فوک دانش کے نقوش ہائے دوام رسو ل حمزہ توف کی کتاب”میرا داغستان“
”آنکھ کھلتے ہی بستر سے اس طرح اٹھ کر نہ بھاگو جیسے کسی چیز نے تمہیں ڈنک مار دیا ہو سب سے پہلے اس خواب کے بارے میں سوچو جو تم نے دیکھا ہے“
”میرے راستے ہمیشہ ہموار نہیں رہے ہیں میرے روز و شب ہمیشہ آسانی سے نہیں گزرے ہیں میرے ہم عصر‘ تیری طرح میری زندگی بھی اس صدی کے وسط میں‘دنیاکے قلب میں بڑے بڑے واقعا ت کی گردش میں بسر ہوئی ہے ہر سانحہ ادیب کے دل کو د ہلا دیتا ہے غم ناک اور خوش کن واقعات کوفنکار سے کترا کرنہ گزرنا چاہیے وہ برف پر نہیں پتھر پر نقش ہوتے ہیں اور میں زمانہ حال کے بارے میں اپنے سارے مشاہدات اور مستقبل کے بارے میں خیالات جمع کرکے تیرے پاس آتا ہوں اور تیر ے دروازے پر دستک دے کر کہتا ہوں میرے اچھے دوست‘ یہ میں ہوں مجھے اندر آ نے کی اجازت دو“
” ایک اچھی کتاب کا آغاز بھی اسی طر ح ہونا چاہے طویل اور اکتا دینے والے دیباچوں کے بغیر اگر آپ کسی سانڈ کی سینگیں پکڑنے میں اس وقت کامیا ب نہ ہوں سکیں جب وہ جست لگاتا آپ کے پہلو سے گزر رہا ہو تو آپ کے لئے دم پکڑ کر اسے روک لینا نا ممکن ہوگا“
ایک فنکار زندگی کے بارے میں دو طرح کے خیالات رکھتا ہے ایسی زندگی جس کے سماجی مقتضیات اور خارجی حقائق اس کی ذات سے ہم آہنگ ہو ں اور وہ فطرت کی نمائندگی مادی اصولوں کے تحت کرے یا پھر ایسی زندگی جس کے تحت وہ خارجی عوامل اور سنگلاخ حقائق کی دنیا سے فرار حاصل کرکے خود کی اپنی ایک”جنت“ تخلیق کرلے،انسانی زندگی بحثیت مجموعی ان دونوں صورتوں کے متوازن امتزاج کا نام ہے لیکن بعض صورتوں میں یہ توازن برقرار نہیں رہتا، مثلا مشینی اور کمپیوٹر کے اس دور میں فرد کی حثیت خارجی حوالے (مادی) سے محض مشین کے ایک پرزے کی سی ہے یا پھر باطنی حوالے سے اگر کوئی انسان محض اپنی ذات میں گم ہو کر رہ جائے (پاگل پن)یہ دونوں صورتیں زندگی کی نمود اور بقا کیلئے مہلک ہیں۔ تبھی تیسری صورت کا ظہور ہوتا ہے یعنی انسان مادی ہونے کے باوجود آکسیجن لینے کیلئے تخلیاتی اور تصوراتی جہان حیرت کا سہار لے کر خواب دیکھے۔ لیکن اس کے خواب کا تعلق اور جڑت کہیں نہ کہیں سے آفاقی شعور اور فوک دانش کے اس سوتے سے ہو جو ہزارہا سالہ انسانی تہذیب اور دانش کو اپنے اندر ضم کئے وقت کے پہلو میں ہمیشہ سے بہتا چلاآ رہا ہے اور اس میں اہل عقل و دانش نے ہمیشہ اپنا اپنا حصہ ڈالا ہے۔ دھارے سے جڑے ایسے خوابیدہ اور لافانی شعور رکھنے والے انسان جن کی پہچان اپنے کام سے عشق کی حد تک وابستگی ہے ہر دور اور زمین کے ہر خطے اور قوم میں پیدا ہوتے آئے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جو ہر پل زندگی کے کسی نئے رخ یا گوشے پر اپنے مقصد‘ عقیدے اور فن سے عاشقانہ لگاؤ سچی وابستگی اور شبانہ روز محنت کے باعث اثرات چھوڑتے آ رہے ہیں اور یوں وہ ایک طرح سے تہذیب انسانی کے اس لا متناہی سفر میں اپنے ہونے کا جواز فراہم کرتے ہیں اور ان کے کام کو وقت کی گرد کبھی بھی دھندلا نہیں پاتی اور ان کا انفرادی انداز سے سوچنا‘ ایک طرح سے تقلیدی سوچ پرضرب کاری ثا بت ہوتا ہے اور انسانی تخلیق اور ترقی کا ایک نیا در وا ہوتا ہے۔ مجھے ”میرا داغستان“ جیسی ادبی تخلیق سے یہاں ایسے ہی انفرادی نقش ہائے دوام تلاش کرنا ہیں لیکن اس سے پہلے تخلیق کار کے تعارف میں چند جملے لکھنا چاہوں گا۔
داغستان کے پہاڑوں کے قلب میں موجود وسیع میدانوں میں سدا نامی ایک گاؤں واقع ہے جس کا ایک گھر پڑوسی گھروں سے ظاہری صورت میں کسی طرح بھی مختلف نہیں لیکن اس چھوٹے سے داغستانی گھر سے‘ اس چھوٹے سے پہاڑی آشیانے سے پرواز کرکے دو شاعرانہ نام دنیا کی وسعتوں میں پھیل گئے ان میں پہلا داغستان کے عوامی شاعر” حمزہ اسد اسا“ کا نام تھا اور دوسرا نام اس کے بیٹے ” رسول حمزہ توف“ کا تھا جو شاعر اور تخلیق کار بن کر باپ کی شہرت کی سرحدوں سے کہیں آگے نکل گیا۔ رسول حمزہ توف کی سوانح حیات ظاہر طور پر کوئی امتیازی خدوخال نہیں رکھتی وہ 1933 میں سوویت خود انتظامی ریپبلک داغستان کے سدا نامی گاؤں میں پیدا ہوئے‘ ٹیچیر بنے‘ آوارہ تھیٹر اور اخبار میں کا م کیا اب تک تقریبا چالیس کے قریب شاعری کے مجموعے اور نثر کی کتابیں چھپ چکی ہیں جو مختلف زبانوں میں ترجمہ ہو کر انکی وسیع شہرت کا باعث بنیں ہیں۔ بعد میں لینین انعام اور داغستانی عوامی شاعر کا خطاب بھی ان کے حصے میں آیا۔
راہ رو! اگر تو مری گود سے باہر نکلے بجلیاں جسم سے ٹکرائیں‘ مصائب ٹوٹیں‘ راہ رو! اگر مری آ غوش نہ ہو وجہ سکوں بجلیاں میرا سکوں‘ میرا نشیمن لوٹیں (انتساب)
فوک دانش اگرچہ ابتدائے افرینش سے انسانی ورثہ رہا ہے جس کی مثال یونانی و رومی اور مصری اساطیر اور کتبے ہیں جو انسان کے اولین ادب پارے ہیں لیکن زندہ ادب میں اس کی اہمیت ہمیشہ سے رہی ہے۔میرے خیال میں محض عصر حاضرکے خارجی اور مادی مظاہر تک محدود رہنے سے فن میں سطحیت پیدا ہو جاتی ہے اور ادب کی بلندی کے امکانات روشن نہیں رہتے، جب ادب میں افادیت کے سوتے خشک ہو نے لگتے ہیں اور یہ جلد یا بدیر زوال اور انحطاط کی نذر ہونے لگتا ہے تو تب ادب اپنا رشتہ روح کی کسک، وجدان اور حسیات انسانی سے وابستہ آفاقی دھارے سے جوڑ لیتا ہے جو اپنے اندر صوفیانہ استغراق اور انہماک رکھتاہے اور جس کے چور دروازے انسانی بچپن کی یاداشتوں اور جوانی اور بڑھاپے کے حاصل شدہ تجربے کی منڈھیر پر کھلتے ہیں۔”میراد اغستان“ میں وہی جوہر ہر سطح پر چمکتا دھمکتا دکھائی دیتا ہے۔ فوک دانش کی چند جملوں کی صوت مثالیں دیکھیں۔
”ا یک دن شاہ میل کے کئی مرید ایک دوسرے پر اپنی تلواروں کی دھار کا رعب ڈال رہے تھے وہ اس فولاد کی مضبوطی کی دھاک بٹھا رہے تھے جس سے تلواریں بنی تھیں اور قرآن پاک کی ان مقدس آیات کا ذکر کر رہے تھے جو ان تلواروں پر نقش تھیں ان میں سے ایک بزرگ شاہ میل کے خلیفہ حاجی مراد بھی شامل تھے انہوں نے کہا
”گھنے چنار کی ٹھنڈی چھاؤں میں بیٹھ کر تم لوگ کیا بحث کر رہے ہو صبح جب لڑائی ہوگی تب تمہاری تلواروں کے جوہر آپ ہی سامنے آجائیں گے“
”بچہ دو سال میں بولنا سیکھ جاتا ہے اور انسان ساٹھ سال کے بعد جا کر کہیں سیکھتا ہے کہ زبان کیسے بند رکھی جائے“
”جو ہتھیار صرف ایک بار ہی استعما ل ہوتا ہے اسے بھی ساری زندگی ڈھونا پڑتا ہے“
اگر ہم اس کتاب کی روح کو دریافت کر یں یا اس میں موجود ان لوازمات کو جس پر اس تخلیق کی بنیاد رکھی گئی ہے تو وہ ہے زندگی سے ادیب کی گہری وابستگی‘ انسانیت کے غم و الم‘ خوشیوں اور اس سے وابستہ انسانی مقدر کا ادراک‘ انسان دوست قدروں کاا ثبات‘ تاریکی‘ظلم اور نا انصافی پر تنقید‘ سچائی کا ساتھ‘ سماجی اور معاشی عدم توازن کے خلاف احتجاج اور ڈھیر ساری مقصدیت۔۔ حقیقت نگاری اور ادب برائے زندگی کا نثری سطح پر اظہاریہ‘ یہ سب کچھ اس خواہش کے ساتھ تخلیق کار نے نفس مضمون میں شامل کیاہے کہ اگر میں کبھی کوئی کتاب لکھوں گا تو اس میں یہ سارے جوہر بدرجہ اتم موجود ہوں گے۔ ایک عام آدمی اور اس کی روزمرہ کی زندگی کی فنی سطح پر عکاسی‘ انکشاف ذات کے عمل کی قلبی واردات کی صورت تخلیق‘ زندگی کے کرخت حقائق اور انکا شعور ادب پارے میں مجسم کرنا کسی بھی تخلیق کار کے بڑا ہونے کی دلیل ہے پھر دنیاوی کرخت حقائق سے دامن بچا کر خواب سی طلسمی فضا پیدا کرنے کا عمدہ عمل ہر ادیب کے حصے میں نہیں آتا۔یہ تخلیقی روش ایک طرح سے، انتشار، بے ترتیبی، بیماری، لا یعنیت، اور موت کی ارزانی کے خلاف ایک ردعمل بھی ہے چنانچہ فنکار اور قاری لمحاتی خوشی کیلئے ”میرا داغستان“ جیسی ہر تخلیق میں الف لیلی کی سی طلسمی فضا پا کر خود کو خوش رکھنے کی سعی کرسکتاہے وہ اس سفر کے دوران اس کرب کو بھلا نے کی کوشش کرسکتاہے جو مادی سطح پرانکی روحوں سے وابستہ ہو چکا ہے۔ اس لئے میرے خیال میں اس کتاب ”میرا داغستان“ میں وہ ساری خوبیا ں پائی جا تی ہیں جسے آپ داغستانی ادبی ورثہ کہہ سکتے ہیں انہیں جو بھی عمدہ شے‘ یہاں سے بھی ملی اسے اس تخلیق کا حصہ بنا دیا یوں یہ فن پارہ اپنے اندر ایسے متنوع رنگ سمیٹے ہوئے ہے جسے ایک ہی کتاب کی صورت اکٹھا کرنے میں سالہا سال کی مشقت درکار ہوتی ہے۔ یہ ایک طرح سے داغستان کی ادبی تاریخ یا دستاویز بھی کہلا سکتی ہے جس میں آپ کو ایک خطے کی تہذیب و ثقافت کے متنوع رنگ نظر آئیں گے۔
”سدا میں تیرے کھیتوں میں پھرتا ہوں اور صبح کی ٹھنڈی اوس میرے تھکے پیر دھوتی ہے میں پہاڑی نالے سے نہیں بلکہ اس سوتے سے وہاں منہ دھوتا ہوں جہاں سے وہ پھوٹتا ہے لوگ کہتے ہیں کہ پیاس لگے تو اس جگہ جا کر پیاس بجھاؤ جہاں چشمہ زمین سے پھوٹتا ہے لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے اور خود ابا بھی کہا کرتے تھے کہ انسان کو صرف دو صورتوں میں جھکنا چاہے‘ کسی بہتے ہوئے چشمے سے پیاس بجھا نے کے لئے یا پھر کسی شاخ پر کھلا ہوا کوئی پھول توڑنے کے لئے‘ سدا تو میرا چشمہ ہے میں تجھ پر جھکتا ہوں اور تیری رعنائیوں سے جی بھر کر اپنی پیاس بجھاتا ہوں“
رسول حمزہ توف ایک بڑی کتاب کی تخلیق کو ایک پرندے سے تشبیع دیتے ہیں اور کچھ یوں لکھتے ہیں ”پرندہ بڑا ہو تو اس میں خون کی مقدار بھی زیادہ ہوتی ہے چھوٹا ہو تو اس میں خون بھی کم ہوتا ہے۔“
”یہ بھی کہا جاتا ہے اگر رات نہ ہوتی تو صبح کی روشنی بھی وجود میں نہ آتی“
اور یہ بھی کہا جاتا ہے
”عقاب تیرا جنم کہاں ہوا“
’تنگ گھاٹیوں میں“
”وسیع و عریض آسمان پر پرواز کرنے کے لئے“
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں