“گڈی” ۔۔۔ محمد اشتیاق

پوہ کی سخت رات ختم ہونے کو تھی۔ گاوں کی گلیاں سنسان پڑی تھیں۔ کسی کسی گھر سے ہلکی سی کھٹ پٹ کی آوازیں آرہی تھی۔حاکمہ تیز تیز قدم اٹھاتی تقریبا بھاگتی ہوئی جارہی تھی۔ دونوں ہاتھ اپنی چھوٹی سی گرم چادر میں ڈال کے انہیں گرم رکھنے کی کوشش کررہی تھی مگر ٹھنڈ کم نہیں ہو رہی تھی کہ پاوں کی جوتی نے آدھا پاوں بھی کور نہیں کیا ہوا تھا۔ آنسو تھے کہ تھمنے کا نام نہیں لےرہے تھے، اسی چادر سے آنسو صاف کرتے ہوئے بے اختیار منہ سے نکلاہائے ابا۔ پھر خود ہی اپنے منہ پہ ہاتھ رکھ کے اور تیز ہوگئی۔

ہندووں کے چوبارے سے آگے شیخوں والی مسجد کی اونچی سیڑھیاں کے پاس پہنچی کہ اسے سسکاری سنائی دی۔

مائے

اس نے مڑ کے دیکھا تو اس کی تین سالہ بیٹی اس سے تھوڑے فاصلے پہ اپنا پاوں پکڑے کھڑی تھی۔ وہ تڑپ کے اس کے قریبگئی۔

مرجان جوگیے، توں کدے آ گئیں

اس کو گود میں اٹھا کہ اس کا پاوں دیکھا جس میں کوئی چھوٹا سا کنکر چبھ گیا تھا۔ اسے گود میں اٹھا یا، اس کے پاوں صاف کرنےلگی۔

مائے، تو مینوں لے کے کیوں نئیں آئی؟

وہ اس کے پاوں صاف کر رہی تھی اور بچی اپنے ماں کے آنسو۔

مائے، بابا تینوں مریسی

نئیں، کجھ نئیں آکھدا، تو کیوں آئیں میری پچھے، جتیاں وی نئیں پایاں

تو مینوں لے کے نئیں آئی، میں آکھیا تینوں بابا مارے نئیں

مائے، ابا وی تینوں مریسی؟ تو کے کیتا؟

نہ کوئی نئیں مریندا، تو نہ ڈر

اس نے بیٹی کو گود میں اٹھایا اور تیز تیز چلنے لگی۔ آنکھیں تھیں کہ خشک ہونے کو نہیں آ رہی تھیں۔ دل غم میں ڈوبا تھا، اس کا خزانہلٹ گیا تھا، صبر کیسے آتا!


دودھ جیسا رنگ اورشفاف بلوری آنکھوں کے ساتھ وہ دھان پان چھوٹی سی کوہ قاف کی پری لگتی تھی۔ ماں باپ نے بڑے چاہسے نامحاکمہرکھا تھا، اپنے باپ کے گھرکی، اپنے گھر کی، کسی کے دل کی حاکمہ۔ گھر میں خوشحالی تھی، بھڑولے میں سارا سالدانے رہتے تھے، اپنی بکریاں تھیں، گائے تھی، ابا کی زمین تھی جس پہ ابا اور بڑے بھائی کھیتی باڑی کرتے تھے۔ ایک وہ اور ایکسب سے چھوٹا بھائی گھر پر ہوتے تھے۔ ابھی ہوش بھی نہیں سنبھالا کہ ماں دنیا چھوڑ کر چلی گئی۔ بہنیں پہلے ہی بیاہ کے اپنے گھرجا چکی تھیں۔ بھائی بھی اپنے گھروں میں مگن تھے۔ حاکمہ اپنے ابا اور بھائی کے ساتھ اکیلی رہ گئی۔

ابا ہر طرح سے دونوں کا خیال رکھتا تھا۔ ان کے اکیلا ہونے کی وجہ سے کھیت سے جلدی آجاتا تھا۔ ابا اور بہنوں نے اس کو روٹیبنانا بھی سکھا دی تھی۔ ابا اس کی چھوٹی سی ٹیڑھی میڑھی روٹی کھا کر خوب تعریفیں کرتا۔ شام ہوتے ہی بھائی سردار پھونکیں مار مارکے آگ جلاتا، کیوں کہ بہن کی بلور جیسی آنکھوں سے فورا پانی آ جاتا تھا اور سردار کو اپنی بہن کی آنکھوں میں پانی برا لگتا تھا۔ کھانابن جاتا تو تینوں چولہے کے پاس بوری بچھا کے کھانا کھاتے۔ ابھی کھانا کھا رہے ہوتے تھے تو وہ ابا سے ضد کرنے لگتی۔۔

ابا اج توں دارے تے نئیں جانا

ابا سردارا سئیں ویندا تے مینوں بہوں ڈر لگدا

ابا روز وعدہ کرتا کہ وہ دارے (چوپال) نہیں جائے گا، اور پھر روز کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کے اپنا وعدہ توڑتا۔ جب واپس آتا تو دونوںبہن بھائی چولہے کے پاس ہی بوری پہ سوئے ہوتے تھے۔ ان کو اٹھا کر چارپائی پر لٹا دیتا۔ بیوی کی جدائی نے اس کو بھی ایک دمسے بوڑھا اور کمزور کر دیا تھا۔

ابا جب بھی کھیتوں سے واپس آتا تو بیٹی کے لیے کچھ نہ کچھ لے کر ضرور آتا۔ کبھی پوٹلی میں اپنی بیری کے میٹھے بیر، کبھی گڑ، کبھیبتاشے اور کبھی ریوڑیاں۔ دروازہ کھلتے ہی وہ بھاگی بھاگی آتی اور ابا کے ہاتھ سے پوٹلی لینے کی کوشش کرتی۔ بتاشے کھاتے اس کیبلوری آنکھوں میں جو چمک آتی وہ دیکھنے کے لیے اس کا باپ روز اتنے تردد سے کوئی نہ کوئی چیز لاتا تھا۔ یہ دو معصوم ہی اب اسکی زندگی تھے۔


جس عمر میں باپ کو احساس ہوتا ہے کہ وہ اپنی بیٹی کو کندھے پہ نہیں بیٹھا سکتا، اور مائیں اپنی بیٹیوں کو ہار سنگھار سکھاتی ہیں، اسعمر میں حاکمہ اپنے گھر کی ہو گئی۔ وہ وٹے سٹے میں اپنے ہی گاوں میں بیاہی گئی۔ اس کا خاوند بہت پیار کرنے والا اور محنتی تھا اورہر طرح سے اس کا خیال رکھتا تھا۔ سسر ایسا ملا کہ اپنے باپ کا پیار بھول گئی۔ اس نے بھی اپنے خاوند اور سسر کی خدمت میںکوئی کسر نہ چھوڑی۔ سسراپنے علاقے کے سفید پوشوں میں شمار ہوتا تھا۔ مہمانداری بہت تھی لیکن کبھی اس نے شکائت کا موقع نہبننے دیا۔ پھر اللہ نے گود بھی ہری کر دی۔ خاوند کے لیے پورے جہان میں حاکمہ ہی سب کچھ تھی۔ وہ جو کماتا اس کے ہاتھ پہ رکھدیتا، اور وہ کفائت شعاری سے خرچ کرتی، مرغیاں پالتی، ان کے انڈے بیچتی، گندم کا لین دین کرتی، ہر طرح سے پیسے جوڑ کےاپنے خاوند کا ہاتھ بٹاتی۔

سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا کہ ایک طوفان نے اس کے ہنستے بستے گھر کا رخ کر لیا۔

اس کے بھائی نے جو اس کی نند کو طلاق دے دی!

یہ خبر بجلی کی طرح اس گھر پہ گری۔ اس رات گھر میں قبرستان جیسا سکوت تھا۔ اس کی نند چارپائی پہ بیٹھی رو رہی تھی۔ وہ اسکے پاس بیٹھی اس کو چپ کرا رہی تھی۔ ذرا ہٹ کر اس کا سسر حقہ سامنے رکھے سوچ میں گم تھا۔ خاوند بے بسی سے بیٹھا سبکو دیکھ رہا تھا۔ باقی کے افراد خانہ غصے میں پیچ و تاب کھا رہے تھے۔ کچھ اس کے میکے کو، اس کے بھائی کو، باپ کو برا بھلا کہہرہے تھے۔ وہ سب سن رہ تھی، سہہ رہی تھی، بھائی پہ غصہ بھی تھا، سہیلیوں جیسی نند سے ہمدردی بھی، سسرال کے سامنے مجرمبنی بیٹھی تھی۔

ساڈی نوۃ ساڈی عزت اے، اس نوں طلاق نئیں دینی، ساڈے جاتک رل ویسن، پر اے اپنے ماں پیو نال کوئی تعلق نہ رکھسی، پترااپنی زنانی کولوں پچھ لے، اگر اس نوں اے شرط منظور اے۔ تاں او ساڈی نوۃ تے دھی۔ نئیں تاں اپنے پیو دے گھر جانے دیتیاری کرے

اس نے یہ فیصلہ قبول کرلیا۔

اپنی اولاد کی خاطر، اپنی خاوند کے لیے۔ ویسے بھی میکے میں اس کا کون تھا؟ ماں تھی نہیں، بہنیں اپنے گھر کی، اور بھائی جس کی وجہسے اس کی زندگی جہنم ہوئی تھی۔ رہ سہہ کر ایک ابا تھا جس کی چھک پڑتی تھی اسے۔

پھر بھی، یہ بھاری پتھر اس نے اٹھا لیا۔


کئی سال بیت گئے۔

وہ تین بچوں کی ماں بن گئی پر پابندی ختم نہ ہوئی۔ اس کا باپ آتا تھا پوٹلی میں اس کے لیے کچھ نہ کچھ لے کر۔ آس پڑوس کے گھرمیں رکھ جاتا کہ میریگڈیکو دے دینا۔ کبھی کبھار ملاقات بھی ہو جاتی پر دھڑکا لگا رہتا کہ سسرال میں کسی کو پتہ نہ چل جائے۔پھر یوں ہوا کہ ڈھلتی عمر نے ابا کو کمزور کر دیا۔ وہ اس کے محلے آنے سے بھی رہ گیا۔ اسے لوگ بتاتے کہ تمہارا ابا نہیں بچے گا اوروہ تڑپ سی جاتی۔ وہ گھٹ گھٹ کر روتی رہتی لیکن ملنے نہ جا سکتی تھی۔ خاوند نے کوشش کی مگرسسر سالوں بعد بھی اپنے فیصلے پہقائم تھا۔ اجازت تو نہ مل سکی الٹا خاوند کو رن مرید ہونے کے طعنے سننے پڑے۔

اور پھر۔۔۔

بالآخر وہ لمحہ بھی آ گیا جس کی سوچ بھی اس کو دہلا دیتی تھی۔

عشاء کی نماز کے ساتھ اس کے باپ کے فوت ہونے کا اعلان ہوگیا۔ اس تک خبر پہنچی تو وہ بے کل ہو کے اپنے سسر کے پاوںپڑ گئی کہ ایک دفعہ اپنے باپ کا منہ دیکھنے جانے دو۔ لیکن فیصلہ اٹل تھا۔ برس ہا برس بھی اس بوڑھے کے دل پہ لگے زخم کو مندملنہیں کر پائے تھے۔ صاف انکار ہوا بلکہ سسر غصے میں بپھر گیا۔ چھڑی اٹھائی اور مارنے دوڑا۔ وہ اپنے کمرے میں دبک گئی۔ سسرنے دروازے پے چھڑی مارتے ہوئے آخری وارننگ دی۔

اگر تو اس دا منہ تکن گئی تے اس گھرنال تیرا کوئی تعلق نئیں

سسر نے چارپائی عین دروازے کے آگے ڈال لی کہ یہ کہیں چھپ کر نکل نہ جائے۔ شور سن کے پڑوسن ماسی آ گئی، اس نے سسرکو چپ کروایا اور اندر جا کر اسے بھی سمجھایا۔ ماسی جاتے جاتے اسے بتا گئی۔۔

تیرے پیو دی منجی فجر تو بعد رڑی تے تھوڑی دیر واسطے رکھسن

اور اس نے ساری رات آنکھوں میں کاٹ دی۔ اس کا فیصلہ بھی اٹل تھا، وہ اپنے باپ سے آخری ملاقات کو جائے گی۔


کلمہ شہادت

لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ۔۔۔۔

گاوں ختم ہوتے ہیرڑیتھی۔ یہ مٹی کا ٹیلہ تھا۔ جنازے کے ساتھ آنے والے میت وہاں رکھ کر کھڑے تھے۔ ایک بندہ گیسکی روشنی کیے چارپائی کے ساتھ کھڑا تھا۔ اکا دکا خواتین جو میت کا منہ دیکھنے کے لیے آئی تھیں، وہ بھی واپس چلی گئی تھیں۔

میت چاؤ، زیادہ انتظار نئین کرنا چاہی دا

کس دا انتظار نے؟

چلو!!!! چاؤ شاباش

چارپائی اٹھائی گی۔ روشنی والا بندہ چارپائی پہ آگے چل پڑا۔ ابھی چند قدم ہی اٹھائے تھے کہ بھائی نے اسے دیکھ لیا۔ وہ اندھیرےمیں بیٹی کو اٹھائے، پاگلوں کی طرح بھاگتی ہوئی آرہی تھی۔۔

رک جاو، منجی رکھو تلے

انہوں نے چارپائی نیچے رکھ دی اور ایک طرف ہٹ کر کھڑے ہو گئے۔ وہ دیوانہ وار بھاگتی ہوئی آئی۔ کسی نے اس کی بچی کوتھاما۔ وہ دوڑی آئی، چارپائی پر گری، ابا کے چہرے کو ہاتھوں میں لے کر چیخی۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

ابا!!!!! ویکھ تیری گڈی آئی

Facebook Comments

محمد اشتیاق
Muhammad Ishtiaq is a passionate writer who has been associated with literature for many years. He writes for Mukaalma and other blogs/websites. He is a cricket addict and runs his own platform ( Club Info)where he writes about cricket news and updates, his website has the biggest database of Domestic Clubs, teams and players in Pakistan. His association with cricket is remarkable. By profession, he is a Software Engineer and has been working as Data Base Architect in a Private It company.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply