• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • داعش، اوریا مقبول جان اور نیم خواندہ نوجوان۔۔۔۔حمزہ ابراہیم

داعش، اوریا مقبول جان اور نیم خواندہ نوجوان۔۔۔۔حمزہ ابراہیم

اپریل 2017 میں لیاقت میڈیکل یونیورسٹی کی طالبہ اور ایک اعلی تعلیم یافتہ گھرانے سے تعلق رکھنے والی لڑکی کی لاہور سے گرفتاری کی خبر نے پورے ملک کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا ۔نورین نامی اس  سادہ لڑکی نے اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ کر ایک دہشتگرد سے شادی کر لی اور گھر والوں کو یہ پیغام بھیجا کہ وہ شام جا چکی ہے۔وہ اپنے نئے نویلے دولہا کے ساتھ بقیہ زندگی گزارنے کی بجائے لاہور میں مسیحی حضرات کی مذہبی تقریب میں دھماکہ کرنا چاہ رہی تھی کہ خفیہ اداروں کے آپریشن میں گرفتار ہو گئی۔ ایسا کیوں ہوا؟  اس سوال کا جواب جاننے کیلئے ہمیں ایسے طلبہ کے ذہنی پس منظر کو سمجھنا ہو گا  اور اس فکری آلودگی کو سنجیدگی سے لیناہو گا جس کا انہیں سامنا ہے۔

ہمارے معاشرے میں جو لکھاری حالات حاضرہ اور تاریخ سے سر و کار رکھتے ہیں، ان میں سے اکثر برصغیر کو درپیش مسائل پر لکھتے ہیں کیوں کہ ان مسائل کا ہماری زندگی سے قریبی تعلق ہے۔ ان صاحبان علم نے مشرق وسطیٰ کو کبھی ترجیحات میں نہیں رکھا ۔ اکیسویں صدی میں انفارمیشن ٹیکنالوجی نے حالات کو بدل دیا ہے۔اب مشرق وسطیٰ سے ہمارے عوام کا ذہنی تعلق اتنا ہی اہم بن گیا ہے جتنا برصغیر سے ہمارا مادی تعلق اہم ہے۔ مشرق وسطیٰ کے حالات کے بارے میں نہ لکھنے  کا نتیجہ یہ ہو گا کہ ہمارے وہ بچے جو سائنس یا معاشیات کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور جن کے پاس تاریخ  کے حقائق اور بین الاقوامی تعلقات کے بارے میں علم حاصل کرنے کا وقت نہیں ہے، وہ مذہبی تنظیموں کا آسان شکار بنیں گے۔ محض یہ کہنا کہ یہ لوگ حوروں سے جنسی اختلاط کی لالچ میں ایسا کر رہے ہیں، اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔ مسئلہ اتنا  سادہ نہیں ہے۔یہ لوگ دنیاوی لذتوں کی بجائے انسانیت اور اسلام کیلئے قربانی دینے کے نام پر یہ سب کر رہے ہیں۔ یہ تاریخ اور زمانے کے بارے میں جہل مرکب کا شکار  ہیں اور ان کو بیوقوف بنا کر استعمال کیا جا رہا ہے۔ مذہبی تنظیموں کی طرف سے روزانہ سینکڑوں صفحات پر مبنی جھوٹ سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلایا جاتا ہے۔اس سیلاب کا مقابلہ ٹھوس  حقائق کو نشر کر کے ہی کیا جا سکتا ہے۔ شام کا بحران آج کل مشرق وسطیٰ اور اسلامی دنیا کا اہم ترین موضوع ہے۔اگرچہ ہمارے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں شام کے حالات کے بارے میں زیادہ تجزیات شائع نہیں ہوتے۔لیکن جب کبھی اس حوالے سے کوئی بات سامنے آتی ہے تو وہ اکثر بی بی سی جیسے ذرائع ابلاغ کا چربہ ہوتی ہے جو مشرق وسطیٰ میں کبھی غیر جانبدار نہیں رہے۔

سچ تک رسائی انسان کا بنیادی حق ہے۔ مسلمان معاشروں میں سائنس اور معاشیات جیسے مضامین کے طلبہ کا دہشتگردی جیسی حماقت میں مبتلا ہونا تاریخی حقائق کو نہ جاننے کی وجہ سے ہے۔ ہمارے مذہب میں بھی جھوٹ کو بہت بڑا گناہ اور تمام برائیوں کی جڑ کہا گیا ہے۔ سچ تک رسائی اس لیے ضروری ہے تاکہ وہ لوگ جو صاف نیت رکھتے ہیں، محض اس وجہ سے غلط فیصلے نہ کریں کہ انھیں صورت حال کا صحیح ادراک نہیں تھا۔ اسی حق سے میڈیا اور سوشل میڈیا کی آزادی کا حق جنم لیتا ہے۔ اگر میڈیا آزاد ہو گا تو جہاں یہ ممکن ہے کہ با اثر لوگ یا طاقتیں اپنے مفادات کیلئے جھوٹ یا آدھا سچ پیش کریں، وہیں یہ بھی ممکن ہے کہ دوسرے میڈیا ذارئع سے کچھ با ضمیر افراد پورا سچ بیان کریں۔  البتہ بدقسمتی سے مفاد پرست عالمی  اسلحہ فروش کمپنیوں  اور مالیاتی اداروں کے مالکان نے میڈیا کو عوام کے ذہن سے کھیلنے اور اپنے مقاصد کیلئے راہ ہموار کرنے کا ذریعہ بنا لیا ہے۔شام کے بحران کی یہ خصوصیت ہے کہ یہ اپنے ہم عصر سیاسی بحرانوں (یمن، بحرین، یوکرین، لیبیا، آزاواد، وغیرہ) کی نسبت کہیں زیادہ کیمرے اور میڈیا کی نظروں میں ہے۔ اسکی وجہ جہاں اسکی سیاسی اہمیت ہے وہیں اس کو ملنے والا فرقہ وارانہ رنگ بھی ہے۔

آجکل   اوریا مقبول جان جیسوں کی طرف سے  آخری زمانے کے حوالے سے پائی جانے والی احادیث  کو زمانہ حاضر پر اپنے گروہی مفادات کے مطابق چپکایا  جا رہا ہے۔  قرآن کے مطابق جو لوگ   متسثابہات  کی تفسیر محکمات کی روشنی میں نہیں کرتے ،  انکی نیتوں میں بیماری ہوتی ہے۔چنانچہ سوره آل عمرا ن کی آیت نمبر 7 میں ارشاد ہوتا ہے: ۔
ترجمہ : ”الله وہی ہے جس نے تجھ پر کتاب اتاری اُس میں بعض آیتیں محکم ہیں (جن کے معنیٰ واضح ہیں) وہ کتاب کی اصل ہیں اور بعض آیتیں متسثابہ ہیں (جن میں جنت، جہنم اور مستقبل کے معاملات کے بیان کیلئے تشبیہات کا استعمال ہوا ہے) ۔ سو جن لوگو ں کی نیت ٹیڑھی ہو وہ فتنہ پھیلانے اور خود ساختہ مطلب نکالنے کی غرض سے متسثابہات کے پیچھے لگتے ہیں۔ حالانکہ اللہ کےعلاوہ اور کوئی ان متسثابہ آیات کے مفہوم سے پوری طرح واقف نہیں اور وہ جو علم میں راسخ ہیں وہ کہتے ہیں ہمارا ان سب چیزوں پر ایمان ہے جو ہمارے رب کی طرف سے ہیں، اور یہ بات سوائے صاحبانِ عقل کے کوئی نہیں سمجھ سکتا ہے ”۔
حضرت ابوامامہ ؓ راوی ہیں کہ آیت مذکورہ (فَأَمَّا الَّذِينَ في قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ) کی تفسیر میں رسول کریم ﷺ نے فرمایا :’’ ان ٹیڑھی نیتوں والوں سے مراد خوارج ہے” (حوالہ: امام ابن ابی حاتم رازی، تفسیر القرآن العظیم ۲۔۵۹۴)۔ حافظ ابن کثیر نے بھی اس آیت کی تفسیر میں جو حدیث بیان کی اس میں فرمان رسولﷺ کے مطابق اہل زیغ سے مراد ’’خوارج ‘‘ ہیں (حوالہ : ابن کثیر ۔ تفسیر القرآن العظیم ۔ ۱: ۳۴۷)۔ امام خازن نے اس آیت کی تفسیر میں ابوامامہ (رض )سے دیگر احادیث بھی نقل کرتے ہیں، اور امام حسن بصری رض اور حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ سے بھی اہل زیغ سے مراد فرمان رسول ﷺ کے مطابق ’’خوارج ‘‘ ہی بیان کرتے ہیں (حوالہ : خازن : لباب التاویل۔ ۱: ۲۱۷)۔ امام سیوطی رح نے بھی اہل زیغ سے مراد ’’خوارج ‘‘ لیے ہیں (حوالہ: سیوطی ۔ الدرالمنثور، ۲: ۱۴۸)۔

آخری زمانے کے بارے میں آنے والی احادیث میں  تشبیہات استعمال ہوئی ہیں کیونکہ مستقبل کی واضح منظر کشی  کبھی بھی  ممکن  نہیں ہوتی۔   ان تشبیہات کے صحیح مصادیق کا تعین محکم حقائق اور  فلسطین  و لبنان کی آزادی کی جدوجہد جیسے واضح مسائل کے بارے میں   موجود محکم قرانی احکامات(مثلا سوره الحج، آیت 40) کو مد نظر رکھے بغیر ممکن نہیں۔

ہمارے معاشرے کےڈاکٹر اسرار اور اوریا مقبول جان جیسے   لکھاری  عالم اسلام میں لمبے عرصے سے جاری تنازعات کے بارے میں سیاسی اور تاریخی حقائق کو سامنے لانے کے بجائے اپنے تخیل کی مدد سے ایسا منظر نامہ تشکیل  دینے کی کوشش کرتے رہے ہیں جو ان کے تعصبات و میلانات سے ہم آہنگ ہو۔ جس وقت داعش عراق میں فرقہ وارانہ قتل و غارت کر رہی تھی اس وقت یہ لوگ کالے جھنڈوں والی احادیث سنا کر ان کو داعش پر لاگو کر رہے تھے۔ یہ سلسلہ تب رکا جب داعش نے مغربی ممالک میں بھی اپنی بربریت کو منتقل کرنا شروع کیا۔ اس سے پہلے یہی لوگ خراسان نامی ایرانی صوبے کے بارے میں ملنے والی احادیث کو  قندھار اور جنوبی پنجاب پر منطبق کرتے رہے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہر تیسرے طالبان امیر نے اپنے نام کے ساتھ خراسانی لگا رکھا ہے۔ حالانکہ ان میں سے اکثر احادیث عباسی سلطنت کے مفاد کیلئے استعمال ہو چکی ہیں، انہوں نے امام حسن کے پوتے حضرت محمد ابن عبداللہ (نفس ذکیہ) کو مہدی قرار دے کر خراسان سے کالے جھنڈے والے ابو مسلم خراسانی کے لشکر کے بل بوتے پر حکومت حاصل کی تھی- طالبان کے بارے میں ان کی پیش گوئیوں کا سلسلہ اس وقت رکا جب ان لوگوں نے آرمی پبلک اسکول میں معصوم بچوں کے خون سے ہولی کھیلی اور عوام کا ضمیر لرز کر رہ گیا۔

شام کے بحران کے حوالے سے اپنے تعصبات کے زیر اثر آ کر جو جھوٹ اور نفرت پاکستان میں پھیلائی جا رہی ہے اس کا شام کی خانہ جنگی پر تو کوئی قابل ذکر اثر نہیں پڑے گا لیکن یہاں کے معصوم بچوں کے ذہن ضرور گمراہ ہوں گے۔ وہ اپنے ملک میں رہنے والے دوسرے مسالک و مذاھب کے لوگوں کے بارے میں تعصب اور غلط فہمیوں کا شکار ہو جائیں گے۔ اعلیٰ تعلیمی اداروں کے  مذہبی طلبہ میں دہشتگردی کی طرف  رجحان  کی وجہ پاکستانی میڈیا اور سوشل میڈیا پر خارجی تنظیموں کی  پردہ پوشی ہے۔

اس نکتے کی مزید وضاحت کیلئے ایک مثال عرض ہے: اگر کربلا کے واقعے  میں کسی نے یزید کو بے گناہ ثابت کرنا ہے تو اس کو کربلا سے پہلے اور اس  کے بعد کےواقعات  کو چھپانا پڑے گا۔ اگر کربلا کو تاریخی سیاق و سباق میں رکھ کر دیکھا جائے تو  سچ پر پردہ ڈالنا ممکن نہیں رہتا۔کربلا سے پہلے یزید کا مدینہ کے گورنر کو خط اور  نواسۂ رسول ؐ کا بیعت سے انکار۔مصر سے آزار بائیجان اور ترکی سے یمن تک پھیلی امت مسلمہ  کا یزید کی بیعت کر لینا اور صرف کوفہ کی شیعہ اقلیت  کا امام کی حمایت کا وعدہ کرنا۔   امام عالی مقام کا کوفہ والوں کی بزدلی سے واقف ہونا اور مکہ میں کئی ماہ قیام کر کے امت کے سرکردہ افراد سے رابطے کرنا اور انھیں خاموش رہنے سے روکنا۔مکہ سے کوفہ کی طرف ہجرت اور کوفہ والوں  کے قید یا خوفزدہ ہو کر مدد نہ کر سکنے  کے باوجود آپ کا بیعت سے انکار، آپ کی شہادت کے بعد یزید کا مدینہ میں حرہ کا قتل عام،  اور بعد میں مکہ پر لشکر کشی۔یہ سب حقائق اکٹھے ہو کر ہی کربلا کی صحیح تصویر کو سامنے لاتے ہیں؟

تاریخ قوم کا حافظہ ہوتی ہے۔جو قوم تاریخ کو اہمیت نہ دے اس کی مثال ایسے شخص کی ہے جو اپنی یاداشت کھو بیٹھا ہو۔اس کو بیوقوف بنانا آسان ہو جاتا ہے۔ شام کے حوالے سے جو احادیث آئی  ہیں ان کی روشنی میں حق کا ساتھ دینے کا فیصلہ  کرنے کے لیے شام میں موجود فریقین کی تاریخ کو جاننا ہو گا۔ کیا شامی فوج حق کا لشکر ہے  یا القاعدہ؟ احادیث  میں کسی کا نام نہیں ملے گا۔  لہٰذا ان احادیث کے مصادیق  کا تعین محکم حقائق  کو  سامنے رکھے بغیر ممکن نہیں۔داعش میں کئی انجنیئرز اور ڈاکٹرز شامل ہیں۔ ہم آج تک یہی سنتے آئے ہیں کہ مسلمان معاشروں کی پسماندگی کی وجہ سائنس سے دوری ہے لیکن اس طرح ہم دوسرے علوم کی نسبت غفلت برتتے رہے ہیں۔ جہاں معاشرے کی مادی ضرورتوں کو سائنس نے پورا کیا ہے وہاں معاشرے کے رخ کو متعین کرنے میں تاریخ کے صحیح شعور کی کمی نے ہم سے بہت غلطیاں کروائی ہیں۔ ہم نے بہترین ڈاکٹر، انجنیئر اور سائنس دان تو پیدا کئے ہیں لیکن عالمی معیار کے  تاریخ دان پیدا نہیں کئے۔تاریخ کی تعلیم اور اس کا تجزیہ ہی ہمیں اپنےسے پہلے گزرنے والے انسانوں کے تجربات سے سیکھنے اور ان کی غلطیاں نہ دھرانے کے قابل بناتا ہے۔ فلسفے کی ایک تعریف یہ ہے کہ فلسفہ تاریخ کو سمجھنے کا علم ہے۔ تاریخ سے نابلد انسان دراصل ذہنی طور پر ما قبل از تاریخ زمانے میں رہتا ہے۔ ایسے انسان کیلئے جدید سائنس سے آشنائی صرف نئے اوزار اور نیا لباس فراہم کرنے کے کام آتی ہے۔ وہ وحشی انسانوں کی طرح لڑتا جھگڑتا، خوف اور لالچ کی دیواروں کے بیچ قید رہتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہمارے بچوں کو  نہ سکول کے زمانے میں   دنیا کی جدید تاریخ کا تعارف کروایا جاتا ہے نہ میڈیا پر  جدید تاریخ سے  آگاہی کا کوئی سلسلہ میسر ہے۔  دینی مدارس   میں حالات بد تر ہیں ۔مذہبی تنظیموں کے مبلغ تعلیمی اداروں میں کینسر کی طرح پھیلے ہوئے ہیں۔ ان لوگوں نے ان نظریات میں بہت کچھ خرچ کیا ہے،اپنا وقت، اپنی امیدیں، اپنا مستقبل۔ ان کے لئے تاریخ کا سامنا کرنا ایک نہایت خوفناک تجربہ ہے، ان کے خوابوں کا شیش محل پاش پاش ہو سکتا ہے۔ ان کے نظریات تاریخ کی تجربہ گاہ میں پہلے سے رد ہو چکے ہیں۔ وہ تاریخ کا علم حاصل کرنے سے ان حسین خوابوں کو کھو دینے کا خطرہ مول نہیں لے سکتے جنہیں وہ اپنی زندگی کا مقصد سمجھتے ہیں۔ ان لوگوں میں اتنی جرات نہیں ہے کہ اتنے بڑے نفسیاتی بحران کا سامنا کر سکیں۔ یہ لوگ تاریخ کے علم کے خلاف سائنس سے  بھی زیادہ مزاحمت کرتے ہیں۔ اگرچہ اپنے نظریات کیلئے چیدہ چیدہ مثالیں اور جواز بھی  تاریخ سے ہی ڈھونڈ کر لاتے ہیں۔ یہ لوگ تعلیمی اداروں میں حقائق کے منافی تبلیغ کر کے سائنس اور معاشیات جیسے مضامین کے طلبہ کو غیر حقیقی جنت کی طرف راغب کرتے ہیں جس کی حقیقت جیل کی کال کوٹھڑی میں جا کر ہی پوری طرح آشکار ہوتی ہے۔ جو لوگ  تاریخ کی درسگاہ میں نہیں آتے وہ لوگ ہمیشہ کے لئے ناکام اور گمنام ہو جاتے ہیں۔ ان کے نظریات انہی عملی مشکلات کا شکار ہوتے ہیں جن کی تاریخ کی تجربہ گاہ نے پیش گوئی کی تھی۔

Facebook Comments

حمزہ ابراہیم
ادائے خاص سے غالبؔ ہوا ہے نکتہ سرا § صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کے لیے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply