پہلا میلاد النبی ﷺ/محمد وقاص رشید

چشمِ تصور پر وہ منظر اُبھرتا ہے۔ جو چشمِ حقیقی پر عیاں ہو نہیں سکتا۔ مکانِ نور ہے زمانِ ازل ہے۔ فقط وہ ہے جو اس زمان و مکان کی قید سے آزاد ہے۔ ہو کر بھی اس کا شریک کوئی نہ ہے اور یہ تو پھر وہ نایاب سماں ہے جب وہاں ہے ہی کوئی نہیں۔ وہ ہے اسکی قدرت ہے۔ بس خدا ہے۔

روئے زمین پر تخلیق کار جانتے ہیں کہ تخلیق پہلے تصور کے کینوس پر اترتی ہے پھر تخیل کے چاک پر براجمان ہوتی ہے اور پھر وہاں سے ہاتھوں کے لمس سے معرضِ وجود میں آتی ہے۔

وہ مگر ” کن فیکون” کا خدا ہے۔ اسکی قدرت کا احاطہ ممکن نہیں مگر تخلیق کی اس ترتیب کے لحاظ سے وہ خود کہتا ہے کہ “میں بہتر تدبیر کرنے والا ہوں” سو وہ لمحہ کیا ہی خیرہ کُن ہو گا جب اس قادرِ مطلق نے انسان کی تخلیق کے بارے میں تدبر کیا ہو گا ۔

اَن گِنت تخلیقات کے یکتا شہنشاہ خالق نے ان تمام مخلوقات سے اشرف و افضل حضرتِ انسان کو بنانے کا سوچا مگر ہم جانتے ہیں کہ تخلیق کار ہمیشہ اپنے شاہکار کو سوچتا ہے۔ تو پھر خدا نے انسان کی تخلیق کے ہنگام کسے سوچا ہو گا۔ اپنی تخلیق کا شاہکار !

وجدان یہ کہتا ہے کہ خدا نے سوچا ہو گا کہ ایک بچہ اس جہان میں خود تو یتیم پیدا ہومگر بڑا ہو کر جہان کے سارے یتیموں کی حقداری کی بات کرے۔ خود اپنے والد کو دیکھ نہ پائے مگر کائنات کے ہر شخص کو اپنے باپ کو دیکھنا سکھا دے۔

ماں کی آغوش میں سونے کی عمر میں چھے سالہ اس بچے کو ایک سفر میں ماں کی قبر کے پیروں کی جانب سونا پڑے مگر کائنات کے ہر بچے کو یہ ضرور بتا دے کہ خدا کی جنت ماں کے پیروں کے نیچے ہے۔

خدا نے سوچا ہو گا کہ کوئی ایسا ہو جو پتھروں سے لہو لہان ہو کر ظالموں کو نیست و نابود کرنے کی خدائی پیشکش کے جواب میں اذیت دینے والوں کے حق میں دعا کرے انکی خیر خواہی چاہے۔

خدا کے تصور میں کوئی ایسا تھا جو بیٹیوں کو زندہ درگور کرنے کے عہد میں بیٹیوں کی تعظیم یوں کرے کہ خدا محبت سے جس چادر کو پکارے وہ کائنات کی سب سے مقدس چادر بیٹیوں کے لیے زمین پر بچھا دے۔

خدا کے تخیل میں وہ ہستی تھی جو جھوٹ اور بد دیانتی کے عہد میں صادق اور امین کہلوائے اور وہ بھی ان سے جو جانی دشمن ہوں۔ جس پر ایمان نہیں لاتے یقین اسی پر رکھتے ہیں۔

خدا نے سوچا ہو گا کہ وہ ایسا ہو گا کہ خدا کی جنت کے باغوں کے پھول ننھے منے بچے اسکے گرد خوشی سے جھومتے گاتے رہیں گے جو انکے ساتھ کھیلا کرے گا۔

تصورِ خدا میں وہ منظر بھی آیا ہو گا کہ اپنے گھر بار اور علاقےسے اذیتیں دے کر بے دخل کر دی جانے والی شخصیت ایک فاتح کی حیثیت سے لوٹے گی تو اسکے بعد عام معافی سے دلوں کو فتح کرے گی کہ آج کوئی کسی سے ذاتی انتقام نہیں لے گا۔ وہ جنہوں نے خدا کے گھر میں عبادت نہ کرنے دی آج انکی عبادت گاہوں کی حفاظت دینِ خدا کرے گا۔

خدا نے دیانت کی اس رفعت کو بھی سوچا ہو گا کہ اپنے ہاتھوں سے مشقت کرنے والے نادرِ روزگار کو جب مال و دولت اور عیش و عشرت کی پیشکش کی جائے گی تو ایک ہاتھ پر چاند اور دوسرے پر سورج بھی رکھ دیا جائے تو راہِ خدا کو نہ چھوڑوں گا کے تاریخی الفاظ کے ساتھ مثال قائم کر دے گا۔

کوئی پاگل بڑھیا بھی جسے دھوپ میں کھڑا کر کے دکھڑے سنائے تو وہ سنے۔ دس برس کا خدمت گزار جسکے بارے کبھی پیشانی پر شکن لانے کا شکوہ نہ کرے۔

خدا کی مخلوق کے اسوقت کے “کمی کمین” اور زر خریدوں کے ساتھ جو کھڑا ہو تو انہیں انمول بنا دے۔

خدا اپنی ایک دستاویز انسانیت کے نام کرنا چاہے تو اسکا “خلق” پہلے سے اس کتاب کی عملی شکل ہو تاکہ خدا اس کتاب میں لکھ دے کہ میرے تصور میں آیا ہوا اعمال کا یہی نمونہ تو اسوہ حسنہ ہے، قابل تقلید وپیروی ہے۔

اور پھر خدا محبت کرنے والا خدا ہے۔ اپنے حبیب و محبوب کو نہ سوچتا تو کسے سوچتا۔

ہاں میرا وجدان میرا یقین یہ کہتا ہے کہ انسان کی تخلیق کے ہنگام اس رب العالمین نے رحمت للعالمین  ﷺ کو سوچا ہو گا۔ “کہ بعد از خدا بزرگ تُو ہی قصہ مختصر ۔

خدا نے حضرتِ انسان کو جو چشمِ تصور عطا کی اسی کی بدولت انسان دوسری مخلوقات سے افضل ہے اور جنابِ محمد الرسول اللہﷺ  اسی لیے ہم تمام انسانوں سے افضل ہیں کہ سیرت النبی ﷺ  کا اک ایک لمحہ اس تصور سے عبارت ہے جو خدا نے اپنے شاہکار کے بارے قائم کیا تھا اور جس کی تقلید کا تاقیامت انسانوں کو حکم ہے۔

اس تصور سے آقائے دو جہاں کی فکری و عملی مطابقت کا عالم یہ تھا کہ وہ اخلاق ، وہ رحمت ، وہ شفقت ، وہ محبت ، وہ متانت ، وہ دیانت ، وہ سچائی ، وہ اخلاصِ نیت ، وہ رحمدلی ، وہ اعلی ظرفی ، وہ سخاوت ، وہ نیکی ، وہ صداقت ، وہ امانت ، وہ عجزو انکسار ، وہ صلہ رحمی ، وہ عفو درگزر اور وہ بے مثل عظمت و رفعت جو خدا نے تصور کیے تھے انکی مجسم تصویر دیکھ کر زمین پر جب کوئی جانی دشمن قدموں میں بیٹھ کر لا الہ الااللہ محمد رسول اللہ کا اقرار کر لیتا تھا تو سوچیے خدا کی محبت کا عالم کیا ہوتا ہو گا۔

“ورفعنا لک ذکرک” کہ ہم نے آپکا ذکر بلند کر دیا کی سند تو حاصل ہونی ہی تھی کہ وہ ذکر تصورِ خدا میں اسی لمحے ہوا ہو گا جب خدا نے اپنے نائب کی تخلیق کا سوچا۔ میں اسی دن کو پہلا میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم مانتا ہوں جسکو زندگی بھر منایا رسالت ماب ﷺ  نے۔

آئیے سوچتے ہیں کہ وہ میلاد جو تصورِ خدا سے سیرتِ مصطفی تک محیط ہے ہمارے ہاں محض ایک دن کی رسم کیوں اور کیسے ہو گیا ؟

Advertisements
julia rana solicitors

ان پہ ڈھیروں درودوسلام ۔ ۔۔ﷺ!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply