عید ختم، سوال شروع۔ ۔۔۔گل نو خیز اختر

فرض کیا عید پر آپ نے رشتہ داروں کے بچوں کو ٹوٹل دس ہزار روپے عیدی دی۔ اور جب عید کے دن آپ کے بچے اُن کے گھر گئے تو اُنہیں بھی سارے رشتہ داروں کو ملا کر لگ بھگ دس ہزار عیدی ملی۔ برابری کے اصول کے تحت آپ کے بٹوے میں نو پرافٹ نو لاس کے مطابق پورے دس ہزار ہونے چاہئیں ‘ لیکن جب آپ حساب لگاتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ بیگم کے پاس سات ہزار آئے ہیں اور آپ کے بچوں کے پاس تین ہزار… سوال یہ ہے کہ آپ کے دس ہزار کہاں گئے؟
عید پر اکثر سسرال والے اپنے داماد اور بیٹی کو عیدی دیتے ہیں۔ عموماً سسرال کی طرف سے داماد کے لیے سوٹ ہوتا ہے اور بیٹی کے لیے سوٹ کے ساتھ ساتھ کیش بھی ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ داماد کے لیے عیدی کیش کی شکل میں کیوں نہیں آتی؟
عید پر آپ نے بڑے چائو سے نئے کپڑے سلوائے‘ رات رات بھر رش بھری مارکیٹوں میں جا کر اچھے سے جوتے خریدے۔ پھر پوری محنت سے کپڑے استری کیے۔ چاند رات کو اچھے سے سیلون میں جا کر بال بنوائے‘ فیشل کروایا‘ صبح اٹھ کر شیو کی‘ نہائے‘ کپڑے پہنے‘ نماز پڑھی… اور گھر واپس آ کر تمام چیزیں اُتار کر پرانی شرٹ بنیان پہن کر سو گئے اور آٹھ گھنٹے سوتے رہے… وجہ؟؟؟
پہلے لوگ سحری کے وقت بیدار ہوتے تھے‘ اب سحری کر کے سوتے ہیں۔ اس کے باوجود پورا رمضان ڈھول والا رات بارہ بجے سے ہی آپ کو مزید اٹھانے کی کوشش کرتا رہا۔ عید کے دن وہ عیدی بھی مانگنے آیا اور آپ نے بڑی خوشی سے اسے سو پچاس پکڑا دیے۔ یہاں تک تو ٹھیک ہے… لیکن وقفے وقفے سے جو پانچ اور ڈھول والے عیدی مانگنے آئے‘ وہ کون تھے اور آپ کو کیسے پتا چلا کہ ان میں سے کون سحری کے وقت ‘ڈگا‘ لگاتا رہا ہے؟
آپ چاند رات پر کار واش کرانے گئے۔ انہوں نے ایک سو روپیہ زائد مانگ لیا۔ وجہ پوچھی تو جواب ملا کہ یہ عیدی ہے ۔ آپ نے عید پر گاڑی میں پٹرول ڈلوایا‘ لڑکے نے عیدی کا تقاضا کر دیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا آپ نے ہی سب کو عیدی دی یا آپ کو بھی کسی نے عیدی کے طور پر کوئی رعایت دی؟ بلکہ سوال تھوڑا اور بڑھا دیتے ہیں کہ عیدی گاہک سے ہی کیوں مانگی جاتی ہے‘ گاہک کو دی کیوں نہیں جاتی؟
رمضان میں آپ کے گھر کام کرنے والی ماسی نے ‘راشن‘ مانگا۔ آپ نے اپنی معاشی حالت کی وجہ سے معذرت کر لی ۔ ماسی نے طعنہ دیتے ہوئے بتایا کہ آپ کے علاوہ مجھے ہر ‘باجی‘ نے راشن دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر مذکورہ ماسی آٹھ دس گھروں سے راشن لے چکی ہے تو پھر اسے آپ کے گھر سے راشن مانگنے کی کیا ضرورت ہے؟ کیا راشن دینا بھی فرض ہے؟ یہ رواج کس نے ڈالا ہے؟؟؟
آپ عید کی نماز پڑھنے گئے۔ خشوع و خضوع سے نماز پڑھی‘ دعا مانگی اور قریبی نمازیوں سے عید ملنا شروع کی۔ پہلا نمازی آپ سے تین دفعہ گلے ملا… دوسرے سے بھی آپ تین دفعہ ملنا چاہتے تھے لیکن وہ ایک دفعہ مل کر آگے بڑھ گیا… تیسرے سے آپ نے ایک دفعہ ملنے کی کوشش کی لیکن وہ تین دفعہ گلے ملا… اب آپ اسی شش و پنج میں عید ملتے رہے کہ ایک دفعہ گلے ملیں یا تین دفعہ… سوال یہ ہے کہ عید پر‘ خصوصاً سخت گرمی کی عید پر کتنی دفعہ عید ملنا ضروری ہے… نیز مصافحہ سے بھی کام چل سکتا ہے یا ‘جپھا‘ ڈالنا ضروری ہے؟
عید کے تینوں دن چھٹی تھی… بلکہ عید سے ایک دن پہلے کی چھٹی بھی ملا لی جائے تو چار چھٹیاں تھیں۔ آرام کرنے کے لیے شاندار وقت تھا۔ لیکن کیا وجہ ہے کہ عید کے تین دن گزار کر آپ کو لگ رہا ہے جیسے اب کچھ دن آرام کرنا چاہیے؟ اسی میں ایک ضمنی سوال یہ بھی ہے کہ کیا پچھلے تین دنوں میں سے کسی ایک کو ‘نیند کا عالمی دن‘ قرار دیا جا سکتا ہے؟
رمضان میں اگر مساجد بھری ہوئی ہوتی تھیں تو عید کی نماز میں اور بھی زیادہ رونق نظر آئی۔ کھلے میدانوں میں صفیں بچھانی پڑیں۔ لوگ ہاتھوں میں چادریں پکڑے جوق در جوق پوری فیملی کو ساتھ لیے نماز عید ادا کرنے آئے۔ کوئی اگر لیٹ ہو گیا تو فوراً دوسری مسجد کی طرف دوڑ لگائی کہ کہیں نماز رہ نہ جائے۔ لیکن اِسی روز‘ صرف چند گھنٹوں بعد نماز ظہر میں نمازیوں کی تعداد 90 فیصد کم کیوں ہو گئی؟
رشید کے دو بیٹے ہیں اور مجید کی دو بیٹیاں۔ رشید نے مجید کی بیٹیوں کو پانچ پانچ سو روپے عیدی دی۔ جواباً مجید نے بھی رشید کے بیٹوں کو پانچ پانچ سو روپے عیدی پکڑا دی۔ یہ عیدی کہلائے گی یا کرنسی ایکسچینج؟ نیز کیا واقعی سچ ہے کہ اگر پہلے خود عیدی دے دی جائے تو دوسری طرف سے چار پیسے زیادہ مل سکتے ہیں؟ اور ہاں! اگر آپ کا ایک بچہ ہو اور آپ کے بھائی کے پانچ ‘ تو عیدی کا ‘عادِ اعظم‘ کیا ہو گا؟
عام حالات میں اگر آپ کسی رشتہ دار کے گھر جائیں اور اُن کے بچے کو ہزار کا نوٹ پکڑائیں تو رشتہ دار خواتین ایک ‘تڑفلی‘ مچا دیتی ہیں کہ نہیں نہیں اِس کی کیا ضرورت ہے‘ بچے کی جیب سے نوٹ نکال کر واپس آپ کی جیب میں ڈال دیا جاتا ہے۔آپ پھر نوٹ نکالتے ہیں لیکن دوسری طرف سے سخت مزاحمت ہوتی ہے۔ دس منٹ کی جنگ کے بعد یہ پیسے ہنسی خوشی قبول کر لیے جاتے ہیں‘ گویا انکار ایک ضروری رسم تھی جو ادا ہوئی‘ لیکن عیدی دیتے وقت اِن بچوں کی مائیں کیوں دندیاں نکالتے ہوئے سب کچھ دیکھتی رہتی ہیں؟
عید کے دن اگر سسرال یا رشتہ داروں کی طرف سے عید مبارک کا فون آئے اور ساتھ ہی یہ پوچھا جائے کہ ‘آپ گھر پر ہی ہیں؟‘ تو اِس خوفناک سیچوایشن میں کیا جواب دیا جائے؟کیا ایسی کسی صورت حال میں ”ہیلو ہیلو آواز نہیں آ رہی‘‘ کہنا بنتا ہے یا ڈائریکٹ کہہ دیا جائے کہ ہم عید منانے کاغان آئے ہوئے ہیں؟ اس بات پر بھی روشنی ڈالئے کہ یہ فون اگر موبائل پر آئے تب تو مذکورہ احتیاطی تدابیر اختیار کی جا سکتی ہیں لیکن اگر لینڈ لائن پر بات ہو رہی ہو تو ؟؟؟
عید کے چوتھے دن بھی عموماً مارکیٹیں‘ دکانیں اور ہوٹل کیوں بند رہتے ہیں؟ کیا یہ طے ہو چکا کہ جب تک عید کو گزرے پورا ایک ہفتہ نہیں ہو گا‘ زندگی معمول پر نہیں آئے گی۔ سوال تو یہ بھی ہے کہ رمضان کے دنوں میں ایک چوک پر جو پچاس پچاس بھکاری نظر آتے تھے وہ کہاں گئے؟ مانگنا چھوڑ دیا‘ امیر ہو گئے یا کام دھندے پر لگ گئے؟؟؟ ہر گاڑی کا شیشہ کھٹکھٹا کر دل فریب مسکراہٹ پھینک کر عیدی مانگنے والے چھ فٹے خواجہ سرا بھی نظر نہیں آ رہے… عین ممکن ہے دوبارہ مونچھیں بڑھا کر اپنے اپنے علاقے کو لوٹ گئے ہوں۔
عید کی چار چھٹیوں کے بعد کئی لوگ شدت سے آفس جانے کے لیے بے تاب ہوں گے کہ کچھ لمحے سکون سے بھی گزار سکیں ورنہ عید نے تو یہ حال کر دیا ہے کہ کئی لوگ اپنی جیب کی طرف دیکھتے ہیں اور زار و قطار ہنستے جاتے ہیں کیونکہ عید پر خوش نظر آنا بہت ضروری ہے خواہ اگلا پورا مہینہ اے سی 29 پر لگانا پڑے۔ میرا دوست چند ہفتوں بعد آنے والی اگلی عید کا تصور کر کے مسلسل یہی پڑھے جا رہا ہے ”اک اور عید کا سامنا تھا شکیل مجھ کو… میں ایک عید کے پار اُترا تو میں نے دیکھا‘‘۔ میں نے اس کی توجہ دلائی کہ شعر بے وزن ہو گیا ہے‘ آہ بھر کر بولا… جیب کے حساب سے لکھا ہے بھائی…!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply