• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • عالمی شہرت یافتہ پاکستانی ادیب ، شاعر،دانشور،نقاد ،محقق اور انشائیہ نگار،ڈاکٹر وزیر آغا(حصّہ اوّل)

عالمی شہرت یافتہ پاکستانی ادیب ، شاعر،دانشور،نقاد ،محقق اور انشائیہ نگار،ڈاکٹر وزیر آغا(حصّہ اوّل)

عالمی شہرت کے حامل مایہ ناز پاکستانی ادیب ،دانشور، نقاد ،محقق اور انشائیہ نگار ڈاکٹر وزیر آغا سراپا خلوص و مروت اور انسانی ہمدردی کا پیکر تھے ۔انسانیت کے وقار اور سر بلندی کو وہ دل و جان سے عزیز رکھتے اور بنیادی انسانی حقوق کے وہ بہت بڑے محافظ خیال کیے جاتے تھے ۔وہ سلطانی جمہور کے زبردست حامی اور حریت فکر و عمل کے مجاہد تھے ۔اردو زبان و ادب کے فروغ کے لیے انھوں نے جو فعال اور تاریخی کردار ادا کیا وہ اپنی مثال آپ ہے ۔تاریخ ہر دور میں ان کے نام کی تعظیم کرے گی
برس گیا بہ خرابات آرزو تیرا غم
قدح قدح تیری یادیں سبو سبو تیرا غم

18 مئی 1922کو سرگودھا کے گاؤں وزیر کوٹ سے طلوع ہونے والا آفتاب جس نے اکناف عالم کا گوشہ گوشہ منور کیا ۔ ستمبر 2010 کی شام کو غروب ہوگیا۔ ڈاکٹر وزیر آغا کی المناک وفات نے اردو تنقید کو مفلس اور قلاش کردیا ہے۔ وہ ایک کثیر الجہتی شخصیت تھے۔ ان کے متنوع اسلوب کا ایک عالم معترف تھا ۔انھوں نے اردو نثر ، اردو شاعری ، اردو انشائیہ ، سوانح نگاری ، تحقیق ، تنقید اور تاریخ میں وہ کارہائے نمایاں انجام دیئے کہ دنیا بھر میں ان کی خدمات کا اعتراف کیا گیا ۔ڈاکٹر وزیر آغا ایک باکمال ادیب لازوال تخلیق کار ، بے مثال دانشور ، نابغہ روزگار نقاد ، حریت فکر کے مجاہد اور عظیم انسان تھے ۔ انھوں نے اردو ادب کی ثروت میں جو بے پناہ اضافہ کیا ۔ وہ تاریخ ادب میں سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔ڈاکٹر وزیر آغا نے اردو زبان وادب کے فروغ کے لیے تمام وسائل اور عمر عزیز وقف کر رکھی تھی ۔ اپنی زندگی کے آخری ایام میں بھی وہ پرورش لوح و قلم کا فریضہ انجام دیتے رہے ۔

آلام روزگار کے مہیب بگولوں میں بھی انھوں نے حریت ضمیر سے جینے کے لیے اسوہءشبیر کو اپناتے ہوئے حریت فکر و عمل کا علم بلند رکھا ۔ڈاکٹر وزیرآغا کا تعلق فارسی بولنے والے ایرانی النسل قزلباش خاندان سے تھا۔ان کے والد کا آبائی پیشہ تجارت تھا اور وہ گھوڑوں کی تجارت سے روزی کماتے تھے جب پورا برصغیر برطانیہ کی نو آبادی تھا تو اس دوران میں ڈاکٹر وزیر آغا کے والد کو برصغیر کے برطانوی حکمرانوں کی طرف سے 750 ایکڑ(3.0 Km2) پر مشتمل ایک جاگیر عطا کی گئی یہ جاگیر ضلع سرگودھا میں وزیر کوٹ قصبہ میں اب بھی ان کے ورثا کی تحویل میں ہے اور یہاں کھیتی باڑی کی جاتی ہے ۔ڈاکٹر وزیر آغا نے فارسی زبان اپنے والد سے سیکھی اور پنجابی ان کی مادری زبان تھی ۔جہاں تک انگریزی زبان کا تعلق ہے انھوں نے انگریزی زبان کی استعداد اپنے انگریزی بولنے والے احباب سے گہرے ربط اور تبادلہ خیال اور وسیع مطالعہ کے ذریعے حاصل کی۔انگریزی زبان و ادب پر انھیں کامل دسترس حاصل تھی ۔انھوں نے دریدا،رولاں بارتھ ،سوسیئر اور لاکاں کا عمیق مطالعہ کیا اور ان کے خیالات پر اپنے مدلل دلائل سے اردو تنقید کا دامن متنوع نظریات سے مالا مال کردیا۔

زمانہ طالب علمی ہی سے انھیں عالمی ادبیات اور شاعری سے گہری دلچسپی تھی ۔انھوں نے عالمی کلاسیک کا تفصیلی مطالعہ کیا اور ان کے خیالات سے بھر پور استفادہ کر کے اردو ادب کو دھنک رنگ مناظر سے مزین کر دیا۔پنجابی کلاسیکی شاعری سے انھیں گہری دلچسپی تھی ۔جھنگ میں قیام کے دوران میں انھیں حضرت سلطان باہو کی شاعری سے دلچسپی پیدا ہوئی۔انھوں نے ابیات باہو کا مطالعہ کیا اور سلطان باہو کے کئی بیت انھیں زبانی یاد تھے ۔یہ بیت سن کر تو وہ فرط عقیدت سے اشکبار ہو جاتے اور آنسو ضبط کر نا محال ہو جاتا۔ ع
تاڑی مار اڈا نہ سانوں اسیں آپے اڈن ہارے ہو

اپنے آبائی گاؤں سے ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ڈاکٹر وزیر آغا نے تاریخی مادر علمی گورنمنٹ کالج جھنگ میں انٹرمیڈیٹ کلاس میں داخلہ لیا ۔وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ گورنمنٹ کالج جھنگ محض درسگاہ نہیں بلکہ یہ تو ایک درگاہ ہے جہاں قسمت نوع بشر تبدیل ہو جاتی ہے ۔یہاں حاضری دینے والے گوہر مراد پاتے ہیں اور یہاں ذرے کو آفتاب بننے کے بے شمار مواقع میسر ہیں۔جو اس ادارے کی عظمت کا معترف نہیں وہ آپ بے بہرہ ہے ۔گورنمنٹ کالج جھنگ میں ڈاکٹر وزیر آ غا کو نابغہءروزگار اساتذہ سے استفادہ کا موقع ملا۔ وہ جن اساتذہ کا نام بڑی عزت و احترام سے لیتے تھے ان میں رانا عبدالحمید خان،سی ۔ایم صادق،ایم۔اے خان ،غلام رسول شوق اور ڈاکٹر نذیر احمد کے نام قابل ذکر ہیں ۔یہ وہ آفتاب و ماہتاب ہیں جن کے افکار کی ضیا پاشیوں نے اذہان کی تطہیر و تنویر کا نہایت موئثر اہتمام کیا ۔گورنمنٹ کالج جھنگ میں ڈاکٹر وزیر آغا کے ہم جماعت پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام (نوبل انعام یافتہ پاکستانی سائنس دان)بھی تھے ۔سردار باقر علی خان بھی ان کے ہم جماعت تھے ۔ سردار باقر علی خان بعد میں انڈین سول سروس کے امتحان میں اول آئے اور ملتان کے کمشنر مقرر ہوئے۔ان کی یادوں کا مسودہ” قصہ ایک درویش کا “ ان کے آبائی گھر واقع ٹھٹھی لنگر تحصیل جھنگ موجود ہے اس میں انھوں نے اپنے زمانہ ءطالب علمی کی تمام یادیں قلم بند کی ہیں۔

گورنمنٹ کالج جھنگ کے علمی ادبی ماحول نے ڈاکٹر وزیر آغا کے ادبی ذوق کو صیقل کیا اور وہ اس کالج کے علمی و ادبی مجلے چناب کے مدیر متعلم منتخب ہو گئے ۔یہ انتخاب مقابل مضمون نویسی میں اول آنے کی بدولت وہ جیتے ۔اس سے ان کی خدا داد ذہانت اور تخلیقی استعداد کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔ڈاکٹر وزیر آغا کی ادارت میں ”چناب“ نے یاد گار اشاعتوں کا اہتمام کیا ۔گورنمنٹ کالج جھنگ میں ڈاکٹر وزیر آغا نے ادبی نشستوں کا اہتمام کیا ۔شام کو منعقد ہونے والی ان ادبی نشستوں میں اس وقت کے ممتاز ادیبوں کو مدعو کیا جاتا تھا۔ان میں سید جعفر طاہر ،مجید امجد ،شیر افضل جعفری ،کبیر انور جعفری ،صاحبزادہ رفعت سلطان،سید مظفر علی ظفر، خادم مگھیانوی ،الحاج سید غلام بھیک نیرنگ ،غلام محمد رنگین ، امیر اختر بھٹی ،بلال زبیری ،تقی الدین انجم علیگ اور صدیق لالی کے نام قابل ذکر ہیں۔جھنگ کی ادبی تاریخ میں یہ محافل ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی ۔ ڈاکٹر وزیر آغا ان ادبی محفلوں کی روح رواں تھے ۔زمانہ لاکھ ترقی کرے ایسی ہستیاں اب دنیا میں کہاں
سب کہا ں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں

گورنمنٹ کالج جھنگ سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد ڈاکٹر وزیر آغا گورنمنٹ کالج لاہور پہنچے اور معاشیات میں ایم ۔ اے کی ڈگری حاصل کی ۔1953 میں ان کی کتاب ” مسرت کی تلاش میں “ منظر عام پر آئی ۔1956 میں انھوں نے ” اردو ادب میں طنز و مزاح “ کے موضوع پر تحقیقی مقالہ لکھ کر پی ایچ۔ڈی کی ڈگری حاصل کی ۔1960میں ان کی ادبی زندگی کا درخشاں دور شروع ہوا جب وہ مولانا صلاح الدین احمد کے رجحان ساز ادبی مجلے ”ادبی دنیا “کے مدیر معاون مقرر ہوئے۔وہ مسلسل تین سال تک اس ممتاز ادبی مجلے کے ساتھ وابستہ رہے اور مولانا صلاح الدین احمد سے اکتساب فیض کیا۔1965میں ڈاکٹر وزیر آغا نے اپنا الگ ادبی مجلہ ”اوراق “ شائع کیا۔اوراق کی اشاعت سے ان کی تخلیقی ،تنقیدی اور تجزیاتی آرا کھل کر سامنے آتی چلی گئیں ۔اس ادبی مجلے کو عالمی سطح پر خوب پذیرائی نصیب ہوئی۔اس ادبی مجلے نے مسلسل چار عشرو ں تک فروغ علم و ادب کے سلسلے میں جو گراں قدر خدمات خدمات انجام دیں ان کا پوری دنیا میں اعتراف کیا گیا ۔ڈاکٹر وزیر آغا کی وفات سے چند برس قبل اس مجلے کی اشاعت تعطل کا شکار ہو گئی۔ڈاکٹر وزیر آغا کی علالت کے باعث ”اوراق“ عارضی تعطل کا شکار ہوا مگر اب ان کی وفات کے بعد یہ روشن ستارہ بھی گہنا گیا ہے اب ” اوراق“ تاریخ کے ان طوماروں میں دب گیا ہے جہاں افکار ،فنون،ادبی دنیا اور تہذیب الاخلاق پہلے سے موجود ہیں ۔ایسے مجلات جن کی ضیا پاشیوں سے سفاک ظلمتوں کو کافور کرنے میں مدد ملی اب ماضی کا حصہ بن چکے ہیں ۔وہ آفتاب و ماہتاب جو افق علم و ادب پر نصف صدی سے زائد عرصے تک اپنی تابانیاں بکھیرتے رہے اب گہنا چکے ہیں ۔ایسے دانائے راز اب کہاں
ڈھونڈو گے ہمیں ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
تعبیر ہے جس کی حسرت و غم اے ہم نفسو وہ خواب ہیں ہم

ڈاکٹر وزیر آغا کی ابتدائی نظمیں1948 میں جب مولانا صلاح الدین کے ادبی مجلے ” ادبی دنیا “ میں شائع ہوئیں تو ممتاز ادیبوں نے انھیں بہت سراہا اور ان کے کلام کو بہت پزیرائی حاصل ہوئی ۔ یہ وہ دور تھا جب وہ گورنمنٹ کالج جھنگ میں زیرتعلیم تھے ۔ڈاکٹر وزیر آغا نے اردو تنقید اور تحقیق کو مقاصد کی رفعت میں ہمدوش ثریا کر دیا ۔پنجاب یونیورسٹی لاہور کے زیر اہتمام شائع ہونے والی کتاب ” تاریخ ادبیات مسلمانان پاکستان و ہند میں ان کے اہم تحقیقی مقالات بہت اہمیت کے حامل ہیں۔اردو دائرةالمعارف میں ان کی شمولیت سے اس گراںقدر تصنیف کی ثقاہت کا ایک عالم معترف ہو گیا ۔ان کے والد وسعت علی خان نے جب انھیں گورنمنٹ ہائی سکول لالیاں تحصیل چنیوٹ ضلع جھنگ میں ابتدائی کلاسز میں داخل کرایا تو اس وقت سے جھنگ شہر سدا رنگ کی علمی و ادبی روایات سے وابستہ ہو گئے ۔میاں صدیق لالی سے ان کی شناسائی اس عرصے میں ہوئی۔ اس سے یہ حقیقت روز روشن کی طر ح واضح ہوجاتی ہے کہ ڈاکٹر وزیر آغا کی ادبی تربیت میں جھنگ کی ممتاز ادبی شخصیات کا نمایاں حصہ ہے ۔ڈاکٹر وزیر آغا کی ساٹھ کے قریب وقیع تصانیف ہیں ۔انھوں نے تما م عمر علم و ادب کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے رکھا ۔اپنے آبائی پیشہ زراعت کے علاوہ باقی وقت کتابیں ان کا چمن ہوتی تھیں۔ڈاکٹر وزیرآغا کی تصانیف کو علمی ادبی حلقوں میں جو شرف قبولیت نصیب ہوا وہ تاریخ ادب کا ایک درخشاں باب ہے ۔
ان کی تصانیف درج ذیل ہیں:-
۔ اردو ادب میں طنز و مزاح 1958
۔ تخلیقی عمل 1970
۔ اردو شاعری کا مزاج 1965
۔ تصورات عشق و خرد اقبال کی نظر میں 1977
۔ مجید امجد کی داستان محبت 1991
۔ غالب کا ذوق تماشا 1997
۔ نظم جدید کی کروٹیں 1963
۔تنقید اور احتساب 1968
۔ نئے مقالات 1972
۔ نئے تناظر 1979
۔ معنی اور تناظر 1998
۔ تنقید اور مجلسی تنقید 1975
۔ دائرے اور لکیریں 1986
۔ تنقید اور جدید اردو تنقید 1989
۔ انشائیے کے خدوخال 1990
۔ ساختیات اور سائنس 1991
۔ دستک اس دروازے پر 1994
۔ امتزاجی تنقید اور سائنس فکری تناظر 2006
۔ شام کی منڈیر سے (خود نوشت)
۔شام اور سائے (شاعری)
۔دن کا زرد پہاڑ (شاعری)
۔نروان (غزلیں)
۔آدھی صدی کے بعد (شاعری)
۔خیال پارے (انشائیے)
۔چوری سے یاری تک (انشائیے)
۔دوسرا کنارہ (انشائیے)
۔شام دوستاں آباد (خاکے)

جاری  ہے

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ تحریر اقتدار جاوید صاحب کی فیس بک وال سے شکریہ کیساتھ نقل کی گئی ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply