مرغی کا جوس۔۔ہمایوں جاوید

دنیا میں جتنی بھی چیزوں سے جُوس نکالا جاتا ہے اُن میں سب سے زیادہ جوس پاکستان میں ”مُرغی “ سے نکالا جاتا ہے،ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں ایک مُرغی سے تقریباً 450 بیرل یا 2500گیلن یعنی دس ہزار لیٹر تک جوس کشید کیاجا سکتا ہے ،امکان غالب ہے کہ مستقبل قریب میں اس کو برآمد کر کے اچھا خاصا زرِمبادلہ کمایا جا سکتا ہے
،یہ دنیا کا واحد جُوس ہے جو گرم کرکے پیا جاتا ہے ، مگر اب تو لوگ ماڈرن ہو گئے  ہیں اور اب اسے یخنی یا سُوپ کے نام سے پکارتے ہیں ،جبکہ ہمارے زمانے میں ریڑھی والے بڑے فخر سے لکھواتے تھے”طاقت کا خزانہ ۔۔مرغی کا جوس“
دراصل یہ وہ پانی ہوتا ہے جس سے مُرغی کی میت کو مسلسل تین دن تک غسل دیا جاتا ہے ،(بہت سی جگہوں پر 7 دن ، 15 دن ، 30 دن یا 40 دن تک اسکو غسل دے کر چالیسواں کیا جاتا ہے ، جب تک کہ مرغی کا جسم پورا کالا نہ پڑ جائے) اور ہمارے ملک کے سجیلے جوان حرارتِ جاں کیلئے اِن ریڑھیوں کے گردا گرد بیٹھ جاتے ہیں ،اور سوپ پی کر ایسے انگڑائی لیتے ہیں جیسے نر گس ڈانس شروع کرنے سے پہلے انگڑائی لیتی ہے
در حقیقت یہ وہ کلف زدہ پانی ہوتا ہے جو دس منٹ بعد ٹھنڈا ہو کر ناصرف جوڑوں میں بیٹھ جاتا ہے بلکہ سینہ بھی بند ہو جاتا ہے۔
،پورے پاکستان کی طرح ہمارے شہر میں بھی سرِ شام اِن مرغیوں کا جو س بنایا جاتا ہے ،جہاں پر مُرغی کی میت کو پتیلے سے ایک فٹ دُور تختہ دار پر لٹکا دیا جاتا ہے اور ایک پاٶلے کی مدد سے رسمِ غسل شروع ہو جاتی ہے۔
اور لوگ کسی عقیدت مند کی طرح ریڑھی کے اطرف کھڑے ہوکر اس متبرک پانی سے جسم کو حرارت بہم پہنچاتے نظر آتے ہیں،اس دوران سوپ پینے کی مسحور کُن آواز ۔۔شڑر ،شپ۔۔شڑر، شڑر ۔۔سے شہر کی ہر گلی فضا گونج اُٹھتی ہے۔
،اگر زیادہ عیاشی مطلوب ہو تو ایک انڈا اور مُرغی کی ایک پتلی سی ”چھیت“ بھی کَپ میں شامل کی جا سکتی ہے
بقول شاعر
یخنی ٹپکنا، کپ میں اُلٹنا
لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانا۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

مورخ شِکوہ کرتے ہوئے  لکھتا ہے کہ یخنی والوں پر سےمیرا ایمان اُسی دِن سے اُٹھ گیا جِس دن میں دس روپے کا سوپ لینے گیا تو مجھے دھتکار دیا گیا اور سو سو باتیں بھی سُنائی  گئیں ،مہنگائی کا رونا بھی رویا گیا اور کہا بچو ۔۔تبدیلی آ گئی ہے دس روپے کا سوپ شوپ نہیں مِلتا ، چنانچہ میں دس روپے کے نوٹ کو لنڈے کے کوٹ کی جیب نمبر 13میں واپس ڈالا ۔۔سوپ کے پانی سے گرم گرم دھونے کی بجائے ۔۔شرم سے پانی پانی ہو کر گھر واپس آ گیا۔۔
جبکہ رات بارہ بجے مجھے کسی کام کیلئے الشمس چوک جانا ہوا تو ایک دل دہلا دینے والا منظر میرے سامنے تھا
12 بجےکے بعد اُسی بچے ہوۓ ”سوپ“ سے زمین پر چھڑکاؤ کیا جا رہا تھا اور مرغی کو کپڑے میں لپیٹ کر فریج میں رکھا جا رہا تھا تاکہ  سند رہے اور وقت ضرورت اگلے دِن کام آوے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply