• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • کیا خدا نے امن کی آواز “جان لینن” کو قتل کرنے کا حکم دیا تھا؟۔۔۔انور اقبال

کیا خدا نے امن کی آواز “جان لینن” کو قتل کرنے کا حکم دیا تھا؟۔۔۔انور اقبال

زیرِ نظر تصویر “جان لینن” کی آخری تصویر ہے، جس میں اُن کے قاتل “مارک ڈیوڈ چَیپ مین” جان لینن کو قتل کرنے سے کچھ دیر قبل ان سے آٹوگراف لے رہے ہیں۔
وہ آٹھ دسمبر 1980 کا دن تھا جب صبح گیارہ بجے “نیو یارک” میں امن اور انسانیت کی عظیم آواز کو اُن کے گھر کے باہر صرف اس وجہ سے گولیاں مار کر قتل کردیا گیا کہ برسوں پہلے انہوں نے اپنے مشہور زمانہ بینڈ “بیٹلز” کے بارے میں غالباً 1966 میں ایک بار کہا تھا کہ
“بیٹلز، یسوع سے بھی زیادہ مشہور ہے…”
قتل کے وقت “جان لینن” کی عمر صرف چالیس برس تھی۔
قاتل “مارک ڈیوڈ چَیپ مین” کو گرفتار کر کے مقدمہ چلایا گیا، اپنے مقدمے کی سماعت کے دوران اُس نے بتایا تھا کہ؛
“مجھے خدا نے ایسا کرنے کے لئے کہا تھا۔ خدا میرے خواب میں آئے اور مجھے “جان لینن” کو قتل کرنے کا حکم دے گئے۔۔۔”
تو اس قتل کا حکم “خدا” نے “مارک ڈیوڈ چَیپ مین” کو بذریعہ “خواب” دیا تھا۔

وہ جو جنگوں کا شدید مخالف تھا. جس نے امریکا کے ریاستی اداروں کے سر میں درد کر رکھا تھا…
وہ جو امن کیلئے گیت تخلیق کرتا تھا اور پھر ان گیتوں کو گا کر لاکھوں سننے والوں کو امن کیلئے بولنے پر اُکساتا تھا۔
وہ جو ویتنام نام جنگ کے خلاف ہزاروں نوجوانوں کو امریکا کے خلاف امریکا میں ہی سڑکوں پر لے آیا تھا۔
وہ جو اپنی مختصر سی عمر میں “عمر بھر” سب کے لئے برابری کی بات کرتا رہا تھا۔۔۔
تو خدا نے اسے ہی مارنے کا حکم دیا تو کیوں دیا۔۔۔؟؟؟
قاتل کا یہ دعویٰ “مسترد” ہوا اور اُسے “بیس سال” کی “سزائے قید” سنائی گئی۔۔۔ سن دوہزار میں ہمارے محبوب گلوکار کے قاتل “مارک ڈیوڈ چَیپ مین” کو دی جانے والی بیس سال کی سزا کی معیاد مکمل ہو چکی ہے لیکن اس کے باوجود وہ اب بھی قید میں ہے۔۔۔ اسے اس قتل کے جرم میں قید ہوئے اب چالیس سال بیت چکے ہیں۔۔۔ وہاں کے قانون کے مطابق اپنی سزا کی مدت پوری کر لینے کے بعد قیدی کے پاس یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ جیل حکام کو رہائی کے لیے “اپیل” کرے کہ مجھے دی جانے والی سزا کی معیاد مکمل ہو چکی ہے۔۔۔ اب یہ جیل حکام پر منحصر ہے کہ وہ قیدی کی اپیل پر کیا کاروائی کرتے ہیں یا اُس قیدی کے لیے مزید کیا تجویز کرتے ہیں۔۔۔ وہاں کے قانون کے مطابق جب ایک بار کسی سزا یافتہ قیدی کی “اپیل” نامنظور ہو جاتی ہے تو   پھر وہ دوسری “اپیل” دو سال مکمل ہونے کے بعد کرنے کا پابند ہوتا ہے۔
سن دوہزار سے اب تک وہ دس بار “اپیل” کر چکا ہے لیکن ابھی تک اس کی کسی بھی اپیل کو منظور نہیں کیا گیا۔ اس عرصے کے دوران ایک حیران کُن بات یہ ہوئی ہے کہ وہ اب اپنے اُس پرانے بیان سے پھر کیا گیا ہے کہ خدا نے اُس کو قتل کرنے کا حکم دیا تھا۔۔۔
“مارک ڈیوڈ چَیپ مین” نے جان لینن کی بیوہ سے بھی معافی مانگی ہے جس میں اس نے برملا طور پر اعتراف کیا ہے کہ میں نے غلط کام کیا اور اب مجھے اپنے اس فعل پر بہت شرمندگی ہے۔
تقریباً چالیس سال کی سزا کاٹنے کے بعد اُس کو اپنے کیے پر ندامت ہو رہی ہے۔ یہ ہم سب کے لیے خوشی کی بات ہے کہ قاتل کو اپنے سنگین جرم پر سزا کی معیاد مکمل ہونے اور پھر مزید بیس سال قید میں زندگی گزارتے ہوئے پشیمانی کا احساس ہوا ہے۔ اگر ہم اپنے ارد گرد کا جائزہ لیں تو باآسانی ہمیں اس طرح کی مثالیں مل جائیں گی جس میں کسی قاتل نے اپنے مذہبی جذبات سے مشتعل ہو کر کسی بےگناہ کو قتل کر دیا۔۔۔ کسی بےگناہ کو زدوکوب کیا یا پھر کسی بپھرے ہوئے ہجوم نے مذہب کے نام پر کسی نہتے انسان کو تشدّد کر کے ہلاک کر دیا۔۔۔ اور وہ قاتل اپنے جرم پر پشیمان ہونے کے بجائے بڑے فخریہ انداز میں اس بات کا اظہار کرتے ہوئے سنائی دیتے ہیں کہ ہم نے جو کیا درست کیا، ہمیں کوئی شرمندگی نہیں۔۔۔ میرے خیال میں “مارک ڈیوڈ چَیپ مین” کا کیس ہمارے جیسے معاشروں کے لیے ایک روشن مثال ہے، اگر ہم غوروفکر کرنا چاہیں تو اس کیس سے فکری طور پر بہت کچھ حاصل کر سکتے ہیں۔
1957 میں اپنے فنّی سفر کا آغاز کرنے والے جان لینن اور ان کے کچھ دوست ایک برطانوی بینڈ “کُواری مَین” میں شامل تھے۔ آئندہ چند سالوں کے دوران اس بینڈ کے ارکان بدلے اور 1960 تک بینڈ کا نام “دی بیٹلز” بن گیا.
“دی بیٹلز” کے نام سے یہ بینڈ جب 1964 میں امریکا گیا تو “ہوائی اڈے” پر اترتے ہی ہزاروں چلّاتے ہوئے امریکی نوجوان گرم جوشی سے آکر انہیں ملے۔ ان کی غیرمعمولی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ دنیا بھر میں وہ جہاں کہیں بھی گئے تو چلّاتے ہوئے پُرجوش نوجوانوں کا ہجوم انہیں گھیر لیتا تھا۔
امریکی ٹی وی پر پہلی بار ان کی براہِ راست نمائش 9 فروری 1964 کے دن “اَیڈ سلِیون شو” پر ہوئی تھی۔ اس شو کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جب یہ نشر ہوا تو اسے تقریباً سات کروڑ 40 لاکھ ناظرین نے دیکھا۔۔۔ آسان لفظوں میں ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ امریکا میں اُس وقت کی تقریباً آدھی آبادی نے ان کے شو کو دیکھا تھا۔
جان لینن کو بیسویں صدی کا مشہور، متاثر کُن اور متنازع گلوکار بھی مانا جاتا ہے۔ ان کا سب سے زیادہ مشہور گیت ’اِمیجن‘ بیسویں صدی کے سو مقبول ترین گیتوں میں شامل ہے اور گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ کے مطابق اسے ہر دور کے پانچ سو سدا بہار گانوں کی فہرست میں بھی شامل کیا گیا ہے۔ یہاں ذیل میں ہم امن اور انسانیت کی علامت دی گریٹ جان لینن کے مشہورِ زمانہ گیت “اِمیجن” کا ہی ترجمہ شامل کر رہے ہیں؛

“سوچو کوئی بہشت نہ ہو
قدموں تلے دوزخ نہ ہو
ہم سب آج میں زندہ ہوں
سوچو کوئی مُلک نہ ہو
مرنے مارنے کا سبب نہ ہو
مذہب بھی نہ ہو
سب پُرامن رہ رہے ہوں
سوچو کوئی ملکیت نہ ہو
نہ لالچ ہو نہ بھوک
بس بھائی چارہ ہو
اور اس دنیا کے سب حصے دار ہوں
تم شاید کہو کہ میں خواب پرست ہوں
پر میں ایسا تنہا تو نہیں
شاید ایک روز تم بھی میری طرح سوچو
اور یہ دنیا یک جان ہو جائے۔۔۔”

Advertisements
julia rana solicitors london

امن جو ہم سب کی ضرورت ہے۔ اس دنیا کو امن و آشتی کا گہوارہ بنانے کی چاہ میں کتنے عظیم لوگ اپنی جانوں کا نذرانہ دے چکے ہیں اور یہ سلسلہ ابھی تھما نہیں ہے۔ اس وقت بھی مشرق و مغرب، شمال و جنوب میں ایسی کئی آوازیں ہیں جو امن کے حصول کے لیے اپنی آواز کو بطور ہتھیار بنا کر جنگ پرستوں کے گھناؤنے عزائم کو خاک میں ملانے کے لیے سرکرداں ہیں۔ ایسی ہی موئثر آوازوں میں گوگوش، شاہین نجفی، ایمل، داریوش، لارا فیبین، فایا بھی شامل ہیں جو “جان لینن” ہی کے “امن مشن” کو اپنی آواز کے جادو سے آگے بڑھا رہی ہیں۔ ہمیں ممنون ہونا چاہیے ان آوازوں کا جو قوم، ملک و مِلّت، مذہب، رنگ و نسل اور زبان کے فرق سے ماوراء ہو کر انسانیت کی خاطر اور امن عالم کی خاطر لوگوں کے دلوں میں امن کی شمعیں منور کر رہی ہیں… انہیں تقسیم ہونے سے بچا رہی ہیں۔
میں دعا گو ہوں کہ یہ آوازیں سلامت رہیں اور امنِ عالم کے لیے چار سُو یوں ہی نغمے بکھیرتی رہیں!!!!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply