شکوہ،جوابِ شکوہ۔۔چوہدری عامر عباس ایڈووکیٹ

اکثر دوست مجھ سے شکوہ کرتے ہیں کہ آپ لکھاری ہیں مگر آپکی تحاریر میں زیادہ تر جھکاؤ عمران خان کی طرف ہوتا ہے۔ انکی بات بادی النظری میں درست معلوم ہوتی ہے لیکن آپ تحریک انصاف کے دور حکومت کے اگر میرے کالم دیکھیں تو میں نے انکی بیڈ گورننس اور مہنگائی پر ایک پوری سیریل لکھی تھی جو آج بھی سوشل میڈیا پر اخبارات کے تراشوں کی صورت میں موجود ہے۔
بہرحال اس بات سے قطع نظر ہم جائزہ لیتے ہیں کہ آپ کو میرا جھکاؤ کیوں عمران خان کی طرف نظر آتا ہے۔ سیاست کا کتابی مطلب تو خدمت انسانیت ہی ہے مگر ہمارے ہاں عمومی طور پر حصول اقتدار کی تین وجوہات ہوتی ہیں۔ شہرت، عزت اور مال و زر بنانا۔ اب ہم ان تینوں وجوہات کے تناظر میں عمران خان کی شخصیت کا جائزہ لیتے ہیں۔
شہرت کے حوالے سے دیکھیں تو زمانہ جانتا ہے کہ سیاست میں آنے سے پہلے ہی عمران خان اپنی شہرت کی بلندیوں کو چھو رہے تھے۔ پاکستان سمیت پوری دنیا میں عمران خان کی شہرت کا ڈنکا بجتا تھا۔ شہرت کا یہ عالم تھا کہ دنیا بھر کی معروف کمپنیاں اپنے اشتہارات کیلئے عمران خان کے پیچھے رہتی تھیں۔ عمران خان ایک عام سا ڈریس پہن لیتا تو وہ برانڈ بن جاتا تھا۔ کرکٹ کے دنوں میں ایک شرٹس بنانے والی کمپنی نے صرف یہ کہا کہ میچ کے دوران انکی کمپنی کی شرٹ پہن لیں اس کے عوض اس کمپنی نے اتنے ڈریسز عمران خان کو گفٹ کئے کہ اگلی ڈیڑھ دو دہائیوں میں وہ ڈریسز ہی ختم نہ ہوئے۔ شہرت اپنے ساتھ کچھ برائیاں بھی لے کر آتی ہے شاید اسی وجہ سے ان دنوں عمران خان کی خواتین کیساتھ دوستیاں بھی میڈیا کی زینت بنتی رہیں جن کو آج بھی عمران خان اپنی زندگی کے سیاہ ترین باب کے طور پر یاد رکھتے ہیں اور استغفار کرتے ہیں شاید یہ استغفار کا ہی اثر ہے کہ آج گلالئی، ریحام خان سمیت جتنی بھی خواتین نے عمران خان کی کردار کشی کی کوشش کی وہ زلیل و رسوا ہوئیں مگر عمران خان کو اللہ تعالیٰ نے مزید عزت سے نوازا۔ لہٰذا میرے خیال میں عمران خان کیلئے شہرت تو کم از کم سیاست میں آنے کی وجہ ہرگز نہیں تھی۔
عمران خان نے زندگی بھر جو عزت سمیٹی وہ بہت کم پاکستانیوں کے حصے میں آئی۔ شوکت خانم کی فنڈ ریزنگ کیلئے دنیا بھر میں پروگرام کئے۔ دنیا بھر میں لوگوں نے دل کھول کر عطیات دیئے۔ ان دنوں عمران خان کے دستخط شدہ بلے بھی لاکھوں میں فروخت ہوتے تھے جن کی رقم شوکت خانم کی فنڈ ریزنگ میں جمع ہوتی۔ اگر کسی دیوار پر دستخط کر دے تو لوگ وہاں اکٹھا ہو جاتے۔ یہی عزت ہی تھی کہ پوری دنیا عمران خان کو چاکلیٹی ہیرو مانتی تھی۔ کون نہیں جانتا کہ ہر محفل میں عمران خان ہی حاظرین محفل کا محور نظر ہوا کرتے تھے۔ ان دنوں اگرچہ میڈیا بہت محدود ہوتا تھا مگر عمران خان کسی نہ کسی حوالے سے میڈیا کی خبروں میں رہتا تھا۔ کافی دن میڈیا میں یہ خبر رپورٹ ہوتی رہی کہ لیڈی ڈیانا نے عمران خان سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ دنیا بھر میں جہاں بھی گھومنے جاتا لوگ اسکے ساتھ تصویر بنوانا فخر سمجھتے تھے۔ اس وقت تو عمران خان نے سیاست میں آنے کا شاید سوچا بھی نہ تھا۔
دولت عمران خان کا کبھی مسئلہ ہی نہیں رہا۔ روپیہ پیسہ عمران خان کی شاید ترجیح ہی نہیں تھا۔ عمران خان کی سوچ سے زیادہ اللہ نے اسے دولت سے نوازا ہوا تھا۔ کرکٹ کے دوران ہی عمران خان کافی دولت اکٹھی کر چکا تھا۔ اسکی دستخط شدہ شرٹ بھی آج کروڑوں میں فروخت ہوتی ہے۔ شادی بھی اس خاندان میں ہوئی جس کا شمار دنیا کی امیر ترین فیملیز میں ہوتا تھا۔ عمران خان کے سیاست میں آنے سے پہلے کے اثاثے دیکھ لیجئے اور اسکے ساڑھے تین سالہ وزارت عظمیٰ کے بعد کے اثاثے چیک کر لیں۔ فرق صاف ظاہر ہو جائے گا۔ پیسے کی ہوس سے بےنیاز شخص ہے جس کی تمام تر پراپرٹی پاکستان میں ہی ہے۔ میں یہاں پاکستان کے دیگر سیاست دانوں کی مثال قطعاً نہیں دینا چاہتا۔ عمران خان ایک سادہ ترین لائف سٹائل رکھتا ہے۔ دولت کے حوالے سے عمران خان کی زندگی ایک کھلی کتاب ہے آج دنیا کا کوئی بھی شخص عمران خان پر ایک روپے کی کرپشن ثابت نہیں کر سکتا۔ اگر کوئی ایسا کیس ہے تو اسے عدالت میں لے کر جانا چاہیے مگر ایسا نہیں ہوا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جب سے عمران خان اقتدار میں آیا ہے ہمیشہ منفی پروپیگنڈا کی زد میں رہا ہے۔ اس کے مخالفین اس کو جتنا دبانے کی کوشش کرتے ہیں اللہ تعالیٰ اسے اس سے زیادہ عزت سے نوازتے ہیں اور عمران خان پہلے سے دوگنا طاقت کیساتھ سامنے آتا ہے۔
اب آپ ان تین وجوہات کو سامنے رکھ کر دیگر سیاست دانوں کا جائزہ لیں اور اپنا نتیجہ احذ کر لیجئے۔ دیگر سیاست دان اگر کوئی اچھا کام کرتے ہیں انکی میں کھل کر تحسین کرتا ہوں۔ میری ہمیشہ یہ کوشش رہتی ہے کہ وہی لکھوں جو ملک و قوم کیلئے بہتر ہو۔ اسی شخص کو سپورٹ کروں جو اس ملک کا خیر خواہ ہو ورنہ عمران خان بھی میری نظر میں غلطیاں کرنے والا عام سیاست دان ہی ہے۔ جب وہ غلط کرے گا اس پر تنقید بھی بھر پور ہو گی اسکے دور اقتدار میں اسکی غلطیوں پر ہم نے کالم لکھ چھوڑے ہیں۔

Facebook Comments

چوہدری عامر عباس
کالم نگار چوہدری عامر عباس نے ایف سی کالج سے گریچوائشن کیا. پنجاب یونیورسٹی سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی. آج کل ہائی کورٹ لاہور میں وکالت کے شعبہ سے وابستہ ہیں. سماجی موضوعات اور حالات حاضرہ پر لکھتے ہیں".

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply