ناسا کے ویگیانک اور گائے۔۔۔ جاویدخان

گائے ایک شکتی شالی چوپایہ ہے۔کبھی بھی اسے بے لگام نہیں دیکھا گیا۔مسئلہ بیل کا ہو سکتا ہے۔مگر وہ سانڈ نما بیل جو ہر طرح کے کام سے آزاد،کلے سے بندھاصرف چارہ کھاتا ہے۔کمزور ہڈیاں نکلے،لاغر بیل جن پر منوں ٹنوں کے حساب سے بوجھ لدا ہو،بے چارے کاہے کو مستیاں کریں گے۔؟گائے کی ایک قسم نیل گائے کی ہے،جو جنگلوں میں ملتی ہے۔کہا جاتا ہے کہ وہ ابھی تک شرافت کے دائرے سے باہر نہیں آئی۔اور شرمیلی اس قدر کہ خود جنگل کے باسی دیکھنے کو ترس جاتے ہیں۔جنگلوں میں بھینسیں بھی پھرتی ہیں۔افریقن بھینسیں بلا کی شریر ہیں۔بلکہ ان کی خود مستیاں حد سے بڑھ چکی ہیں۔دنیا اتنی مہذب ہو چکی۔جنگل کے بہت سے باسی (چوپائے،پرندے)اب پالتو ہو گئے ہیں۔اور پرامن زندگی گزار رہے ہیں۔مگر افریقن بھینسے اور ان کی بھینسنیاں ہیں کہ کسی کو خاطر میں لاتی ہی نہیں۔بعض دفعہ ایک جوان افریقی بھینسا ببر شیر جیسے طاقت ور درندے کو بچھاڑ کر رکھ دیتا ہے۔مگر افریقن بھینسیں اکیلی رہتی ہی کب ہیں۔؟وہ جتھوں کی صورت میں رہتی ہیں۔ان کا اتحاد مثالی ہے۔اگر کوئی بچہ کسی بھینس کے پیدا ہو جائے تو اسے درمیان میں رکھ کر اردگرد گھیرا ڈال لیتی ہیں۔مجال کہ کوئی شیر بہادر قسم کا جانور قریب پھٹک جائے۔بھینسے اور ان کی بھینسیاں ایک تو طاقت ور،پھر جنگلی اور اوپر سے جتھوں کی شکل میں،پھراجارہ داری اور بدمعاشی۔لِہٰذا گائے ان بڑے چوپاؤں میں بہت ہی شریف اور ملن سار قسم کا جانور ہے۔اب تک ہم بس اتنا ہی جانتے تھے کہ ایک بڑی خبر،پڑوسی دیش کے مہان پترکاروں اور اچاریہ لوگوں کے انوسار،یہ ملی کہ گائے صرف گائے نہیں ہے بلکہ مہان قسم کی شکتیاں اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔مثلا گائے کے دودھ میں گولڈ یعنی سونا تو پہلے سے تھا اس لیے کہ گائے کا دودھ سنہری سنہری آمیزش لیے ہوتاہے۔اب جب کہ ٹیکنالوجی نے ترقی کر لی ہے تو یہ پتا چلا کہ گائے کے ”موتر“ میں بھی سونا موجود ہے۔اس خبر پر ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہمارے ہاں سب کے اوسان خطا ہو جاتے۔مگر ہو ا کچھ اور،وہ یہ کہ ہمارے ہاں خوامخوا ہ کا مذہبی تعصب سامنے آگیا۔بڑے بڑے ملا مولانا ٹیکنالوجی کی اس سچائی کو ماننے سے ہی اِنکاری ہو گئے۔بلکہ ایسے ہنسے جیسے کوئی لطیفہ ہوا ہو۔گائے کے بارے میں یہ اب تک کی بڑی خبر تھی۔پڑوسی دیش میں گائے کولے کر کافی چرچا ہوتی ہی رہی ہے۔مگر ہم اپنی ملایت (اور جیسے کہ آپ کو پتا ہے) اس کے پیچھے چھپی،ننگی جہالت کے آئینے سے ہی اس چرچا کو دیکھتے رہے تھے۔مگر کل ہی ایک ویڈیو کلپ ہمارے ہاتھ لگا۔پہلے پہل اسے ہم کسی ”آتنک وادی“ کی شرارت سمجھے۔لیکن بار بار دیکھنے پر ہمیں یقین ہو گیا کہ یہ کسی آتنک واد کا نہیں ٹھیک ٹھیک ناسا کے ویگیانکو ں کی باکل صحیح  وچار دھارا ہے۔ٹی وی پروگرام سے جڑے ایک مہمان جو بھارت میں ڈیفنس آفیسر رہ چکے،نے بتایا کہ”گائے کا دھر م وچار سے نہیں بلکہ ”دیش کی سنسکریتی“ سے تعلق ہے۔کسی ملک پر”پرمانوبم“گرنے کاخطرہ ہو تو وہاں کھائی کھودکر اس پر بنیاں بنائیے پھر ٹھیک گائے کا ہی گوبر ہو، اس کا ڈیڑھ فٹ لیپ دیجیے۔بس آپ پرمانو بم کی ریڈی ایشن سے بچ جائیں گے۔ڈیفنس آفیسر نے ٹی وی اینکر کو یہ بھی بتایا کہ یہ نا سا کے ویگیانکوں (سائنس دانوں) کا کہنا ہے اور اس میں کسی طرح کی بھی دھرم چاری نہیں ہے۔بالکل سپشٹ روپ سے سیدھی بات کی جارہی ہے۔ مزید یہ کہ اگر آپ اپنے جسم پر گائے کے گوبر کا لیپ کر دیں تو ریڈی ایشن آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گی،اب جب ناسا کے ویگیانک کڑی وچار کے بعد یہ کھوج کرنے میں کامیاب ہو گئے تو تما م پرمانو بم اور پرمانو طاقتیں ایک دوسرے کا منہ چڑھا رہی ہوں گی۔یہ کھوج اگر پہلے مل جاتی تو ہیرو شیما اور ناگا ساکی کی جگہ حلیہ کچھ اور ہوتا۔اب مفت میں جب یہ فارمولا انڈیا کے ایک ڈیفنس آفیسر سے ہمارے ہاتھ لگ ہی گیا ہے تو ہمیں فوراً گائے کا گوبراور موتر وافر مقدار میں اکٹھا کر ہی لینا چاہیے۔ایسے میں اپنے بم کا بھی کوئی فائدہ نہیں کیوں کہ وہ اب سرے سے ناکارہ ہے۔گائے کا گوبر اور موتر مل کر اس کاریڈی ایشن حملہ نشٹ کر دیں گے۔اگر ہو سکے تو بھارت کے ساتھ امن کر کے ایک لمبی چوڑی گاؤ موتر کی گُپت تجارت شروع کر دی جائے۔اب جب کہ بھارت جیسے مہان اور اربوں کھربوں آبادی والے دیش نے ناسا کا ساتیاناس کر دیا ہے تو ناسا کھڑا کھڑا منہ کیا دیکھ رہا ہے۔ترنت بھارت سے گائے کاگوبر اور بڑے بڑے جہازوں میں موتر خریدکر لے جائے اور اسے وائٹ ہاوس اور تل ابیب کے چپے چپے پرمل ڈالے۔سارے خفیہ کمپوٹرز،لیپ ٹاپ اور لیبارٹریوں میں یہ لیپائی بھارت کی مہیلاؤں سے کروائی جائے۔وہ اس فن میں صدیوں کا تجربہ رکھتی ہیں۔ہر خفیہ فائل پر گاو موتر سپرے کیا جائے۔ویسے بھی پرمانو ہتھیاروں کا کوئی پتہ نہیں وہ زیر زمین سرکتے رہتے ہیں۔اس کی کئی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں۔مثلاً عراق میں پرمانو ہتھیا ر تھے جنگ کے بعد وہ وہاں سے صدام حسین ملا لیکن پرمانو کہیں اور چلے گئے،لیبیا میں قذافی ملا مگر پرمانو ہتھیار وہاں سے بھی آگے چلے گئے۔وہ ابھی تک چھپتے پھر رہے ہیں۔کل شاید ایران میں ان کی خبر ملے مگر وہاں ایران ہے تلاش آسان نہیں ہو گی۔آگے سے پاسبان ملے گی،علی شریعتی کے جانثار ہو ں گے مگر پرمانو نہیں ہوں گے۔کیا پتہ زیر زمین سفر کرتے کرتے طالبان تک جاپہنچیں؟ پھر کیا ہو گا؟ اگر وہ فلسطینوں کے پاس چھپ کر چلے گئے تو۔؟ ایسے میں تل ابیب اور وائٹ ہاوس کو بچانا تو ہو گا۔جیسے تل ابیب ضروری ہے وہاں وائٹ ہاوس ضروری ہے،بالکل ایسے ہی گائے ضروری ہے۔موتر ضروری ہے اور گوبر ضروری ہے۔ہاں بقول بھارتی ڈیفنس آفیسر کے گوبر،موتر فارمولا گوگل پر بھی موجود ہے۔ضرور کسی آتنک وادی نے یہ فارمولا را کے خفیہ دل سے اڑایا ہے۔ ناسا نے تحقیق میں یہ بھی بتایا ہے کہ گاو موتر سے کٹانو ختم ہوجاتے ہیں۔اب یہ سرا سر پبلک بم ہے جو سرے عام پھٹ گیا ہے۔جراثیم کش ادویات تیار کرنے والی کمپنیوں کا تو۔۔۔ اب تو۔۔۔ سب ہو گیا۔۔نشٹ۔

Facebook Comments

محمد جاوید خان
جاوید خان راولاکوٹ آزادکشمیر سے تعلق رکھتے ہیں. شعبہ تدریس سے منسلک ہیں. سفرنامے لکھتے ہیں اور مکالمہ خاندان کا اہم رکن ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply