ بھی اُٹھے گا کہ کیا شاہ رخ جتوئی اورسراج تالپور وغیرہ شریفین سے زیادہ طاقتور اور مالدار تھے؟ یقیناً نہیں۔ تو ثابت کیا جائے گا کہ مسئلہ طاقتور  یا سرمایہ دار کے خلاف انصاف کا نہیں تھا، معاملہ اسٹیبلشمنٹ کی سازش کا تھا۔تسلیم کرنا پڑے گا کہ میاں صاحب کی سیاسی، سماجی اور معاشی حیثیت سے مذکورہ خاندانوں کا کوئی مقابلہ نہیں ۔چیف  صاحب یہ معمولی مقدمہ نہ تھا، یہ تقسیم در تقسیم معاشرے پر ہر انداز سے اثر اندازہونے والا مقدمہ تھا۔ عدالت کو کچھ قبول کرنے سے پہلے سوچنا چاہیے تھا کہ ہم اس سٹیج سے بہت آگے جا چکے ہیں۔ یہ ہم جیسے بہت سے غیر جانبدار لوگوں پر بھی اثر انداز ہوگا جو ہمیشہ سے میاں صاحبان پر اصولی تنقید اور عدلیہ کے  میاں صاحب کے خلاف پہلے فیصلے کا دفاع کرتے چلے آئے ہیں۔آج ہم بھی اپنے اصولی موقف کو اخلاقی طور پر کمزور خیال کر رہے ہیں۔ یہ انتہائی مضحکہ خیز بات ہے کہ مقتول کا باپ (اتنے عرصہ بعد) قتل کو حادثہ قرار دینے کا مجاز ٹھہرا،  اور اس سے بھی زیادہ مضحکہ خیز عذر یہ کہ دہشت گردی یا حادثے کا تعین مقتول کا باپ کرے گا۔ممکن ہے آگے چل کر اسی کو حوالہ بنا کر بہت سے دہشت گرد بھی دباؤ  ڈال کر اپنے خلاف دہشت گردی کی دفعات ختم کروا لیں۔

دیکھا جائے تو اس قتل پر دہشت گردی کی  موجودہ شکل کے حوالے سے دفعات بھی درست نہیں تھیں۔ یعنی جس دہشت گردی کاہم  یا  باقی دنیا اس وقت سامنا کر رہی ہے، اس سے اس کا تعلق کبھی بھی نہ تھا۔ یہ روز اول سے ایک روایتی قتل تھا، جسے آپ غنڈہ گردی اور بدمعاشی ہی تعبیر کر سکتے تھے۔ مگر چونکہ یہ معاشرے پر اثر انداز ہونے والی بات تھی کہ  اس سےقتل جیسے سنگین جرائم کی حوصلہ افزائی ہوگی، تو یہی مناسب تھا کہ ریاست اور عدالتِ عالیہ ہر دو صورت مجرمان کو کڑی سزا دیتی اور اس بات کی حوصلہ شکنی کرتی کہ اگر کوئی پیسے والا کسی غریب کو قتل کرے گا تو ایسا نہیں ہوگا کہ وہ اپنی طاقت اور پیسے کے بل بوتے  کسی غریب اور کمزور پر دباؤ  ڈال کر یا پیسے دے کر بچ نکلے۔عدالتِ عالیہ کا ایک  طاقتور کے مقابلے میں کمزور کو مہینوں سالوں تک چلتی پروسیڈنگز میں یہ پوچھنا  ہی عدل و انصاف کی روح کے منافی محسوس ہوتا ہے کہ’’ آپ پر کسی قسم کا دباؤ تو نہیں‘‘۔

Advertisements
julia rana solicitors london

طاقتور کے سامنے کمزور کے لیے تو ایک دن بھی گزارنا مشکل ہوجاتا ہے۔دستور چاہے جو بھی کہتا ہو اگر عدالت نظر آنے والا انصاف مہیا کرنے لائق نہ ہو تو ججوں کی جگہ دستور کی پروگرامنگ کر کے کمپیوٹر بٹھا دینے چاہئییں۔ہم نے تو میاں صاحب اور جہانگیر ترین کے خلاف فیصلو ں کی بھی اصولی حمایت اسی وجہ سے کی تھی کہ وہ کسی فائل کی محتاجی سے زیادہ نظر آنے والے انصاف پر مبنی فیصلے تھے۔ اور بلا شبہ عمران اور ان کے مقدمات کا  وکلاء کی قانونی بک بک کے علاوہ کوئی شعوری تقابل نہ تھا ۔ فکری دیوالیہ پن کے شکار معاشرے  کی مقننہ سے عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ تک سب کو یہ سوچنا ہوگا کہ اگر طالبان  عومی دہشت گردی اور فرقہ وارانہ دہشت گردی کی بنیاد پربے گناہ شہریوں  کا خون نہ بہا رہے ہوتے اور قانون ہاتھ میں لے کر ایسے  طاقتور، بااثر،مجرم صفت لوگوں کو مار رہے ہوتے ،تو شاید وہ   ایک بڑی اکثریت کے نزدیک ولن کی بجائے ہیرو ہوتے۔ اور پھر دیکھتے کہ مغرب کے اس فرسودہ نظام عدل کا بنیادی ڈھانچہ اور ریاست کہاں جاتی۔

Facebook Comments

عمار کاظمی
عمار کاظمی معروف صحافی اور بلاگر ہیں۔ آپ سماجی مسائل پر شعور و آگاہی پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply