• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • نراجیت کی فکریات،عملیات ،انقلابیت،مابعد جدیدیت اور ساختیات کی مباحث…احمد سہیل

نراجیت کی فکریات،عملیات ،انقلابیت،مابعد جدیدیت اور ساختیات کی مباحث…احمد سہیل

اردو میں نراجیت پسندی { Anarchism} کا ذکر ضرور ہوا ہے مگر اس پر قدرے کم لکھا گیا ہے۔ نراجیت کی اصطلاح فکری معنوں میں افقی اور عمودی سطح پر بہت پھیلی ہوئی ہے۔ اس کو چند الفاظ میں میں یوں بیاں کیا جاسکتا ہے کہ یہ ایک سیاسی نظریہ ہے جس کا منشا معاشرہ میں مملکت کے وجود سے انکار ہے۔ بسا اوقات (صحافتی اور لغوی معنوں میں) نراجیت سے افراتفری ، مزاحمت یا شورش زدگی مراد لی جاتی ہے، جو درست نہیں۔ اس کی رو سے مملکت بذات خود ایک حقیقی آزاد اور فلاحی معاشرے کے قیام میں سب سے بڑی رکاوٹ اور اس کے ادارے، مثلاً فوج، منتخب حکومتیں، پارلیمنٹ وغیرہ استبدادی سامراج یا نوآبادیاتی کا کردار ادا کرتی ہے۔
فکری مباحث میں مگر اسے صنعتی انقلاب کے بعد ہاجکنس، پروداں، تھور، ٹالسٹائی، کرپوٹکن، جون ایلیا اور باکونن نے نئی جہت دی۔ فی زمانہ امریکی مفکر نوم چومسکی ، پرنس پیٹر کروپیٹکن، ایملا گولڈ مین، والٹر اسٹیمن ، بھگت سنگھ، اشفاق حسین، دلا بھٹی، ہوچی منہ، ولیم کولن ،کاسترو۔ چی گورا اور لاطینی امریکہ کی کئی تحریکیں نراجیت پسند ہیں۔ یوں بھی کہا جاسکتا ہے۔ دور حاضر کی سب سے موثر نراجیت پسند تحریک ” زپاتا{ Zapatista } کہلاتی ہے اور اس کا قائد سب کماندنٹ مارکوس {Sub Commandant Marcos} تھےے۔ یہ تحریک میکسیکوکی طاقتور اور متحرک نراجی انقالبی تحریک تھی اور اس ہی تحریک کے متاثرین نے ہمسایہ ریاست نکاراگوائے میں امریکی استعمار مخالفت کی اور اس نراجی تحریک ” سانستہ”{ Sandanista } نے امریکہ کو شکست دی۔ نراجیت (Anarchism)ایک سرمایہ دارانہ نظریہ ہے جو انیسویں صدی کے اوائل میں ظہور پذیر ہوا اور آج پھر ایک تحریک اور ایک فکر کے طور پر اہمیت اختیار کررہا ہے۔ اس طرز فکر کی ابتدا ایک انگریز کالونیسٹ { Calvanist } پادری نے کی جن کے نام ولیم گولڈنگ{ William Godwin} تھے، جو ١٧٥٦ء سے ١٨٣٦ء تک زندہ رہے۔ لیکن انگلستان میں یہ فکر کبھی مقبول نہ ہوسکی۔ نراجیت/ Anarchism کے اہم ترین مفکرین فرانس اور روس میں پیدا ہوئے اور انیسویں اور بیسیوں صدی کے اوائل میں ان دونوں ممالک اور اسپین میں نراجیت ایک طاقتور تحریک کے طور پر ابھری۔ دور حاضر میں یہ تحریک امریکا، یوکرین، میکسیکو بولیویا اور چین میں پھل پھول رہی ہے۔مسلم ممالک میں ایران اور تیونس اس تحریک سے خاصے متاثر نظر آتے ہیں۔ دورِ حاضر کی انارکسٹ تحریکیں، تحریک نسواں، ماحولیاتی تحریک ,عالمی امن کی تحریک Anti Nuclear and Peace Movements , اغلام بازوں کی تحریک وغیرہ۔ آزادی کو فروغ دینے کی تحریکیں ہیں لہٰذا وہ لازماً عالمی سرمایہ دارانہ نظام کو مستحکم کرنے والی تحریکیں ہیں، یہ سب اسلام دشمن تحریکیں اسلام بندگی اور عبودیت کی بنیاد پر اپنا نظامِ زندگی استوار کرنا چاہتا ہے۔ دورِ حاضر میں یہ انارکسٹ تحریکیں عرب دنیا میں ایک بڑے خطرہ کے طور پر ابھر کر سامنے آئی ہیں۔ تیونس مراکش، لیبیا اور مصر میں 2011ء سے آنے والی عوامی تحریکات حصولِ آزادی کی تحریکات ہیں اورنئی معاشرتی تحریک { New Social Movements }کے بہت سے مطالبات کو ان تحریکات نے اپنالیا ہے۔ عرب بہار (Arab Spring) کا معاشرتی اظہار اسلامی نہیں، اس کا سب سے اہم ثبوت تحریر اسکوائر (Tahrir Square) میںبروئے کار آنے والی معاشرت ہے جہاں ہم اسلامی فضا قائم کرنے میں ناکام رہے اور فسق و فجور کے طوفان بدتمیزی کا سیلاب شرع کی بیشتر حدود کو پامال کرگیا۔ جو فی الحال گرمگو ہیں۔ نراجیت پسندی کے لیے کہا جاتا ہے کہ یہ انتشار پسندی کا نظریہ ہے لیکن اس انتشار میں معاشرتی اور سیاسی سطح پر ظلم و جبر کے خلاف مزاحمت کا پیچیدہ نظام پھیلا ہوا ہوتا ہے۔ نراجیت ایک نظام ہے اور کسی حد تک تاریخی رجعت پسندی ، طاقت اور استبدادی اقتدار کے خلاف ایک بڑی { میکرو} معاشرتی تبدیلی چاحتی ہیں۔ جس مین معاشرتی ہیئت تشکیک کا شکار ہو جاتی ہیں کیونکہ اقتدار اپنے اختیارات کا سفّا کانہ اور غیر قانونی طور پر استعمال کرتے ہیں۔ جس میں اخلاقیات کو گلی طور پر مسترد کردیا جاتا ہے۔ جس کا سیاق اقداری سطح پر ” تجریدی ” اور کبھی مھملیت سے عبارت ہوتا ہے مگر تاریخی تناظر میں یساریت پسندی مزاحمت پسند انقلابی ہونے کی بڑتی تبدیلی ، تخلیق اور تشکیل سازی میں ناکام رہی ہے۔ بائین بازو میں نراجیت پسندی میں انتہا پسندی اور حکمت عملی کی تنقید ملتی ہے۔ مگر وہ تاریخ کے جبر سے آزاد نہیں ہوتی۔ معاشرتی یا ساختیاتی حوالے سے دیکھا جائے نراجیت کا عمرانیاتی سیاق میں ہم عصر سماجی، ثقافتی اور ادبی ناقدیں کے یہاں نئی نراجیت کی شکل میں سامنے آتی ہے۔ جس میں حکیم بے {HAKIM BAY} ٹوٹ مے {TODD MAY} رچیرڈ ڈے {RICHARD DAY } اور اندرو کوچ {ANDREW KOCH} کے نام نمایاں ہیں۔ جس میں تمام نظریاتی فضا “مابعد جدید” کی شناخت کی وساطت سے سامنے آئی۔ اس نئے نظرئیے کو پیش کرن والوں مثل فوکو، جل ڈیورڈ، اور فیلکس گاتیری کے نام ابھر کر سامنے آئے۔ خاص طور پر رچیرڈ ڈے نے ان مروجہ ساختیاتی نراجی نظریات کی معاشرتی تحریکوں پر نظر ثانی پر زور دیا۔ اس کے بعد اس موضوع پر انھوں نے جو کچھ لکھا وہ کاصا ” تجریدی” ہے اور اس جس کی ہیئت عملی سیاسی نراجی نوعیت کی ہے۔ اس زمانے میں ان موضوعات پر مثل فوکو نے سوچ بچار شروع کیا۔ انھوں نے اقتدار اور اخلاقیات کو مختلف زاوئیوں سے اقتدار کے تناظر کو سنجیدگی کے ساتھ اور علیحدہ علیحدہ کرتے ہوئے تجزیہ کیا۔ جس میں تعلقات ، قوانین اور جبر کا غلبہ کم سے کم ہوجاتا ہے۔ مگر قوت برقرار رہتا ہے۔ لیکن ساتھ ہی یہ سوال بھی بھی کیا کہ “قوت” کی یہ کونسی قسم ہوگی؟ فوکو نے ” آزادی اور ریاست کے غلبے”، کو ایک دوسرے سے علیحدہ کرکے دیکھا۔ جو نراجیت پسند گسٹالت لینڈروز اور روڈلف راکر کے تصوارات سے مختلف ہے۔ آزادی میں قوت کے انسکلات اس کو جاری و ساری { زندہ} رکھنے کے لیے ہر وقت سرگرم رہتی ہے۔ جو گہاگہمی کا سبب ہوتا ہے۔ اور اس میں رخنے بھی ڈالتا ہے جو ایک زنجیر کی صورت میں ایک دوسرے باھم ہوتا ہے۔ یہ ایک قسم کی ” حکومتی تکنیک” ہوتی ہے۔ اس سے ایک ” مردہ اقتدار” برآمد ہوتا ہے۔ اس کے بعد علاقائی اور مقامی نراجیت سامنے آتی ہے اور یہی نراجیت کا سبب بنتی ہے اور اسے پھیلا بھی دیتی ہے۔
بنیادی طور پر نراجیت کا فلسفہ روایتی طور پر سیاسی فلسفے کا حصہ ہے۔ جو چار/4 قسم کے استبدار ۔۔۔1۔ بادشاہت ۔۔۔۔2۔ اشرافیہ ۔۔۔۔3۔ نقلی جمہوریت ۔۔۔۔ 4۔ ملائیت ۔۔۔۔ کے اقتدار کی صورت میں سامنے آتا ہے جو مخلوط ” قسم کے ” ری پبلک ” تصوارات کے کلیدی عناصر ہوتے ہیں۔ یہ ایک مشترکہ ” نکتہ” بھی ہوتا ہے۔ جس میں اقتدار کی حرکیات سّج دھج کے ساتھ ایک التباس کے شکل میں آکر “اچھی زندگی” کا جھانسہ دیتی ہے۔ جو اصل میں ایک ” مریضانہ” مظہر ہے۔ جس میں ” اولیگارکی” {OLIGARCHI} کا زہر بھرا ہوتا ہے۔ اور اس معاشرتی اور اقتداری مرض اور نشے کو شناخت بھی کرتا ہے۔ مابعد جدیدت میں یہ موضوعات ایک سیاسی علمیات کے نظرئیے کے تحت ملتے ہیں۔ جو لبرل ازم اور مارکسزم میں سب سے زیادہ شدت کے ساتھ محسوس کئے جاسکتے ہیں۔ جس کو مابعد ساختیات شدت کے ساتھ مسترد کردیتی ہے لیکن اسے ” ارتقا” میں ادراک میں لایا جاسکتا ہے۔ جہاں وہ اصل میں کھڑا ہے اور اس روایت کو کمال ہوشیاری سے ” تیسری راہ” کو نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ یہ اصل میں نراجیت کا سیاسی نظریہ ہے۔ لیکن کلاسیکی نراجیت پسندی کی ایک مثال بالشویک روسی انقلاب {1914۔1921} کو بھی کہا جاتا ہے۔ نراجیت پسند ، اسٹبلشمنٹ اور تمام معاشرتی اداروں کے بھی مخالف ہیں جوخود غرضی اور نفس پرستی کی تحدید کرتے ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ بیشتر نراجیت پسند ملحد کافر ہوتے ہیں، کیوں کہ ان کی رائے میں خدا اور مذہب نفس پرستی کو رد کرتے ہیں ۔کچھ نراجیت پسندون مثلا روسی فکشن نگار اور دانشور ٹالسٹائی { Tolstoy }اور کسی حد تک وجودی فلسفی { Kirkegard } نے عیسائیت کی نفس پرستانہ تعبیر بھی پیش کی ہیں اور بیسیویں صدی کے ایرانی مفکر علی شریعتی نے ان مفکرین کی پیروی کرتے ہوئے الوہیت الناس کا تصور پیش کیا ہے (لیکن شریعتی نراجیت پسند نہیں تھے ان کی فکر اشتراکی اور اسلامی تصورات کا ایک ملغوبہ تھی) علامہ اقبال کے تصور خودی میں بھی الوہیت الناس کی جھلکیاں ملتی ہیں۔جیسے علام اقبال کے یہا ں تشدر پسند نراجیت کے تصورات ملتے ہیں جیسے۔۔۔ مومن ہوتو لڑتا ہے بے تیخ سپاہی ۔۔۔۔۔ یا جوش ملیح آبادی بکنگم محل پر ان کی جانب سے “بم ” پھیکنے کے لیے اکساتے ہیں۔ نراجیت کا تعلق معاشرے کے طریقہ عمل اور حرکیات کے عمرانیاتی تصور ” تعارض، تصادم اور ٹکراو”جڑا ہوا ہے۔ جس میں شدت ہوتی ہے اور نفی دانش کے عمل سے گذر کا یہ منفی مثبت یا رجائیت یا قنوطیت کے روپ میں نظر آتا ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply