پونم پریت/قسط نمبر 2۔۔نعیم اشرف

جس دن میں لڑکی سے عورت بنی اس دن میری بائیسویں سالگرہ تھی۔ مجھے اس دن احساس ہوا کہ ذہنی ہم آہنگی، شدید چاہت اور جذباتی وابستگی رکھنے والے دو افراد جب جسمانی اتصال کرتے ہیں تو لطف و حظ کے کس مقام پر ہوتے ہیں۔
یہ کہتے ہوئے پونم قدرے شرمائی اور گاڑی کی کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی۔ میں نے دیکھا کہ وہ کسی پُر کیف یاد کے سحر میں گرفتار مُسکرا رہی تھی اور عالم ِ تغافل میں اس کی کالی زلفوں کی ایک لٹ اس کی گول گردن کا بوسہ لے رہی تھی۔ وہ بہت پیاری لگ رہی تھی۔ مگر اپنی نہایت ذاتی بات مجھے اس طرح سنانے پرشاید کسی قدرخجالت کا شکار بھی تھی۔
پونم کو   اس صورت حال سے نکالنے کے لئے میں نے احمد مُشتاق کا ایک شعر پڑھ ڈالا:
؎ زندگی معرکہِ رُوح و بدن ہے مُشتاق
عشق کے ساتھ ضرور ی ہے ہوس کا ہونا

”مجھے کچھ کچھ اندازہ ہے کہ تمھارا محبت کا فلسفہ ہوس کا تڑکا اپنے اندر رکھتا ہے۔ مگر میری محبت ہوس کے لئے نہیں تھی۔“ پُونم نے ایک سنجیدہ سی مسکراہٹ اپنے دلکش چہرے پربکھیرتے ہوئے کہا۔

میں نے جواب دیا: ”اگر تمھاری بات درست مان لی جائے توپھر پریمی لوگ جسمانی تعلق کیوں قائم کرتے ہیں؟
ساتھ کیوں رہنا چاہتے ہیں؟
شادی کیوں کرتے ہیں؟
جنسی اختلاط کیوں کرتے ہیں؟
خدا اور فرشتوں والی محبت پر اکتفا کیوں نہیں کر لیتے؟“۔

میں نے کن اکھیوں سے دیکھا کہ پونم کا چہرہ ایک دم بُجھ سا گیا ہے۔ مجھے اپنے الفاظ پر شدید ندامت محسوس ہونے لگی۔

ہم تھوڑی دیر خاموش رہے۔ پھر میں نے اپنے خیالات کو ترتیب دی اور گویا ہوا۔ ”دیکھو پونم! رومانوی تعلق کا کوئی نصاب مقرّر نہیں ہے۔۔ یہ من کی موج ہے۔ کسی پر دل آجا نا اور قربت ہوجانا ایک فطری بات ہے۔ قربت کی خو اہش انسان کے اندر فطرت نے ودیعت کر رکھی ہے۔ اگر دو انسانوں کے بیچ لگاوٹ ا ور چاہت کا جذبہ سچا ہے تو رومان کی روانی میں ان کے بیچ باہمی رضا و رغبت سے جو بھی ہوتا، اس سے خوبصورت کوئی شے فطرت نے تخلیق نہیں کی۔ اگر باہمی تعلق محض جسمانی لذّت حاصل کرنے کے لئے قائم کیا جائے تو قصہ دیگر است۔۔“

ٹھیک کہا تم نے مگر اسکا فیصلہ کون کرے گا مائی ڈئیر کہ جذبہ سچا تھا۔“ پونم اپنے موقف کو تقویت دینے پر تلی ہوئی تھی۔ میں نے جواب دیا: اس کا فیصلہ آپ کی ذات کا ارتقاء کرے گا۔ کیونکہ محبت کایا پلٹ جانے کا نام ہے ۔ میں نے بات سمجھانے کے لئے اس موقع پر شمس تبریزی کا ایک قول دہرا دیا:
”ہر سچی محبت اور دوستی دو انسانوں کی ’کایا کلپ‘ کا ایک انوکھا تجربہ ہوتا ہے۔ اگر تم ویسے ہی ہو جیسے محبت میں مبتلا ہونے سے پہلے تھے تو شاید تم نے بھر پور محبت نہیں کی۔“

” یہ تو سچ ہے ۔ ہر محبت نے میری کایا پلٹ دی ہے اور تمہاری دوستی نے شاید سب سے زیادہ۔ مگر عجیب بات ہے بلکہ تم سے سوال ہے کہ ہم کئی ماہ سے تواتر سے مل رہے ہیں، گھنٹوں ساتھ رہتے ہیں۔ تم نے مجھ سے کبھی جسمانی قربت کی خواہش نہیں کی۔ کیوں؟“

میری خواہش اور خوشی کی خاطر تم مجھ سے جسمانی تعلق قائم کر بھی لیتی تو وہ گناہ بے لذّت ہوتا ۔“

”تمھاری منطق ہمیشہ نرالی ہوتی ہے۔“ پونم نے بڑے رسان سے جواب دیا۔ اب اگر اجازت ہو تو آگے بڑھوں؟“۔

جی اجازت ہے۔“ یہ کہتے ہوئے میں نے محسوس کیا کہ ماحول دوبارہ ساز گار ہو گیا ہے۔

زندگی اور بھی حسین ہو چکی تھی۔ وقت تیزی سے گزر رہا تھا۔ دو سال گویا دو دن کی طرح گزر گئے۔ میرے پیارے دوست ایک بات تو بتاؤ؛ محبت کی تمام داستانیں جدائی پر ہی کیوں اختتام پذیر ہوتی ہیں؟“

اس کا اچانک سوال میرے بائیں گال کے ساتھ پیوست ہو گیا۔ میں اس کے لئے تیار نہ تھا۔ اور پونم کو مزید اُداس بھی نہیں کرنا چاہتا تھا اس لئے فوری جواب یہی سُوجھا: ”اگر محبت کرنے والے ایک ہو جائیں تو عموماً شادی ہو جاتی ہے اور جب محبوبہ، بیوی بن جائے تو وہ محبوبہ نہیں رہتی اور پریم کہانی میں چاشنی بھی ختم ہو جاتی ہے“

میرے جُملے پر ہم دونو ں کھل کھلا کر ہنس پڑے۔تھوڑے سے توقف کے بعد وہ دوبارہ بولی::

”عقیل احمد کو فوراً برطانیہ روانہ ہونا تھا۔ اسکی والدہ کو بلڈ کینسر تشخیص ہوا تھا،جو آخری سٹیج پر تھا۔ اس نے جاتے ہوئے کہا تھا ”میں کب واپس آؤں؟ میں نہیں جانتا۔ ہمارے مقدر میں ہوا تو ہم ضرور ملیں گے۔میں تمھارا پیار کبھی نہیں بھولوں گا۔“

اس دِن میں زندگی میں دوسری بار دن دل کھول کر روئی تھی۔“پونم کی آنکھیں نم دیکھ کر میں نے اس کو ہجر کی کیفیت سے نکالنے کی اپنی سی سعی کی: ” میں آج کل ھرمن ھیس کا ناول ”سدھارتھا“ پڑھ رہا ہوں۔
پہلے باب میں جب گوتم بُدھ اپنے والد سے جنگل میں جانے اور راہب بننے کی اجازت لینے آتا ہے تو اس کے باپ کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس کا بیٹا بہت پہلے اس کو چھوڑ کر جا چکا ہے۔جب کوئی پیارا آپ سے دور جانے کی آرزو کرے تو میری پیاری پونم! وہ پہلے سے جا چکا ہوتا ہے۔“

پونم دوبارہ گویا ہوئی:”عقیل احمد گویا سارا شہر اپنے ساتھ لے گیا تھا۔اب میں ایک ویرانے میں رہتی تھی جہاں کی ہر شے میرے لئے اجنبی تھی۔ وہ راستے، وہ درخت اور روشنیاں اداس تھیں۔ بعض اوقات ایسا بھی لگتا کہ وہ مجھ پہ ہنس رہی ہیں۔ میرا اس شہر میں مزید رہنا محال ہو گیا۔ چھ ماہ بعد میں لاہور اپنے ڈاکٹر بھائی کے پاس چلی گئی۔ وہ اپنی فیملی کے ساتھ رہتے تھے۔ لاہور آکر میں نے اپنی توجہ بٹانے کے لئے مصوری دوبارہ شروع کر دی۔ایک دن بھائی کے دوست نے میرا کام دیکھا تو بھائی کے ذریعے ایک پرائیویٹ آرٹ گیلری میں آرٹسٹ کی جاب آفر کر دی۔ میں بھی ڈیپریشن سے نکل فوری طور مصروف ہونا چاہتی تھی لہٰذا بھائی سے مشورے کے بعد آرٹ گیلری جانا شروع ہو گئی۔آرٹ گیلری کے سینئر آرٹسٹ، علی عباس بہت شفقت سے پیش آئے۔ میں نے ان کے ساتھ کام کر کے سکیچ اور کیلی گرافی کے ساتھ ساتھ تجریدی آرٹ میں مہارت حاصل کی۔

پھر ایک دن عقیل احمد نے برطانیہ سے کال کر کے بتایا کہ اس کی والدہ فوت ہو گئی ہیں۔ اور اس سے ایک ماہ قبل اپنی دیرینہ خواہش پوری کرتے ہوئے میری شادی اپنی بھانجی سے کر گئی ہیں۔اور یہ کہ اب وہ فون نہیں کر سکے گا۔یہ صدمہ میرے لیے ناقابلِ برداشت تھا۔

میں نے اسلام آباد جاکر اوپن یونیورسٹی میں آرٹس میں ایم فِل میں داخلہ لے لیا اور مختلف لٹریری آرٹس کے محکموں میں ملازمت کی کوششیں شروع کر دی۔ میری دیرینہ دوست سنبل حیات نے اپنی پرانی دوستی کا حق خوب نبھایا۔ مجھے نا صرف ایک جز وقتی جاب دلوانے میں مدد کی بلکہ اس سارا عرصہ اس نے کھانے پینے اور رہنے سہنے کی فکر سے آزاد رکھا۔ میں اس کا یہ احسان عمر بھر نہیں بھولوں گی۔۔ ۔

پچیس سالہ سنبل حیات ایک بہادر، خوددار اور معاشی طور پر آزاد لڑکی ہے۔وہ عمر میں مجھ سے تین چار سال کم ہونے کے باوجود میری سکول اور کالج کے وقت کی دوست ہے۔ گریجویشن کے بعد اس کی شادی اس کے خالہ زاد سے کر دی گئی جو اس کا دوست بھی تھا اور پسند بھی۔ وہ لوگ کراچی کی ایک خوشحال لوگوں کی کالونی میں رہائش پذیر تھے۔ دو سال ہنستے کھیلتے کٹ گئے۔ اولاد نہ ہونے پر خالہ کی جانب سے طرح طرح کے سوال ہونے شروع ہوگئے۔ اس کا شوہر بھی بے زار رہنے لگا۔ کچھ عرصے بعد طعنے اور پھر شک کرنا شروع ہو گیا۔ کسی معمولی بات پر ایک دن سنبل کے منہ پر تھپڑ دے مارا۔ تھپڑ کھا کر سنبل روئی، نہ چلّائی، نہ  واویلا  کیا۔ اپنا سوٹ کیس اٹھایا اور ہمیشہ کے لیے سسرال کو خُدا حافظ کہہ دیا۔ اپنے میکے آکر گھر بیٹھنے کی بجائے ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز کیا اور ریڈیو پر جاب کر لی۔ والدین اور رشتے داروں نے صلح کی اپنی سی کوشش کر دیکھی۔سنبل کا ایک ہی جواب تھا؛”اگر میں نے ایک تھپڑ معاف کر دیا تو پوری زندگی تھپڑ کھانے پڑیں گے ۔ میں ایک جیتی جاگتی زندہ ہستی ہوں جس کو ذلیل کرنے کا اختیار اس زمین پر کسی بھی دوسرے انسان کو نہیں ہے۔“

سنبل نے فیصلہ کیا ہے کہ اب وہ شادی نہیں کرے گی۔ یہاں آکر اس نے عدالت میں خلع کی درخواست دے دی۔ دوسری پیشی پر عدالت نے طلاق دے دی۔وہ اپنی زندگی میں خوش ہے۔ اس کے خیال میں اپنا بوجھ خود اٹھا کر، عزت اور ذاتی آزادی جیسی کوئی نعمت نہیں ہے۔

میرے لاہور چھوڑنے کے بعد میری بڑی ماں کو تشویش ستانے لگی کہ اب میری شادی جلد ہو جانی چاہیے۔ میں ہر سال گرمیوں میں بڑی ماں سے ملنے گاؤں جاتی ہوں۔ تین سال قبل گئی تو انھوں نے تین رشتے میرے سامنے رکھ دیئے۔ میں ایسے موقعوں پر خاموشی سے موضوع بدل جایا کرتی تھی۔ مگر اب کی بار بڑی ماں اصرار کرنے لگ گئیں۔میں چونکہ شادی کا ارادہ ہی ترک کر چکی تھی لہٰذا، انکار کے سوا کوئی جواب  نہ تھا۔ محبت، دوستی یا کم ازکم پسندیدگی کے بغیر شادی مجھے ایک بھیانک تجربہ لگتی تھی۔ میرے دل میں عقیل احمد کی محبت جاگزیں تھی اورعلی عباس کے نام پر آج بھی میرا دل دھڑکتا تھا۔ دونوں کو میں نے اپنے محبوب، مخلص دوست اورشوہر کے رُوپ میں دیکھا تھا۔ دونوں نے مجھے زندگی کرنے کا ڈھنگ سکھایا تھا، بالغ نظری اور کشادہ ظرفی سکھائی تھی۔ ان کے ہجر کی کسک کم کرنے کے لئے میں نے اپنی مصروفیات بڑھا لی تھیں اور اپنے آپ کو اپنے دفتری کام اور ایم فل میں مصروف کر رکھا تھا۔

میں نے جی پی ایس کی مدد سے موٹر وے سے نکل کر سرگودھا جانے وال سڑک لی ہی تھی کہ پونم نے چائے مانگی۔ مجھے بھی چائے کی شدید طلب ہو رہی تھی۔ ہم نے ایک صاف ستھرے ریسٹورنٹ پر توقف کیا، واش روم استعمال کرنے کے بعد منہ ہاتھ دھو کر تازہ دم ہو لئے۔ تیز اور کڑاکے دار چائے نے کھانے کے بعد والی کسلمندی بھی دور کر دی۔ ہم سرگودھا کی جانب دوبارہ سفر پذیر ہوئے تو پونم نے اپنی کہانی کا سلسلہ پھر سے رواں کردیا۔

بڑی ماں باتوں باتوں میں میرے لئے دیکھے ہوئے اپنے پسندیدہ رشتے کا ذکر کر دیتی اور اصرار کرتی کہ میں اس کو ایک دفعہ دیکھ تو لوں۔ ملک یاسر محمود بابا کے کسی واقف کار کا بھانجا تھا اور ان دنوں وزارتِ خارجہ میں ڈپٹی ڈائریکٹر تھا۔ جب چھ ماہ تک میں نے کوئی جواب نہ دیا تو بڑی ماں چھوٹے بھائی کے ساتھ اسلام آباد آ کر دُور کے ایک رشتے دار کے ہاں ٹھہر گئیں ۔

اگلی شام مجھے کھانے پر بلوا کر یاسر محمود سے ملوا دیا۔ درمیانہ قد اور مردانہ وجاہت سے بھرپور پینتیس سالہ یاسر محمود نے قائدِ اعظم یونیورسٹی سے بین الاقوامی تعلقات میں ماسٹرز کرنے کے بعد سی ایس ایس کے امتحان میں تیسری پوزیشن لی تھی۔ آٹھ سال پہلے فارن سروس جوائن کی تھی۔ والدین بچپن میں فوت ہوگئے۔ نانا کی کفالت میں تعلیم جاری رکھی اور اپنا مقام خود بنایا۔ یاسر محمود اردو، انگریزی، فارسی اور فرانسیسی پر عبور رکھتا تھا، شعر و ادب سے دلچسپی کے علاوہ فنونِ لطیفہ سے بھی شغف رکھتا تھا۔ بڑی ماں کی تسلی کے لئے میں نے یاسر محمود سے رابطہ رکھنے کی حامی بھر لی۔ ۔

ایک ماہ بعد یاسر محمود کے اصرار پر میں نے اس سے نیشنل کونسل آف آرٹس میں ملنے کی حامی بھر لی۔ جب ہم ملے تو میں نے اس کو اپنی گزشتہ محبت کی کہانی مختصراًسنا ڈالی۔ ۔ ۔ یاسر محمود میری بات توجہ، خاموشی اور سکون سے سنتا رہا۔ جب میری بات ختم ہوئی تو بہت اطمینان سے بولا::
پونم جی! آپ کی گزشتہ زندگی کیا تھی؟ کیسی تھی؟ مجھے کوئی سروکار نہیں ہونا چاہیئے۔ جیسے میری گزشتہ زندگی سے آپ کو کوئی سروکارنہیں ہے۔ زندگی اپنی ہئیت میں سادہ اور خوبصورت ہے۔ انسان نے اس کو اپنی نادانیوں سے پیچیدہ اور کسی قدر بد صورت بھی بنا دیا ہے۔ میں نے حیران ہو کر یاسر محمود سے پوچھا: ” جو وقت گزر گیا کیا اس کے اثرات آنے والے وقت پر نہیں ہوتے؟
کیا گزرے وقت کے سائے انسان کا پیچھا نہیں کرتے؟“

یاسر محمود نے بہت نرمی اور محبت بھرے لہجے میں جواب دیا:
پونم جی! زندگی میں جو بھی فیصلہ آپ کرتے ہیں۔ وہ زمینی حالات، آپ کے خیالات اور آپ کے دِلی جذبات کے تحت لمحہ موجود کا بہترین فیصلہ ہوتا ہے ۔۔ مگر وقت گُزر جانے کے بعد جب ہم تجزیہ کرنے بیٹھتے ہیں تو اُس وقت کے حالات و جذبات کو منفی کر کے نتائج نکالتے ہیں اور اپنے فیصلوں پر پچھتاتے رہتے ہیں ۔ ۔
جو پہلے ہو چُکا وہ اُس وقت کے تقاضے کے مطابق بہترین بات تھی۔ جو، اب ہو گا یہ  آج کی سب سے اچھی بات ہوگی۔ آپ مجھے پہلی نظر میں اچھی لگی تھیں۔ میں آپ سے جیون بھر کے ساتھ کی درخواست کرتا ہوں۔ اگر آپ کو قبول ہے تو اگلا فیصلہ وقت خود کر دیگا۔ اگر آپ فوری جواب دینے کی پوزیشن میں نہیں تو بھی کوئی بات نہیں۔ٹیک یور ٹائم۔۔۔“ جب میں نے یاسر محمود کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا تو اس میں دوستی کی دعوت کے ساتھ چاہت کی گرمجوشی بھی محسوس ہوئی۔“

جب ہم لوگ سرگودھا کے مضافات میں پہنچے تو دو پہر ڈھلنے کو تھی۔ پونم کی فرمائش پر ہم پہلے سرگودھا شہر چلے گئے۔پونم نے مجھے عقیل احمد کے کلینک کے علاوہ اپنا سکول اور کالج بھی دکھایا۔ اس کے بعد طے شدہ پروگرام کے مطابق   پونم نے مجھے ایک دیرینہ دوست اور کلاس فیلو ملک الطاف حسین کے پاس سیٹلائٹ ٹاؤن میں اُتارا اور خود میری گاڑی میں اپنے گھر شب بسری کے لئے چلی گئی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply