وہی دیرینہ بیماری، وہی نامحکمی دل کی / قادر خان یوسف زئی

ہماری ناکامیوں اور تباہ حالیوں کی وجوہ تلاش کی جائیں تو اندازہ ہوگا کہ ان میں ایک وجہ ہمارا جذباتی ہونا ہے،  جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم حقائق کا سامنا کرنے سے گھبراتے ہیں اور کوئی ایسا کام جس میں جذباتی تلا طم خیز یاں اور شور انگیز یاں نہ ہوں ہماری فطرتِ  سیماب آسا کو مطمئن نہیں کر سکتا۔ ہم ایک مدت کی جذبات پرستی سے اس کے خوگر ہوچکے ہیں کہ ایک رقص ہو، ایک ہنگامہ ہو، ایک جوش ہو ایک خروش ہو، لچھے دار تقریریں ہوں، فلک بوس نعرے ہوں، سیل انگیز جلوس ہوں، زلزلہ خیز رزولیوشن ہوں، بڑی بڑی انقلاب در آغوش سکیمیں بنائی جائیں، آسمان الٹ جانے والا  منشور ہو ِ، تہلکہ مچا دینے والے عزائم و مقاصد کا اعلان ہو اور اگر اس سے بھی کام نہ چلے تو بیرونی سازش کا بیانیہ ہے، سائفر کی الف لیلوی  داستانیں، جیل بھرو تحریک کی کالیں ہوں، بس اس کے ساتھ مذہبی ٹچ ہو، خود کو با عمل اور دوسروں کی بد عملیات ثابت کرنے کیلئے انسانیت سے گرنے کا جو بھی معیار ہو، گالیاں ہوں، بہتان و بے سر و پیر کی   الزام تراشیاں ہوں، آڈیو، ویڈیو میں گوہر افشانی کرنے والے خود کو  زم زم میں نہائے ہوئے قرار دیتے ہوں، یہی معراج ِ مقاصد ہے ،یہ منتہائے جہاد ہے اور یہ سب کچھ ایک پارٹی بنا کر کیا   جائے۔ جماعت سازی اور گروہ بندی کے بغیر آپ با عمل ہونے کا کوئی ثبوت پیش نہیں کر سکتے، زندگی  کی حرارت کا متبادل  ہی پارٹی بازی ہے۔

یہ ہے ’’عمل‘‘ کا وہ تصور جو ایک عرصہ سے قوم کے ذہن میں مر قسم کیا جا رہا ہے اور جس کے ذریعے قوم کے جذبات سے بُری طرح کھیلا جا رہا ہے۔ ذرا غور کیجیے کہ اس دوران آپ کی قوم نے کس قدر جانی اور مالی قربانیاں دیں اور وہ تمام قربانیاں کس بُری طرح رائیگاں گئیں، کتنے افراد ہیں جو ان جذباتی شعلہ فشانیوں کے بے معنی ہنگاموں سے تباہ و برباد ہوچکے ہیں کتنے بچے ہیں جو ان تلا طم انگیز بے مقصد تحریکوں کی بھینٹ چڑھا دئیے گئے اور ان کا آج کوئی والی اور وارث نہیں۔ کتنی بیوائیں ہیں جو آج انہی  ہنگاموں کے صدقے اپنی چاک دامنی سے قوم کی غیرت و حمیت کا ماتم کر رہی ہیں، کتنے باپ ہیں جن کی زندگی کے سہارے ہی سیلاب انگیز یاں بہا کر، اور کتنی مائیں ہیں جن کی آنکھوں کا نور یہی برق سامانیاں اچک کر لے گئیں، کتنے گھر ہیں جن کے چراغ انہی  جھکڑوں نے بجھا دئیے اور کتنے گھر ہیں جنہیں یہی آندھیاں اکھیڑ کر لے گئیں اور ان تمام بربادیوں اور تباہیوں کا محاصل؟ فضا میں چند الفاظ سے پیدا کردہ وقتی ارتعاش اور سینوں میں چند نعروں سے ابھارا تموج۔

سوچیے کہ آپ کی بے شمار تحریکوں اور لا تعداد جماعتوں کے ’’جہاد زندگی‘‘ کی بقا اس کے سوا کچھ اور بھی ہے؟ یہ تو یوں کہنے کی  قدرت کو ان چند کروڑ مسلمانوں کو بچانا مقصود تھا جو بساط ِ سیاست کی آخری مہرہ بازی میں مملکت کی سلامتی کو بھی داؤ پر لگا نے کے باوجود کچھوے کی چال کی طرح، کم از کم زندہ اور چل تو رہا ہے۔

قوموں کے حالات ہنگامہ خیزوں اور تموج انگیز یوں سے نہیں بدلا کرتے، ان کی حالت میں کوئی تبدیلی مستقل طور پر پیدا نہیں ہوسکتی جب تک ان کے قلب و نگاہ میں تبدیلی پیدا نہ ہو۔ خارجی دنیا میں کوئی انقلاب  رونما نہیں ہو سکتا، جب تک انسان کی داخلی دنیا میں انقلاب واقع  نہ ہو جائے ۔ کسی قوم کا معاشرتی نظام صحیح خطوط پر متشکل نہیں ہوسکتاجب تک اس میں تطہیر فکر و نظر نہ ہوجائے، انسان ویسا ہی کرتا ہے جیسا سوچتا ہے۔ لہذا جب تک اس کی سوچ کی بنیادیں صحیح نہ ہوں اس کا کردار صحیح قالب میں نہیں ڈھل سکتا۔ اس کے ساتھ ہی حقیقت بھی اس کے سامنے بے نقاب ہو گئی کہ فکر و نظر میں تبدیلی پیدا کرنے کی راہ میں بڑی آہستہ خرامی اور نرم روی کی ضرورت ہے۔ اس میں سطح کی تلاطم انگیز یاں نہیں بلکہ عمیق ِ دریا کی غیر محسوس روانیاں ہیں، پھر اس میں سب سے بڑی دشواری یہ ہوتی ہے کہ جذبات پرست قوم پیش پا افتادہ مفاد کی طرف لپکنے کی خوگر ہوتی ہے او ر قلب و نظر کی تبدیلی کے آثار کہیں ایک دو نسلوں کے بعد جا کر سامنے آیا کرتے ہیں، یعنی، غالب کے الفاظ میں، عجلت پسند قوم کی تمنائے حصول ِ مقاصد بے تاب اور دل کی دنیا کا عشق آسا انقلاب، صبر طلب ہوتا ہے۔ اس لئے ہنگاموں کی عادی قوم فکر و نظر کی تبدیلی کو‘‘ عمل‘‘ میں شمار ہی نہیں کرتی افراد کی اپنی زندگی کا سوال ہی نہیں۔

سوال تو پوری کی پوری قوم میں انقلاب پیدا کرنے کا ہے اور اس کے بعد، تمام نوع انسانی میں انقلاب پیدا کرنے کا۔ یہ ایک نسل کی جدو جہد میں پیدا ہوجائے یا اس کیلئے دس نسلوں کی مسلسل جد وجہد کی ضرورت پیش آئے۔ مدت کا اس میں کوئی سوال نہیں۔ اگر اسی قسم کے انقلاب کی کوشش سو سال پہلے شروع ہوتی تو آج جو کچھ ہم دیکھنا چاہتے ہیں، ہماری آنکھوں کے سامنے ہوتا لیکن حالاتِ  حاضرہ میں جس قسم کی سیاست ہو رہی ہے اور جو وطیرہ اختیار کیا گیا ہے کہ اس عاجلانہ طریق ِکار، سر دردکیلئے اسپرین کی ٹکیہ ہے سر درد ایک منٹ میں غائب ہوجائے گا، لیکن جب اسپرین کا اثر زائل ہوگا تو پھر پہلے سے بھی دگنی شدت اور نزاکت کے ساتھ ابھرے گا اور اکابرین سیاست اسی کو مستقل حل سمجھتے رہے تو اسپرین پہلے سے بھی دگنی شدت اور نزاکت کے  ساتھ ابھرے گی اور اگر آپ اسے ہر بار اسی طرح اسپرین کے علاجلانہ علاج سے دباتے رہے تو ممکن ہے ایک دن درد کی جگہ سر سے ہی جواب مل جائے۔ عوام کا جذبات پرستی کی اسپرین سے علاج خوگر ہو رہا ہے۔ اس سے عاجلانہ فائدہ تو مل سکتا  ہے لیکن ایک طبیب حاذق کی نگاہ عاجلانہ فائدہ پر نہیں بلکہ   مرض کی علت کی اصلاح پر ہوتی ہے اور یہ اصلاح وقت بھی چاہتی ہے اور علاج میں استقامت بھی۔ اس میں ایک سر درد کے علاوہ اور درد سری بھی برداشت کرنے پڑے گی۔ لیکن جب آرام آئے گا تو ہمیشہ کیلئے مرض جاتا رہے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

وہی دیرینہ بیماری، وہی نامحکمی دل کی
علاج اس کا وہی آب ِ نشاط انگیز ہے ساقی!

Facebook Comments

قادر خان یوسفزئی
Associate Magazine Editor, Columnist, Analyst, Jahan-e-Pakistan Former Columnist and Analyst of Daily Jang, Daily Express, Nawa-e-Waqt, Nai Baat and others. UN Gold medalist IPC Peace Award 2018 United Nations Agahi Awards 2021 Winner Journalist of the year 2021 reporting on Media Ethics

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply