جغرافیہ کے قیدی (11) ۔ چین ۔ تاریخ/وہارا امباکر

سولہویں صدی میں چین کے روابط نئی ریاستوں سے ہونے لگے۔ یہ سپین اور پرتگال سے آنے والے تاجر اور سفیر تھے۔ چین نے اپنے ساحلی علاقے تجارت کے لئے کھول دئے لیکن کسی بھی مستقل آبادکاری کی حمایت نہ کی۔ اور چین میں ایسا ہی اب بھی رہا ہے۔ جب چین کھلتا ہے تو ساحلی علاقے ترقی کرتے ہیں لیکن اس کے اندرونی علاقے نظرانداز ہو جاتے ہیں۔ شنگھائی جیسے شہروں کی امارت دیہی علاقوں تک نہیں پہنچتی۔ اور اس کا نتیجہ شہروں کی طرف آبادی کے دباؤ میں نکلتا ہے اور علاقائی فرق زیادہ نظر آتے ہیں۔
اٹھارہویں صدی میں چین برما کے حصوں تک پہنچ چکا تھا اور جنوب میں انڈوچائنہ تک۔ سنکیانگ کو فتح کیا جا چکا تھا اور یہ ملک کا سب سے بڑا صوبہ بن گیا۔ سنگلاخ پہاڑ اور وسیع صحراؤں پر مشتمل سنکیانگ کا رقبہ اتنا ہے کہ اس میں برطانیہ، فرانس، جرمنی، سوئٹزرلینڈ، آسٹریا، بلجیم اور نیدرلینڈز سما جائیں اور پھر بھی جگہ بچ جائے۔
سنکیانگ چین کے لئے مسئلہ رہا ہے۔ یہاں کی آبادی ہان نسل کی نہیں۔ مذہبی طور پر مسلمان ہے۔ یہاں پر استحکام نہیں رہا۔ لیکن اس کو اپنے قبضے میں رکھنا چین کے لئے بہت مفید رہا ہے کیونکہ یہ بفر کا بڑا علاقہ دیتا ہے اور چینی دفاع آسان کرتا ہے۔
امپیریل طاقتوں نے انیسویں اور بیسویں صدی میں یہاں کا رخ کیا۔ اور ملک میں تقسیم پیدا کی۔ یہ منگول جارحیت کے بعد ہونے والی بڑی ذلت کا وقت تھا۔ چینی کمیونسٹ پارٹی یہ بیانیہ عام استعمال کرتی ہے۔ یہ جزوی طور پر درست بھی ہے۔
بعد میں جاپان کی آمد ہوئی۔ جاپان ایک بڑی عالمی طاقت بن رہا تھا اور عسکری فتوحات کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے تھا اور ایشیا کو اپنے قبضے میں لے رہا تھا۔ یہاں سے 1932 میں پہلے اور پھر 1937 میں جاپانی حملہ ہوا۔ اس نے چین کے مرکز کے بڑے علاقے، مینچوریا اور اندرونی منگولیا کو قبضے میں لے لیا۔ جب دوسری جنگِ عظیم میں جاپان نے ہتھیار ڈالے تو پھر جاپانی انخلا ہوا۔ ان کی جگہ سوویت فوج نے لے لی جس نے 1946 میں یہاں سے انخلا کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ بیرونی مبصرین کا خیال تھا کہ جنگ کے بعد کے سالوں میں یہاں جمہوریت آئے گی۔ یہ ویسی ہی سادہ لوح اور غلط سوچ تھی جیسے کچھ مغربی مبصرین کی عرب بہار کے وقت تھی۔ اس کی وجہ یہاں کے لوگوں کی ڈائنامکس، سیاست اور جغرافیہ کے بارے میں لاعلمی تھی۔
اگلے سالوں میں چیانگ کائی شک کی نیشنلسٹ اور ماؤ کی کمیونسٹ افواج ایک دوسرے سے نبرد آزما رہیں۔ 1949 میں کمیونسٹ افواج کی فتح ہوئی اور نیشنلسٹ دستبردار ہو کر تائیوان چلے گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماؤ نے چین میں مرکزی حکومت کو پہلے کی کسی بھی سلطنت سے زیادہ مضبوط کیا۔ روسی اثر کو چین تک آنے سے روکا۔ منگولیا تک بیجنگ کا اثر پھیلایا۔ 1951 میں تبت کو ضم کر لیا جو کہ ایک اور علاقہ تھا جہاں پر ہان نسل نہیں تھی۔ اور پھر چین کی سکول کی کتابوں میں وسطی ایشیا کی ریاستوں تک کو بھی چین کا حصہ دکھایا جانے لگا۔ ماؤ نے اپنی زندگی میں ایک پارٹی حکومت کو مضبوط کیا کہ پارٹی زندگی کا ہر حصہ کنٹرول کرے۔ بیرونی دنیا سے روابط مھدود رکھے۔ ملک بہت غریب رہا۔ خاص طور پر اندرونی چین بہت غربت میں تھا، لیکن متحد رہا۔
ماؤ کے جانشینوں نے ان کی فتح کے لانگ مارچ کو ترقی کی طرف لانگ مارچ میں بدلا۔ اس کے 1980 کی دہائی کے لیڈر ڈینگ شاؤ پینگ نے “چینی خاصیت والا سوشلزم” کی اصطلاح متعارف کروائی۔ جس کا مطلب “سرمایہ دارانہ نظام جو کہ کمیونسٹ پارٹی کے کنٹرول میں ہو” کے تھے۔ چین ایک تجارت کا پارٹنر اور بڑھتی ملٹری طاقت بننے لگا۔ اس نے برطانیہ سے ہانگ کانگ اور پرتگال سے مکاؤ واپس لیا اور بیسویں صدی کے آخر تک اپنی سرحدوں سے باہر دیکھنے لگا۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply