رائٹ ٹو انفارمیشن اور خیبرپختونخوا حکومت۔۔۔ساجد محمود خان

کسی بھی ریاست اور اس کے باشندوں کے درمیان ایک معاہدہ ہوتا ہے جس کے تحت اس ریاست کے باشندے اپنا اختیارFree will کو ریاست کے سپرد کردیتے ہیں اور بدلے میں ایک بہتر اور پُرامن زندگی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ریاست اور اس کے باشندوں کے تعلق اور نوعیت پر اکثر و بیشتر ما ہر سیاسیات اور عمرانیات میں کچھ اختلاف پایا جاتا ہے مگر اس بات میں قطعی دو رائے نہیں ہے کہ ایک مثالی ریاست ماں کی طرح ہوتی ہے جس کا کام اپنے باشندوں کو ہر لحاظ سے بہتر زندگی فراہم کرنا ہے۔ اس سلسلے میں ریاستی اداروں کی طرف سے وقتاً فوقتاً قانون سازی کی جاتی ہے تا کہ لوگوں کے مفادات کا تحفظ ہو سکے اور ان کا معیار زندگی بھی بلند کیا جا سکے۔
رائٹ ٹو انفارمشن کا قانون بھی اسی طرح کے قوانین میں ایک قانون ہے جس سے ریاستی اداروں اور عوام کے درمیان فاصلہ کم کر کے انہیں ایک دوسرے کے قریب لاکرلوگوں کا معیار زندگی بلند کیا جا سکے۔ رائٹ ٹو انفارمیشن ( Right to Information ) کا قانونی مطلب یہ ہے کہ ان معلومات تک رسائی کا حق جو کسی بھی سرکاری ادارے کے پاس ہو یا عام زبان میں اسے حکومتی معاملات سے متعلق معلومات تک رسائی کا حق بھی کہتے ہیں ۔ رائٹ ٹو انفارمیشن کو معلومات تک رسائی یا جاننے کا حق ہے یا معلومات کی آزادی سے بھی جانا جاتاہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 1946 میں اپنی قرارداد نمبر (1)59 میں آزادی معلومات کو انسان کا بنیادی حق قرار دیا ہے جسے بعد میں یونیورسل ڈیکلریشن آف ہیومن رائٹس UDHR 1948 کے آرٹیکل 19 میں بھی شامل کیا گیا ہے جس کے مطابق ہر شخص کے پاس اظہار رائے کی مکمل آزادی ہے اور وہ کسی بھی قسم کی معلومات کو آزادانہ طور پر کسی بھی واسطے سے بھیج سکتا ہے۔ پاکستان کے 1973 کے آئین کے آرٹیکل 19 بھی اظہار رائے کی ضمانت دیتا ہے۔

1923میں برطانیہ کے حکمرانوں نے برصغیر پاک وہند میں ”آفیشل سیکرٹ ایکٹ”کے نام سے ایک قانون بنایا تھا۔ اس قانون کے تحت شہریوں کو حکومتی معلومات سے محروم کرنے کیلئے ایک قانونی راستہ صاحب اقتدار کے ہاتھ میں تھمایا گیا تھا۔ اس قانون کے تحت ہمارے ملک کی بیوکریسی کئی برسو ں سے خود کو احتساب سے بالاتر سمجھ رہی تھی اور ان سے سوال کرنے کا حق کسی بھی شہری کو حاصل نہیں رہا ، تاہم وفاقی سطح پر پاکستان کے آئین میں اٹھارویں ترمیم کے ذریعے آرٹیکل 19 میں شق A شامل کر کے معلومات تک رسائی کے حق کو ہر شہری کا بنیادی آئینی حق تسلیم کیا گیا ہے۔ 2013میں جب پی ٹی آئی کی حکومت نے خیبر پختونخوا اسمبلی میں ایک ایسا قانون پیش کیا جس نے پہلی مرتبہ صوبے کے سرکاری اداروں کو صوبے کی عوام کے سامنے جواب دہ بنا دیا ہے۔

دنیا کے 120 سے زائد ممالک میں معلومات تک رسائی کے قوانین پہلے سے ہی موجود ہیں جس سےاحتساب کے عمل کو شفاف اور بہتر بنانے میں مدد ملتی ہے۔ رائٹ ٹو انفارمیشن کے حق کو قانون کے طور پر سب سے پہلے سویڈن نے 1976 میں متعارف کرایا تھا. کسی بھی جمہوری معاشرے میں احتساب کا عمل حکومت کو شفاف طریقے سے چلانے   اور ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ معلومات تک رسائی میں آسانی سے نہ صرف عوام اور حکومتی اداروں کے درمیان بہت سے مسائل کو آسانی سے حل کرنے میں مدد دیتے ہیں بلکہ اس سے عوام کا حکومت پر اعتماد بھی بحال رہتا ہے اس سلسلے  میں حکومت خیبر پختونخواہ کا ایک نہایت احسن قدم خیبرپختونخوا رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ 2013 نے صوبے کی عوام کو مزید بااختیار بنانے میں اہم کردار ادا کیاہے جس سے وہ کسی بھی سرکاری ادارے سے معلومات یا ریکارڈ کو مروجہ قوانین کے تحت طلب کرسکتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اگر اس قانون کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے ہے کہ یہ قانون ہر لحاظ سے ایک بہترین قانون ہے جس سے عوام مستفید ہو سکتے ہیں۔ اس قانون سے مستفید ہونےوالے ہر شہری کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ اس قانون کو سمجھ کر اپنی ضرورت کے مطابق اسے استعمال کریں۔ رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کے تحت کسی بھی معلومات یا ریکارڈ کے لیے   درخواست لکھ کر   مطلوبہ پتے پر  بھیجی جاتی ہے۔ جبکہ معلومات حاصل کرنے کے لیے    اپنا درست پتہ جس پر معلومات درکار ہوں کو مطلوبہ پتہ پر درخواست بھیجی جاسکتی ہیں۔ یہاں پر یہ بتانا ضروری ہے کہ اس قانون کے تحت ایسی حساس معلومات کو استثناء حاصل ہے  جس  سے کسی بھی قسم کے نقصان کا اندیشہ ہو ،جیسے قانون نافذ کرنے والے اداروں سے متعلق حساس معلومات، کسی کے معاشی معاملات، قانون سازی یا کوئی اور ایسی معلومات جن سے کسی قسم کے  انفرادی یا اجتماعی نقصان کا اندیشہ ہو۔ عوام کی طرف سے سے رائٹ ٹو انفارمیشن کے قانون کے صحیح استعمال سے نہ صرف اداروں کی کارکردگی کو بہتر بنایا جا سکتا ہے بلکہ سرکاری اداروں میں احتساب کے رجحان کو مزید فروغ دیا جا سکتا ہے۔

Facebook Comments

ساجد محمود خان
۔ سیاسیات کا طالب علم۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply