وہی زمین ، وہی آسمان، تو پھر سرحدیں کیسی ؟۔۔۔۔نذر محمد چوہان

آج پھر صبح صبح ایک کام کی وجہ سے مین ہیٹن آنا پڑا ۔ نیویارک یونیورسٹی ڈینٹل کالج کے ملحقہ اسٹار بکس میں بیٹھا ہوں ۔ مین ہیٹن ہمیشہ مجھے کسی بھی ریاست کا حصہ نہیں لگتا ۔ پوری دنیا کی آماجگاہ ۔ سیاحوں کا مکہ ، علم و ادب والوں کی جنت اور ڈرامہ اور میوزک کا ایک رنگین ساز ۔
آج میں بہت ساری چیزوں کا سوچ کر بہت غمگین ہوا۔ لندن سے شائع ہونے والے بہت ہی مشہور جریدے اکنامسٹ کی obituaries کی لکھاری ، این رو ، نے Brexit پر ایک زبردست جملہ داغا جس نے میرا دل چھُو لیا ۔ این نے کیا ہی زبردست Brexit کی obituary ، تحریر کی ، فرط بھرے جذبات سے بھرپور ، کیا ہی انوکھا انداز کرب کا ، انسانی احساسات کے قتل کا اندوہناک بیانیہ ۔ آج سے دو سال پہلے جب یہ سانحہ پیش آیا تو این نے اس دن کو اس تاریخ اور اس لمحہ کو ٹارگٹ کیا ۔ کیا ہی زبردست واٹر چینل کا نقشہ کھینچا جو برطانیہ کو یوروپین یونین سے ملاتا ہے ۔ یہ ۶۰ میل لمبے پانی جو برطانیہ کی کاؤنٹی سسیکس سے شروع ہوتے ہیں اور کونٹی نینٹل یورپ کو ملاتے ہیں ان پر این رو نے اس دن کے ریفرینڈم کے حوالے سے لکھا ؛
“One side willingly, even enthusiastically, decided to cut itself off; even though it sailed the same water and breathed the same air”
کیا ظلم ہے ، کیا انتہا کی غیر انسانیت ہے ۔ کیا ہم سب آدم کی اولاد نہیں ہیں ؟ کیا  ہم میں سے کچھ بہتر ہیں اور کچھ کمتر ؟ کیا ابھی بھی صدیوں پرانا caste system چل رہا ہے ؟ صرف ruling elite انسان اور ہم اچھوت ؟ کیا ہمارے سانسوں کا مالک اب ایک خدا نہیں رہا ؟ کیا ساری کائنات اور ہم اب ایک نہیں ؟
کل پاکستان کی سپریم کورٹ نے فیض آباد دھرنا پر ایک بہت زبردست فیصلہ دیا ۔ گو کہ فیصلے  میں جج قاضی فائض عسی کا اپنے دوست نواز شریف کی وجہ سے پاک فوج کے خلاف بُغض ضرور شامل تھا لیکن پھر بھی کچھ بنیادی اصولوں کو فیصلہ میں آئینی اداروں پر واضح کرنا انتہائی  قابل تعریف ۔ یہ فیصلہ میرے نزدیک بہت دور است نتائج کا حامل ہو گا ۔ موجودہ چیف جسٹس بھی انہی لائنوں پر سوچتا ہے اور missing person کا کوئی  مستقل حل تلاش کر رہا ہے۔
میرا پاکستان سے بہت پیار رہا ہے اور اس کی فوج سے تو بہت ہی شدید محبت ، لیکن اس کے چند جرنیلوں سے انتہا کا اختلاف ۔ میں نے ۲۰۱۳ میں بلوچستان سے یوروپین یونین کی ایک تنظیم کے لیے الیکشن کور کیے تھے ۔ سب سے زیادہ دُکھ اس بات کا ہوا کہ  بلوچستان علیحدگی پسند تنظیموں کے خلاف آپریشن کسی طرح سے بھی transparent نہیں تھا ۔ یہی دُکھ مجھے کراچی میں ہوتا تھا اور چوہدری اسلم کو میں اکثر کہتا تھا تم ایک نہ ایک دن قتل کر دیے جاؤ گے ۔ یہی کام راؤ انوار کرتا تھا اور فاٹا کے بیشتر فوجی ایجنٹ ۔ میں سبین کے ساتھ ملکر احتجاج کرتا تھا ، سبین کو قتل کر دیا گیا ، کیا اس سے کراچی میں امن آ گیا ؟ سبین تو آج بھی زندہ ہے ، اس کی تحریک اس کے مرنے سے ختم نہیں ہوئی  بلکہ اور زیادہ مضبوط  ہوئی ہے ۔
معاملہ بہت سادہ ہے ، جب آپ کرائے پر لوگ لاتے ہیں اپنوں کو ہی قتل کرنے کے لیے تو پھر وہ آپ کے ٹٹو نہ صرف اپنے  ذتی دشمنوں کو بھی ماریں گے بلکہ لوگوں کی جائیدادیں بھی ہتھیائیں گے ، بھتہ خوری میں بھی ملوث ہوں گے اور ظلم و ستم کی بھی انتہا برپا کر دیں گے ۔ ماروائے آئین قتل ریاستوں کی تباہی اور بربادی کا سبب بنتے ہیں ۔ عابد باکسر اور راؤ انوار ابھی بھی دندناتے پھر رہے ہیں کیونکہ ان کے آپریٹر ملک کے حکمران ہیں ۔ میرے لاہور ، پاکستان والے وراثتی گھر پر پچھلے دو سال سے ایک آئی  ایس آئی کی خاتون ایجنٹ نے قبضہ کیا ہوا ہے ، سر عام کہتی ہے کہ  اگر پاکستان آؤ گے تو missing person بن جاؤ گے ۔ جنرل غفور نے اس کا بیانیہ مضبوط کرنے کے لیے مجھے غداروں کی لسٹ میں ڈال دیا ۔ کیا اس جنرل غفور کی خودساختہ لسٹ کا فیصلہ بھی اب کوئی  جسٹس قاضی فائض عیسی جیسا جج کرے گا ؟ میں نے اپنے وکیل اقبال جعفری کو اس معاملہ میں بھی چارہ جوئی  کی درخواست کی ہے ۔ آدمی ان سے  ذرا یہ پوچھے کہ  میں نے ملک کے ساتھ کونسی غداری کی ہے ؟ میرا قصور کیا ہے ؟ میں نے تو اُلٹا ملک کی خاطر مصیبتیں جھیلیں ، بچوں اور فیملی کو ملک بدر ہونا پڑا ، خود کو بھی آخر کار ملک چھوڑنا پڑا ۔ ذرا میرا ۲۰ سال کا پبلک سروس کا ریکارڈ تو منگوایا جائے اور اس کو کھنگالا جائے، تا کہ پتہ لگے کہ  میں نے کیا کچھ نہیں کیا اس ماں دھرتی کے لیے ؟ میں نے اپنے وطن عزیز کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہیں کیا ، اپنی نوکری ، صحت ، زندگی اور عزت تک داؤ پر لگا دی ۔ ہاں میرا ایک قصور ضرور تھا ، میں قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتا تھا ۔ میں ruling elite کی بدمعاشیوں کا حصہ نہیں بنا ۔ کسی بھی چور ، ڈاکو اور بدمعاش کو spare نہیں کیا خواہ وہ وزیر ہو یا جرنیل ۔ نواز شریف کو ایک اس کے دوست نے میرے لیے سفارش کا کہا ، نواز نے فورا ً جواب دیا “اوہ کسے دی نئیں سُن دا” ۔ یہ چیز کوئی  پسند نہیں کرتا ، نہ فوج ، نہ عمران خان اور نہ ہی پاکستان کی اعلی عدلیہ جس نے میری جسٹس فرخ عرفان کے خلاف درخواست کو پچھلے تین سال کولڈ سٹوریج میں ڈالا ہوا ہے ۔
اسی اکانومسٹ نے لکھا کہ  عمران خان کو لانا انجنیئرڈ تھا اور پاکستان کی فوج اس کو لائی  اور یہی عمران خان اب فوج کو لڑ جائے گا ۔ کیا ہم نے اسی طرح پنگ پانگ کھیلتے رہنا ہے، ۷۱ سال ہو گئے ملک کو بنے ، کتنی دیر اور یہ سرکس چلے گا ؟ کیا ہم پوری دنیا کے لیے تماشا ہی بنیں رہیں گے ؟ میرے خیال میں اب قدرت کو ہم پر خیال آ گیا ہے اب رحم کا معاملہ ہونے لگا ہے ۔ کچھ نیک لوگوں کی دعائیں لگتا ہے سنیں گئیں ۔ پاکستان بدلے گا انشاء اللہ ۔ ایسا ہو کر رہے گا ۔ بہت ہو گئی  بدمعاشی ، نانصافیاں  اور ظلم۔ بقول غالب ؛
خیالِ مرگ کب تسکیں دلِ آزردہ کو بخشے
مرے دامِ تمنّا میں ہے اک صیدِ زبوں وہ بھی
ہم سب کو اپنے تئیں اس کی بھرپور کوشش کرنی ہوگی ، خدا نیچے نہیں اترتا ، اچھی نیتیں ، ارادے اور محنت انقلاب لاتی ہیں ۔ اللہ تعالی ہم سب کا حامی و ناصر ۔ پاکستان پائندہ باد ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply